• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو (نیب) کے نئے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بدھ کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد میڈیا کے سامنے اپنا ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتساب سب کے لیے ہے اور سب کا ہو گا۔ ہر کام قانون کے تحت کروں گا کسی سے نا انصافی نہیں ہو گی لیکن خوابوں کی تعبیر نہیں دے سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام بڑے کیسز کو شفاف طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے گا اور کوئی معاملہ التوا کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پانامہ کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے نیب عدالت میں مقدمہ زیرسماعت ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کے خلاف کیسز میرٹ پر چلیں گے اور کیس کی پراسیکیوشن کی مانیٹرنگ خود کروں گا اور نیب میں تبدیلی سب کو نظر آئے گی۔ کرپشن چاہے مالی ہو یا غیر مالی یہ سب مسائل کی ماں ہے اور اس وقت پانامہ کیس سمیت زیر التوا معاملات کے بارے میں نیب کا شفاف طریقے سے کام کر کے اپنے وجود کو تسلیم کرانے کا یہ بہترین موقع ہے۔چیئرمین نیب کی کہی ہوئی باتیں ایسی ہیں جنہیں قوم سننے کے لیے بے چین تھی۔ دیانت داری اور اصول پسندی جسٹس (ر) جاوید اقبال کی وجہ شہرت ہے۔ وہ بے داغ ماضی کے حامل ہیں انہوں نے ایک ایسے وقت پر اپنا عہدہ سنبھالا جب نیب کی کارکردگی پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی نیب کے کردار سے مطمئن نہیں، سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج کا بدھ کو ایک از خود نوٹس کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دینا کہ 5لاکھ روپے کی کرپشن کے ملزم سے محض 15ہزار روپے لیکر اسے دوبارہ نوکری پر بحال کرتے ہوئے مزید کرپشن کے لیے چھوڑ دینے جیسے اقدام پر کیوں نہ (سابق) چیئرمین نیب کو نوٹس جاری کیا جائے۔ نیب کے قیام کے 18 برسوں میں حکومتوں نے اسے سب سے زیادہ اپنے دفاع اور مخالفین پر کرپشن کے کیسز بنانے کے لیے استعمال کیا تاہم بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے شاید ہی کوئی بچا ہو۔ اس طرح 18برس سے بے شمار کیسز نیب میں زیر التوا ہیں یہ شکایت بھی ہے کہ آج تک نیب بڑی مچھلیوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکا۔ نیب کے میگا کرپشن تصفیہ طلب کیسز کے بارے میں جاری کردہ فہرست میں سوائے ایک دو ناموں کے کوئی کیس ایسا سامنے نہیں آیا جو بااثر افراد کے حوالے سے ہو۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا میڈیا کے سامنے بحیثیت چیئرمین نیب کو ایک فعال ادارہ بنانے کا عزم خوش آئند ہے قوم اس وقت کا انتظار کر رہی ہے جب لوٹی گئی کھربوں روپے کی دولت قومی خزانے میں واپس لائی جائے گی اور سیاستدان ہو یا بیورو کریٹ، جج ہو یا جرنیل سب کو بلاتفریق احتساب کے دائرے میں لایا جائے گا۔1999میں نیب کے قیام سے اب تک آٹھ چیئرمین اپنی ذمہ داریاں پوری کر کے ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں اس لحاظ سے اب تک ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ بڑی حد تک ہو جانا چاہیئے تھا لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2016میں ملک میں کرپشن کا گراف سب سے زیادہ تھا۔ گزشتہ 18برس میں کرپشن کے لحاظ سے پاکستان 176ممالک میں 116ویں نمبر تھا جبکہ2013میں127ویں اور 2010میں 143ویں نمبر پر تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت ملک میں سرکاری سطح پر ہونے والی کرپشن میں پولیس کا محکمہ پہلے نمبر پر ہے نچلی سطح پر سب سے زیادہ بدعنوانی ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہونے والی کرپشن کو روکنے کے لیے ملک میں تین مرتبہ اقدامات اٹھائے گئے نیب کا قیام ماضی کے تجربات کی روشنی میں جدید رجحانات کے تحت عمل میں لایا گیا تھا اس کے باوجود کرپشن ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ سرکاری طور پر وفاق سے لیکر صوبائی حکومتوں تک ایک سے لیکر22گریڈ تک کوئی سطح ایسی نہیں جہاں بدعنوانی موجود نہ ہو جبکہ بعض محکمے کرپشن کی وجہ سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ چھوٹی بڑی تمام سطحوں پر ہونے والی کرپشن یا تو پکڑی نہیں جاتی یا کرپٹ لوگوں کو پکڑ کر بعد میں چھوڑ دیا جاتا ہے کرپٹ اہلکاروں اور ان کی سرپرستی کرنے والے افسران تک پہنچنے کی ضرورت ہے اس کے لیے نیب کو نئی حکمت عملی اور نیٹ ورکنگ بنانا ہو گی اور سب سے پہلے نیب کو خود اپنے بدعنوان اہلکاروں پر ہاتھ ڈالنا ہو گا۔

تازہ ترین