• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے یاد ہے کہ ایف 9سیکٹر افسروں کو الاٹ ہوتے ہوتے ایسے بچا کہ اس وقت کے چیئرمین سی۔ ڈی ۔اے اور میرے ہم جماعت ظفر نے بڑی مشکلوں سے سرکار کو یہ کہہ کر منوایا کہ یہاں تو نواز شریف صاحب کبھی کبھی کرکٹ کھیلنے آتے ہیں ۔ ویسے بھی اسلام آباد میں کوئی باغ نہیںملے تو اس پورے سیکٹر کے گرد جنگلہ لگا کر باقاعدہ سیر کرنے والوں کے لئے رستے بنائے جائیں اور سیر کر کے تھک جانے والوںکے لئے کچھ بینچیز بھی لگوا دی جائیں۔ اتفاق سے اس وقت بے نظیر کی حکومت تھی اور اچھے موڈ میں تھیں نہ صرف اس تجویز سے اتفاق کیا بلکہ چند لوگوں کے اصرار پر پارک کا نام فاطمہ جناح پارک بھی تسلیم کر لیا۔ ہم نے بڑی خوشی سے بغلیں بجائیں۔ پارک میں عالمی سطح پر پتنگ بازی کا دن منایا گیا۔ چیمبر آف کامرس نے مہمانوں کے لئے لنچ کا اہتمام کیا۔ یہ میلہ سی ۔ ڈی۔ اے اور پی ۔ این۔ سی۔ اے نے مل کر منعقد کیا ۔ فاطمہ جناح پارک کے ہر سیکٹر کی جانب کھلنے والے گیٹ لگائے گئے۔ ابھی بہت لوگوں کی نظراس وسیع خوبصورت جگہ پر تھی۔ پہلے تو سی۔ ڈے ۔ اے والوں نے پارک پہ نظر رکھنے کے لئے ،اپنے ایک افسر کے لئے ہٹ بنائی۔ پھر ایک بہت ہی مشہور شخصیت نے بلا اجازت، اپنے کسی رشتہ دار کو ریسٹورنٹ بنا کر دیدیا۔ اس کے خلاف شور تو بہت مچا، مگر پھر سب جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ البتہ وہاں شادیوں کی پارٹیاں کرنے سے منع کر دیا گیا۔ ابھی بھی لوگوں کو پارک کی وسعت کھٹک رہی تھی کہ نظریۂ پاکستان کا نام لے کر باقاعدہ عمارت بنوالی۔ اب نظریۂ پاکستان کے نام پر تو کوئی حرف نہیں لایا جا سکتا ۔ اس لئے اس تعمیر نے اپنا مقام بنا لیا۔ پی۔ این۔ سی۔ اے کا ارادہ تو تھا کہ ساری دنیا کی طرح باغ میںمشہور پاکستان سنگ تراشوں کے بنائے ہوئے مجسمے لگائے جائیں۔ بہتر ہے خلیفہ ہارون رشید کے زمانے کو یاد کرایا کہ کس طرح ان کے محل میں خوبصورت مجسمے لگے ہوئے تھے۔ مگر قدامت پرستوں کے سامنے دانشوروں کی بات کہاں چلتی ہے۔ مشکل سے ایک نشانی امن کی بنائی گئی اور دوسری عورتوں کی جدوجہد کے حوالے سے، اس پر ایک نظم لکھ کر پکڑا دی گئی۔ خر دماغ لوگوں نے نظم تو مٹا ڈالی مجسمہ توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
ابھی پارک کی بربادی کی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ قریب ہی ایک بہت فیشن ایبل بلڈنگ بنی۔ اس کوبجلی کی باقاعدہ سپلائی کے لئے ٹرانسفارمر لگانے کے لئے جگہ اور سرمایہ، دونوں فراہم کر دیے گئے۔ سب کے دانت فاطمہ جناح پارک پر تھے بہت لوگوں نے شور مچایا۔ فوزیہ من اللہ اور طاہرہ عبداللہ نے اخباروں میں لکھا۔ سڑکوں پر احتجاج کیا۔ سرمایہ داروں اور سرکار کی تو ہمیشہ خوب نبھتی ہے۔ وہ بھی لگ کر رہے اور بن کر رہے۔
اب اس بے چارے باغ میں پہلے پہل کی طرح کسی میلے کا اہتمام نہیں ہوتا۔ بچوں کے لئے کوئی خاص جھولے نہیں ہیں۔ چاروں طرف جو لوہے کا جنگلہ لگا تھا وہ بہت سی جگہوں سے ٹوٹا ہوا ہے۔ پہلے گاڑیاں اندر جایا کرتی تھیں۔ اب باہر ہی کھڑی ہوتی ہیں۔ کچھ تو صحت کے مارے روزانہ چہل قدمی کے لئے آتے ہیں البتہ اچھے موسم میں بچوںکے ساتھ خاندان آتے ہیں۔ باتھ روم کی ضرورت تو ویسے ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ اس لئے گھر سے کر کے آئو۔ گھاس کی اور پودوں کی کٹائی اور تراش خراش کی جانب بھی توجہ کم ہے۔ بس یہی شکر ہے کہ فاطمہ جناح پارک پہ گھر بنانے والوں کی بدنظر ابھی نہیں پڑی ہے۔ البتہ ایف، ٹین میں جو پارک کے نزدیک جو دس منزلہ عمارتیں ہیں ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ لوگوں کے فلیٹ کے ہر فلور پہ وہ سرخ ڈبہ لٹکا ہوا ہے۔ جسے آگ بجھانے والا کہتے ہیں۔ خدا نہ کرے عوامی سینٹر کی طرح کہیں آگ لگ جائے تو سب کاپول کھل جائے۔ بجلی کے بلوں سے لے کر سب ٹیکس وغیرہ حاصل کرنے کی ذمہ داری کو ٹھیکے پر دیدیا جاتاہے۔ آگے آپ سمجھدار ہیں۔
پھولوں کی روشیں، سوائے نیشنل اسمبلی والی اعلیٰ سڑک پر تو لگتا ہے کہ بہار ہے۔ پھول کھلے ہیں۔ باقی شہر میں، آج کل کی بارشوں کے بعد جنگل کھڑے ہیں۔ ویسے میں نے اب آپ پارہ والی سڑک پہ جاناچھوڑ دیا ہے کہ ہر آنے والی حکومت ان خستہ حال کوارٹروں کو گرا کر وہاں ملٹی اسٹوری بلڈنگیں بنانے کے بعد، وہاں رہنے والے چپراسیوں کو آسان اقساط پر فلیٹ دے دئیے جانے کا وعدہ کرتی ہے یہ وعدے ہر آنے والی حکومت کرتی ہے۔ کوارٹروں کی حالت زار دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی چھت نہ گر جائے۔ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ جب ان ملازمین سے پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے ۔ بس یہ کرم ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد، بیٹے کے نام وہ تیس سالہ پرانا کوارٹر کر دیا جاتا ہے۔ پوچھو تو تمہاری کالونی بننے کا کیا بنا۔ جواب ملے کہ کسی دن قرعہ اندازی ہو گی اور زمین دی جائے گی۔ وہ زمین کہاں ہو گی۔ اس بارے قطعی فیصلہ نہیں ہواہے جہاںتک صفائی کرنے والوں کے لئے کسی جگہ کے تعین کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے وہ جو جھگیاں، سو کوارٹر کے نام سے انہوں نے زبردستی بنا لی ہیں ان کو روز وہاں سے اٹھانے کا شور مچتا ہے۔ متبادل جگہ دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ لوگ آخر کو صبر کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔
ہر چند اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ چیئرمین کا دیگر ممبران کا انتخاب بھی ہوا۔ کوئی تحریری اطلاع علاقے کے لوگوں کو نہیں ہے کہ آپ کے علاقے کے ممبران کا دفتر فلاں جگہ واقع ہے۔ آپ رابطہ کر سکتے ہیں۔ جس کی پہنچ ہو، اس کے گھر چائے پینے آجاتے ہیں کیا ممکن ہے جیسے سنا ہے نئے وزیراعظم کام کر رہے ہیں۔ ویسے سی ۔ ڈی اے ا ور بلدیاتی ادارے بھی اسلام آباد کے مکینوں کا خیال رکھیںگے۔ کسی دن کسی مارکیٹ میںگاڑی پارک کرنے کی ضرورت ہو تو شام سے رات ہو جائیگی جگہ نہیں ملےگی۔ اس سے تو لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ اچھی وہاں کئی منزلہ پارکنگ بلڈنگ بنائی گئی ہے۔

تازہ ترین