• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

11اکتوبر کو بگ بی امیتابھ بچن نے اپنی زندگی کی پلاٹینم جوبلی (75 سالہ ) سالگرہ منائی اور12اکتوبر کے دن نون لیگ کی حکومت نے اپنے خلاف ہونے والی ’’بارہ اکتوبری ‘‘ کے اٹھارہ سال مکمل کرلئے ۔1999ءمیں 12اکتوبر کے دن اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے ہیوی مینڈیٹ فیم وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت کا دھڑن تختہ کرکے’’ ایمرجنسی پلس‘‘ نامی مارشل لا نافذکردیا تھا۔اس سے قبل نافذکئے جانے والے مارشل لا کے روح رواں جنرل محمد ضیاالحق تھے جنہوں نے 90دن میں صاف شفاف انتخابات اوراسلامی نظام کے نفاذ کے نعرے بلند کرکے گیارہ سال تک حکومت فرمائی ۔طویل عرصہ میں وہ اسلامی نظام نافذکرنے کی بجائے صرف حدود آرڈی نینس ہی نافذکرسکے اورغیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں جو نئی لیڈر شپ متعارف کرائی گئی میاں نوازشریف اس کے سرخیل ثابت ہوئے۔ جنرل ضیااور ان کے رفقاء کار وں میں شامل جنرل حمیدگل کہاکرتے تھے کہ ’’نوازشریف ہمارا فخرہیں‘‘۔ میاں نوازشریف کو عدالتی فیصلے کے نتیجہ میں نااہل قراردے کر وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا ہے، نوازشریف ،مریم نواز،حسن ،حسین ،اسحاق ڈار اور دیگر شریفوں پر نیب میں کرپشن کے کیسز ہیں۔32سالوں میں نوازشریف دومرتبہ وزیر اعلیٰ رہے ،نگران وزیر اعلیٰ کا دور بھی شامل کریںتو انہوں نے سی ایم شپ کی ہیٹرک بھی مکمل کی ۔پرائم منسٹر کے طور پر بھی انہوں نے ہیٹرک کی تاہم اس کے بعد کرپشن کے الزام میں نا اہل قراردے دیاگیا۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ اپنی ڈیزائن کردہ جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ہربار ایک نئے تجربے کا ایڈونچر کب تک جاری رہے گا؟
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے اپنے ادوار میں مقبول ترین جمہوری حکومتوں کے خلاف جو بغاوتیں کیں ان پر بالترتیب اسلامی انقلاب اور بعدازاں روشن خیالی کے غلاف چڑھائے گئے۔ جنرل ضیاء کے دور میں لڑی جانے والی امریکی جنگ کو افغان جہاد اور جنرل مشرف کے دورمیں لڑی گئی وارآن ٹیرر میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کے تجربات نے ہماری معاشرت اور معیشت کو تباہ کیا۔نئی عسکری ڈاکٹرائن حوصلہ افزاہے جس کے تحت آرمی چیف قمرجاوید باجوہ نے کہا ہے کہ سلامتی اور معیشت جڑواں ہیں۔معاشی استحکام کے لئے عدم استحکام دور کرنا ہوگا ۔ ہمارا خطہ ڈوبے گا توسب ڈوبیںگے۔ نیودہلی سے ہم دوستی چاہتے ہیں لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔جنرل باجوہ نے کہاکہ تمام قومیں پرانی سوچ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اقتصادی استحکام اور قومی سلامتی کے درمیان توازن پر توجہ دے رہی ہیں۔سوویت یونین کے پاس ہتھیار کم نہ تھے مگر کمزور معیشت کے سبب ٹوٹ گیا۔آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل ریٹائرڈ احسان الحق نے تو اس سے بھی آگے کی بات کی ہے ۔چیف صاحب نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کو کرکٹ کھیلنا چاہیے اور تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے چاہئیں۔امن کا یہ اکسیری نسخہ انہوں نےبھارتی خفیہ ایجنسی (را) کے سابق چیف امرجیت سنگھ دلت کی موجودگی میں بیان کیا۔پاکستان اور بھارتی جاسوس اداروں کے چیفس لندن میں کرائے گئے مذاکرے میں شریک تھے ۔لندن سے جیوکے مرتضی شاہ نے بیان کیاہے کہ دونوں چیفس نے سوالوں کے جواب دئیے اور لطائف بھی سنائے اوردونوں نے اتفاق کیاکہ پاکستان اوربھارت میں جنگ کوئی آپشن نہیں ہے۔آرمی چیف جنرل باجوہ نیودہلی سے مشروط دوستی کی بات کررہے ہیں ،دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق چیف بھی جنگ کو رد کررہے ہیں ۔یہ بات جہاں خطے میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے لئے خوشی اور اطمینان کاباعث ہے وہاں ایسی ’’کمپنیوں ‘‘ کے لئے بری خبر بھی ہے جن کی روٹی روزی بربادی اورتباہی سے مشروط ہے۔زندگی کی ریل پیل رہے تو گورکنوں کے چولہے ٹھنڈے پڑجائیں۔ہر گھر کے آنگن میں خوشیوں کی شہنائیاں گونجیں تو رودالیاں (آہ وبکاہ اور ماتم کرنے والی پیشہ ور) کیاکریں گی؟؟؟ہمارے ہاں چند ’’کلاسیکل اورنیم کلاسیکل جنگی کلاکار‘‘ہیں جو ہروقت جنگجویانہ قسم کے راگ ، ٹھمریاں ،کافیاں ،دادرے اور غزلیں الاپتے رہتے ہیں، وہ ہر گھڑی طبل جنگ بجاتے رہتے ہیں ان سے وابستہ بعض ہیرواور سائیڈ ہیروہرشام7 بجے سے لے کر 12بجے تک الیکٹرانک بارڈر پر دشمنوں کے دانت کھٹے کرتے ہیں۔امید ہے کہ چیف صاحبان کے تازہ بیان کے بعد وہ اپنے جنگی آرکسٹرا پر امن کی Symphony(دھن) بھی گائیں گے ۔ اپنے صحافتی کیرئیر میں درجن سے زائد مرتبہ بھارت گیاہوں جہاں میں نے دیکھاہے کہ بعض بھارتی اخبارات اور ٹیلی وژن چینلز اپنے ہرصفحہ اور ہر پروگرام میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ان کی ادارتی پالیسی اور بزنس ہے اس سے انحراف کرکے وہ اپنا دھندہ چوپٹ نہیں کرنا چاہتے ۔ ہمارے ہاں بھی ایسے میڈیا گروپ ہیں جو ایٹمی دھماکے کا کریڈٹ میاں نوازشریف کی بجائے خود لیتے ہیں۔شکر ہے کہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کیلئے ایٹم بم ڈاکٹر عبدالقدیر اور ان کے ساتھیوں نے بنایا وگرنہ ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ دعویٰ کریں کہ ایٹمی تازہ شمارہ چوبیس صفحات کے ساتھ دستیاب ہے ،عورتوں مردوں بچوں اور بوڑھوں میں یکساں پسند کیاجاتاہے۔اپنے ہائیڈروجن ایڈیشن کے لئے وہ یوں دعویٰ کریںکہ آٹھ کالمی ایٹم بم بقیہ صفحہ آٹھ پر ملاحظہ فرمائیں۔
قابل ذکر امر ہے کہ دونوں ممالک میں آباد اکثریت جنگ نہیں چاہتی ۔اکتوبر کے مہینے میں اپنی 75ویں سالگرہ منانے والے امیتابھ بچن نے کارگل کے دنوں میںبھارت کے معروف ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاتھاکہ پاکستان کو دشمن ملک نہیں سمجھتے۔
بگ بی نے اس کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ اس دیس میں ان کے لاکھوں چاہنے والے بستے ہیں اور ویسے بھی پاکستان ان کی ماں تیجی بائی کی جنم بھومی ہے۔جولائی 2001میں ممبئی میں مجھے انٹرویو دیتے ہوئے امیتابھ بچن نے پہلی بار انکشاف کیاتھاکہ ان کی والدہ تیجی بائی لائل پور( فیصل آباد) سے ہیں ۔بگ بی نے یہ بھی بتایاکہ ڈھائی تین سال کی عمر میں وہ اپنی والدہ تیجی بائی کے ساتھ پاکستان کے شہر فیصل آباد آئے تھے ۔ مجھے یاد ہے اپنے ننھیال کا ذکر کرتے ہوئے امیتابھ بچن کی آنکھیں چمک اٹھیں تھیں۔میں نے سوال کیاکہ آپ یہ چاہیں گے کہ اپنا ننھیال دوبارہ دیکھیں؟اس پر انہوں نے کہاکہ میں چاہتاہوں پاکستان جائوں تو اپنے ساتھ محبتوں کا ایسا سیلاب لے جائوں جو تمام نفرتوں کو بہا لے جائے۔بچن صاحب نے کہاکہ میرے دوست یش چوپڑہ اور پریم چوپڑہ دونوں لاہوری ہیں ان کے ساتھ کئی مرتبہ پروگرام بنایاکہ لاہور چلتے ہیں لیکن ابھی تک یہ خواب ادھوراہے۔بگ بی نےیہ بھی بتایاکہ ان کی ماں تیجی بائی گورنمنٹ کالج لاہور کی گریجویٹ ہیںاب وہ بیمار بھی رہتی ہیں ان کی خواہش ہے کہ ایک بار وہ اپنا لائل پور اور لاہوردیکھیں اور اپنے کالج بھی جائیں لیکن ڈاکٹر انہیں سفر کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔اگلی بارجب میں ممبئی گیاتو گورنمنٹ کالج کی سوغات سالنامہ ’’راوی‘‘ کے چند نسخے ساتھ لے گیاجو بچن صاحب نے اپنی ماں کو اس وقت تحفے میں دئیے جب وہ ممبئی کے لیلاوتی اسپتال میں اپنی آخری سانسیں گن رہی تھیں۔تیجی بائی کے محسوسات سمجھ سکتاہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے والد غلام سرورمیر بھی یہ جہان فانی چھوڑنے سے چند لمحے پہلے تک اپنے آبائی شہر جموں کو یاد کررہے تھے۔دعاہے کہ دونوں ملکوں کے کروڑوں عوام سکھ ،چین اور خوشحالی کی منزل پاسکیں اور دعاہے کہ غلام سرورمیر اور تیجی بائی جیسے زندہ بزرگ اپنا اپنا لائل پور اور جموں دیکھ کر اس دنیا سے رخصت ہوں۔

تازہ ترین