• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی بنک کی جنوبی ایشیاسے متعلق اقتصادی رپورٹ خبر دیتی ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی معزولی سے جنم لینے والی سیاسی بے یقینی کے باعث پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح کم ہونے کا خدشہ ہے۔یعنی وہ معاشی استحکام جوگزشتہ چار برسو ں میں ہمیں نصیب ہوا، سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام کی نذر ہونے کا خطرہ ہے۔ دوسری طرف پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ، جو ہمارے مستحکم معاشی مستقبل کا ضامن ہے، وہ دنیا کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے اس منصوبے کی برملا مخالفت کر دی ہے۔ امریکی موقف ہے کہ یہ منصوبہ متنازع علاقوں سے گزرتا ہے۔ لہذا امریکہ کو اس پر’اصولی‘اختلاف ہے۔ایک اور سنگین معاملہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ الزام عائد کر رہی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں اور جہادی گروپوں کو تعاون فراہم کرتا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پاکستان کا دورہ کریں گے اور امریکی صدر کا سخت پیغام پہنچائیں گے۔ تاکہ (بقول امریکہ) ہم اپنا قبلہ درست کریں۔ ہماری معیشت، خود مختاری اور قومی سلامتی سے جڑے یہ معاملات نہایت اہم نوعیت کے ہیں۔ چند روز قبل آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے بجا طور پر قومی سلامتی اور ملکی معیشت کو لازم و ملزوم قرار دیا۔اس امر کا ادراک مگر بے حد ضروری ہے کہ یہ تمام معاملات سیاسی استحکام سے جڑے ہیں۔ ملکی دفاع، قومی سلامتی ، مستحکم معیشت ، تعمیر و ترقی کو اسی صورت یقینی بنایا جا سکتا ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ سیاسی بے یقینی افراتفری ، اور انتشار کی کیفیت ، تمام معاملات پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
اس وقت وطن عزیز کو سنجیدہ اور گمبھیر صورتحال کا سامنا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرئے۔ اپنے باہمی اختلافات کسی او ر وقت کیلئے اٹھا رکھے۔ آپس میں مل بیٹھیں اور درپیش مسائل کے حوالے سے کوئی حکمت عملی وضع کریں۔ مگرہمارے سیاستدان تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ توقع تھی کہ میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد اپوزیشن جماعتیں اپنی توجہ پارلیمنٹ پر مرکوز کریں گی اور خود کو انتخابات 2018 کی تیاریوں تک محدود رکھیں گی۔ مگرایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ نوازشریف کی نااہلی کے بعد بھی سیاسی ہنگامہ خیزی اپنی جگہ برقرار ہے ۔ اب سیاسی مخالفین کی توانائی اس نکتے پر مرکوز ہے کہ کسی طرح شریف خاندان جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آئے۔ اس سیاسی منظرنامے میں کبھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کا مطالبہ سامنے آتا ہے، کبھی فوری انتخابات کا۔ فی الحال ان مطالبات کو پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ خودحکومت بھی مشکلات کا شکار ہے۔ کبھی احتساب عدالت کے باہر رینجرز کی تعیناتی کا قضیہ سامنے آجاتا ہے، کبھی ختم نبوت کے حلف نامہ میں ترمیم اور کبھی آ۔بی کی طرف سے 37 اراکین پارلیمنٹ کے کالعدم تنظیموں سے تعلقات کا خط(جسکی وزیر اعظم اور ڈی ۔جی آئی بی تردید کر چکے) زیر بحث نظر آتا ہے۔ ایسے حالات لامحالہ حکومتی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور ان کی زد ریاستی مفادات پر بھی پڑتی ہے۔
مگرکسے فکر ہے کہ ملکی معیشت کے زوال پذیر ہونے کا خدشہ ہے، کسے پروا کہ بھارت اقتصادی راہداری منصوبے پر ،امریکہ کو اپنا ہمنواہ بنا چکا ، کسے فکر کہ دوست ملک چین ہمیںسیاسی عدم استحکام سے گریز کا مشورہ دے رہا ہے، کسے غرض کہ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات بڑھ رہے ہیں۔ کسے فکر کہ سماج میں انتہاپسندی بڑھ رہی ہے، کسے پروا کہ جامعات تنزلی کا شکار ہیں اور نوجوان نسل منشیات جیسی لعنت کا شکار ہو رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملکی معاملات کی اصلاح اور درستگی سے ہمیں کوئی غرض نہیں ۔ پروا ہے تو صرف اسقدر کہ سیاسی مخالفین کو نیچا کیسے دکھایا جائے۔وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنا گھر ٹھیک کرنے کی بات کی تو مخالفین ان پر چڑھ دوڑے۔ ہم بھول بیٹھے کہ نیشنل ایکشن پلان کا مطلب اپنے گھر کی اصلاح کرنا ہی تھا۔ جس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے طے کیا تھا کہ ہمیں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں میڈیا ، دینی مدارس ا ور نصاب تعلیم کی اصلاح درکار ہے۔ اداروں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔۔ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد بھی ہم نے اپنے گھر کی درستگی کیلئے شروع کر رکھا ہے ۔ مگر گھر ٹھیک کرنے کے بیان پر ہمارے ہاں خوب سیاست ہوئی۔
بجائے اس کے کہ ہم واقعتا اپنے معاملات کی اصلاح کریں ، اپنے اداروں کو مستحکم بنائیں۔ ہماری تمام تر توجہ پاناما لیکس پر مرکوز ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ شریف خاندان پر مرکوز ہے۔ ورنہ پاناما لیکس میںتو ساڑھے چار سو افراد کے نام تھے۔ وہ سب نام مگر احتسابی عمل سے مستثنیٰ ہیں۔ چند دن پہلے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے فرمایا کہ ’’ وقت آگیا ہے کہ ہر طاقتور کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے‘‘۔ سمجھ سے بالا ہے کہ قانون کا یہ کٹہرا خیبر پختونخوامیں نظر کیوں نہیں آتا۔ وہاں احتساب کے ادارے پر تالے پڑے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوامیں احتساب کمیشن کا سربراہ مقرر کروانے اور احتسابی عمل کا آغاز کرنے کیلئے عمران خان پر دباو ڈالتے۔ یوں بھی خان صاحب انصاف اور احتساب کے بلند آہنگ دعویدار ہیں۔وفاق میں نیب چیئرمین کیلئے انہوں نے تین بہت اچھے نام تجویز کئے تھے۔ ان میں شعیب سڈل تو نہایت عمدہ شہرت کے حامل ہیں۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو چاہئے کہ انہیں خیبر پختونخوا احتساب کمیشن کا سربراہ مقرر کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو عوام سمجھیں گے کہ’ احتساب‘محض سیاسی نعرہ ہے۔
گرچہ میڈیاکا کردار ہمارے ہاں اکثربیشتر تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کی بے لگامی کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ میڈیا نے لوگوں کو بے حد شعو ر دیا ہے۔ انہیں سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ شریف خاندان کے احتساب پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ احتساب کا رخ فقط ایک خاندان کی طرف کیوں موڑ دیا گیا ہے۔ عوام سوچتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری عدالت کے سامنے پیش ہوسکتے ہیں تو سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو کیوں قانونی و آئینی شکنجے سے کامل استثنیٰ حاصل ہے۔کیپٹن(ر) صفدر کو گرفتار کر لیا جاتا ہے تو لوگ سوال کرتے ہیں کہ عدالتی احکامات کے باوجود آج تک عمران خان اور طاہر القادری کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟۔
سیاستدانوں ، میڈیا اور اداروں کو اگر اپنی ساکھ اور وقار قائم رکھنا ہے تو عوام کے ان سوالات کا جواب دینا ہو گا۔احتساب اور جواب دہی کا کوئی یکساں نظام وضع کرنا ہو گا۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سب دوسروں کی گرفت کیساتھ ساتھ خود احتسابی کی جانب بھی توجہ مرکوز رکھیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ انتقامی سیاست کو اس مقام تک نہ لے جائیں کہ اسکی زد ہماری قومی سلامتی، دفاع، خود مختاری، تعمیرو ترقی اور معیشت پر پڑے۔

تازہ ترین