• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسم گرما تقریباً آخری دموں پر ہے اور سردیاں رونمائی کررہی ہیں۔ کسی انگریز نے پوچھا کہ پاکستان کے موسم کیسے ہوتے ہیں، اسے بتایا گیا کہ’’سال کے بارہ مہینوں میں آٹھ مہینے گرمیوں کے ہوتے ہیں اور چار مہینے بہت زیادہ گرمیوں کے‘‘ ہمارے سردیوں کے مہینے اتنے مختصر اور اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ انگریزوں کی گرمیاں ان کے مقابلے میں کمزور محسوس ہوتی ہیں۔سردیوں کی نام نہاد آمد سے لنڈے بازار کے دکانداروں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ ملک کا غریب طبقہ جو اکثریت میں ہے سردیوں سے بچنے کے لئے امیر ملکوں کے لوگوں کے اترنوں میں اپنا جسم چھپانے پر مجبور ہیں جبکہ امیر طبقے کے لوگ پوشاکوں پر شاید اتنا ہی خرچ کرتے ہوں گے جتنا وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ آج تک قوم پر مسلط ہونے والی تمام قوتیں اپنے ملک میں غربت ختم کرنے اور خوشحالی کو فروغ دینے کے وعدے یا دعوے کرتی ہیں جو وہ آسانی سے بھول جاتی ہیں، چنانچہ ہر حکومت کے بعد نئی حکومت کے لئے غربت کا رقبہ پہلے سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے فوجی بھی غربت میں کوئی کمی لانے میں کامیاب نہیں ہوئے جبکہ ان کی حکومتوں کا مجموعی عرصہ سول حکومتوں سے زیادہ نہیں تو برابر ضرور ہے۔حکومتوں کی وعدے خلافیوں نے عوام یا رعایا کے اعتبار کو متاثر کیا ہے اس لئے ہر حکومت کےنئے وعدے کرنے والی حکومت کے اعتبار اور اعتماد میں بہت زیادہ کمی ہورہی ہے۔ عوام یا رعایا نے سوچا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جو وعدے کررہے ہیں وہ ان کو پورے کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں مگر صلاحیت کے باوصف وہ یہ وعدہ پورا نہیں کرسکے کیونکہ حکمران وعدے کرتے ہیں اور ان وعدوں کو پورا کرنا افسر شاہی کے فرائض میں شامل ہے۔ فرائض کی بے حرمتی سے زیادہ وعدوں کی بے حرمتی ہوتی ہے اور نقصان قومی ترقی اور حکومت کے اعتماد کا ہوتا ہے مگر ہمارا یہ وطیرہ بھی ابھی موجود اور زندہ ہے کہ؎جنہاں سانوں دھوکے دتے اونہاں کولوںنویاں آساں لا بیٹھے آںعوام اور رعایا حکومتوں سے امیدیں لگا بیٹھنے پر مجبور ہوتی ہے کیونکہ وہ کسی وعدہ خلافی کے ارتکاب پر اسمبلی میں کوئی تحریک پیش کرنے کی طاقت نہیںرکھتی ہے۔ اسمبلیوں میں طاقت صرف کھاتے پیتے گھرانوں کی ہوتی ہے جو غریبوں کی کوئی فکر یا پروا نہیں رکھتیں۔ امیر گھرانے غریبوں کی فکر کیوں کریں گے جبکہ وہ غریبوں کا خون چوس کر اپنی امارت کی صحت میں اضافہ کرتے ہیں۔ بابا ٹیڈ گرانٹ نے کہا تھا کہ امیر وں کی بدقسمتی ہے کہ غریبوں کو دن میں دو وقت بھوک لگتی اور کسی بھی چوٹ پر درد یا اذیت ہوتی ہے لیکن یہ عالمی حقیقت امیر طبقوں کو متاثر نہیں کرسکتی۔بلیاں دستانے پہن لیں تو بھوکی مرجائیں گی۔ ظالموں کے دل میں رحم داخل ہوجائے تو ظالم نہیں رہیں گے۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے گزشتہ دنوں اپنی تقریر میں امیر طبقے کو خبردار کیا تھا کہ غریب اور امیر طبقوں میں انصاف کو رواج نہ دیا گیا تو ملک میں خونی انقلاب آنے کا خدشہ رہے گا، مگر یہ خدشہ ازل سے موجود ہے اور ابد تک موجود رہے گا۔ غریب اور امیر طبقوں میں انصاف رواج پاجائے تو دنیا کی آبادی جنگوں اور قحط میں ہونے والی اموات سے دائمی طور پر محفوظ ہوجائے گی۔ کسی بھی آنکھ سے کسی آنسو کے ٹپکنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔لیکن یہ ہوبھی سکتا ہے کہ غریب اور امیر کے درمیان انصاف کی خوبی آجائے مگر پھر غریب غریب نہیں رہے گا اور امیر امارت کے عیش و آرام سے محروم ہوجائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے دس امیر ترین لوگوں کے پاس اس قدر دولت جمع ہوچکی ہے کہ جس کے مناسب استعمال سے ملک کی غربت، جہالت اور بیماری ختم کی جاسکتی ہے۔ بلاشبہ کی جاسکتی ہے مگر کون کرے گا اور کیوں کرے گا۔ خونی انقلاب سے پہلے ہوجائے تو شاید خونی انقلاب کی ضرورت ہی نہ رہے۔

تازہ ترین