• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں بہت کچھ ہورہا ہے۔ ایک بحران کی سی کیفیت ہے۔ حماقتیں اپنی جگہ ہیں، سازشوں کی بو بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس سے شایدکوئی فرق نہیں پڑتا کہ ترمیمی بل میں ختم ِنبوت کی شق میں کس ڈرافٹ مین نے غلطی سے، یا دانستہ، ایک بھیانک ترمیم کردی۔ یہ غلطی تو اس نے کی ہی۔ مگر پنجاب کے وزیر ِ داخلہ کو تشویش ہے کہ اس فردکی نشاندہی کی گئی تو اس کی زندگی کوخطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ نہ کریں۔ مگر جو کچھ ہوا اس کا جائزہ تو لینا ضروری ہے۔ اس فرد سے کہیں زیادہ، بلکہ اصل ذمہ داری تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بیٹھنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ ڈرافٹ میں کسی نے کوئی غلطی کی، یا کسی نے ، فرض کریں کوئی سازش کی، جس کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا، تو بھی اصل ذمہ داری تو ان کی ہے جن کا فرض بنتا ہے کہ کوئی تر میم ہو یا کوئی بل، اسے منظور کرنے سے پہلے اس کا پوری طرح، نہایت باریک بینی سے مطالعہ کریں، جائزہ لیں۔ اس میں موجود اغلاط کی نشاندہی کریں، اور انہیں درست کروائیں۔ ان سب نے کیا کیا، جو دونوں ایوانوں میں موجود تھے؟ کچھ بھی نہیں کیا، صرف کوتاہی کی۔ حکومتی ارکان کو تو اپنا بل منظور کرانے کی جلدی تھی، کہ اس طرح نااہل ہونے والے نواز شریف اپنی جماعت کے صدر منتخب ہو سکیں۔وہ مقصد انہیں حاصل ہوگیا۔ دوسری جماعتوں کے لوگ کیا کررہے تھے؟ کیا ان میں سے کسی نے بھی بل کو پوری طرح پڑھنے کی زحمت کی؟ کوئی ذرا سی بھی سعی کی کہ اسے سمجھ سکیں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ جو حالات بل کی منظوری کے بعد سامنے آئے اس سے تو یہی لگا کہ کسی نے بھی بل غور سے نہیں پڑھا، سوائے چند ایک کے، اللہ ان کا بھلا کرے۔ کیا پارلیمان کے ان ارکان کو جو کافی عرصے سے ان ایوانوں میں براجمان ہیں، یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہر بل پوری طرح پڑھا جاتا ہے، اسی لئے پہلے ایک کمیٹی میں بھیجا جاتا ہے، پھر ایوان میں آتا ہے، اور اس پر باقاعدہ بحث ہوتی ہے ایک ایک شق پر۔ پھر اسے منظور کیا جاتا ہے۔ تو جن لوگوں نے بغیر پڑھے اس ترمیم کو منظور کرلیا، اصل ذمہ دار تو وہ ہوئے۔ اب وہی شور مچا رہے ہیں کہ غلطی کرنے والے کی نشاندہی کی جائے۔ واہ صاحب، کوئی غریب ڈرافٹ مین مارا جائے، آپ جو اتنی بھاری تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں اور اپنے بنیادی فرائض بھی پورے نہیں کرتے، آپ کو کچھ نہیں کہا جائے۔
حیرانی تو اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ سرکاری اہلکار اور وزراء اس بھیانک غلطی کی نشاندہی کے بعد بھی تردید کرتے رہے کہ کوئی بڑی ترمیم نہیں ہوئی ہے۔انہیں یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ دراصل انہوں نے کر کیا دیا ہے۔ ایک اندازہ یہ بھی ہوا کہ بہت سے نقادوں نے بھی اس ترمیم کو پوری طرح نہیں پڑھا تھا۔ بس ایک شور مچنا شروع ہوا تو وہ بھی شامل ہوگئے۔ کئی لوگوں نے کہا کہ حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اور کیا ہواتھا؟ کم ہی لوگوں نے پتہ کرنے کی کوشش کی۔ ختم نبوت کا اقرار اور حلف لینے سے پہلے ایک اور سطر تھی۔ اس میں کہا گیا تھا I, the above mentioned candidate, solemnly swear that,- اور اس کے بعد ختم نبوت کا اعتراف اور حلف تھا۔ یہ سطر بھی ترمیم کے ذریعہ نکال دی گئی تھی۔ ایسا کیوں ہوا؟کیوں کیا گیا ؟ اور کسی کو یہ نظر کیوں نہیں آیا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آج اور آنے والی نسلیں بھی مانگ سکتی ہیں۔ حکومت کو جلد عقل آگئی، یا جلد اس ملک کے باشعور لوگوں نے انہیں باور کرادیا کہ یہ ایک بھیانک غلطی ہے، اسے جلدی دور کیا جائے۔ ساری جماعتوں نے بالاتفاق ختم نبوت کے حلف اور اقرار کو اپنی اصل شکل میں بحال کردیا۔ کسی نے کوئی احسان نہیں کیا۔ اپنی ایک کوتاہی انہوں نے دور کی ۔ان کا فرض بھی تھا، عوام کی طرف سے بھی اور دین کی طرف سے بھی۔ اور اس لئے بھی کہ یہ ملک اس وقت کسی بڑے دنگے فساد کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس کی وجہ ہے۔ ملک اس وقت جس بحران سے دوچار ہے، وہی اس میں انتہا درجے کی بے چینی، اور تقسیم در تقسیم Polarisation پیدا کر چکا ہے۔ اگر قریب سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے ہر ایک کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں اپنی ساری توانائی خرچ کر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ ان دنوں جس مشکل سے دو چار ہیں، ماضی میں کم ہی ہوا ہے۔ ہوا ضرور ہے، ہر دور میں، کئی بار اس کا تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ مگر ان دنوں معاملات اتنے زیادہ خراب ہیں کہ ان پر تفصیل سے زیادہ گفتگو بھی نہیں ہو سکتی۔ دبائو ہیں کئی جانب سے، کہیں سے زیادہ، کہیں سے بہت زیادہ۔ وہ کچھ ہورہا ہے جس کا ایک جمہوری معاشرے میں تصور بھی کبھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ خود ذرائع ابلاغ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ وہ جو ایک برائے نام پیشہ ورانہ یکجہتی سی تھی وہ بھی اب نظر نہیں آتی۔ کسی بھی دن مختلف چینل دیکھ لیں، ہاتھ دھو کر ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ تہذیب اور شائستگی کا دامن بھی اکثر و بیشتر ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ یوں ہونا نہیں چاہئے۔ یہ نہیں کہ آپ اپنے خیالات کا اظہار نہ کریں۔ضرور کریں۔ مگر اس کام کے لئے کچھ تمیز درکار ہوتی ہے، اس کا خیال رکھیں۔ اس لئے بھی کہ اس ملک کے عوام آپ کو دیکھتے ہیں، آپ کے بارے میں سوچتے ہیں، خود بھی تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ اپنی ایک رائے لوگوں کے بارے میں بناتے ہیں۔ آپ اگر اچھا رویہ رکھیں گے تو آپ کے بارے میں ایک اچھی رائے بنے گی، ورنہ ظاہر ہے، گفتگو اگر اخلاقی سطح سے گری ہوئی ہو تو رائے بھی اسی طرح کی بنے گی۔ اور یہ سب یا اس میں سے کچھ کسی کے کہنے پر ہورہا ہے تواور بھی برا ہے۔ جو آج ایک کے ساتھ، یا چند کے ساتھ ہورہا ہے، دوسروں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کا تدارک ابھی کرنا ضروری۔ اور وہ صرف اتحاد سے ہو سکتا ہے۔ ایک اخبار کے خلاف کارروائی ہوئی تو سب اس کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ نہیں ہوئے۔ اب ایک دوسرے ادارے کے خلاف رپورٹ درج کردی گئی۔ کسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ آنے والے کل میں یہ سب کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے، آہستہ آہستہ، الگ الگ کرکے، ایک ایک کرکے۔ ایک جرمن مذہبی اسکالر کی ایک نظم آپ نے سنی ہوگی، یا پڑھی ہوگی۔ ایک بار پھر دہرانے کی معذرت۔ یہ صاحب 1892 میں پیدا ہوئے اور ان کاا نتقال 1984 میں ہوا۔ پہلے ہٹلر کے حامی تھے، پھر الگ ہوگئے اور نازی ا زم کے خلاف رہے۔اُس دور کے جبری معاشرے کا حوالہ ہے۔ اس سے زیادہ اس بات کی اہمیت اجاگر کی کہ لوگ اگر بزدلی کا مظاہرہ کریں گے تو کل انہیں بھی وہی سب کچھ بھگتنا ہوگا جس پر وہ پہلے خاموش رہے۔ دیکھئے کیا کہتے ہیں ؎
جب نازی کمیونسٹوں کے لئے آئے،
تو میں خاموش رہا۔
میں کمیونسٹ نہیں تھا۔
جب انہوں نے سوشل ڈیموکریٹوں کو بند کیا،
میں چپ رہا۔
میں سوشل ڈیموکریٹ نہیں تھا۔
جب وہ ٹریڈ یونینسٹوں کی تلاش میں آئے،
میں نہیں بولا۔
میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔
جب وہ یہودیوں کے لئے آئے،
میں خاموش رہا۔
میں یہودی نہیں تھا۔
جب وہ میرے لئے آئے،
میرے لئے بولنے والا کوئی بچا نہیں تھا۔
آگے آپ کی مرضی !!!!

تازہ ترین