• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل جو بات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے نہیں کی جا سکتی ، وہ بات لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے کرتے ہیں ۔ ان دنوں سوشل میڈیا میں پاکستان کے اندر ’’ قومی حکومت ‘‘ کے قیام کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ باخبر ذرائع کا حوالہ سب سے زیادہ سوشل میڈیا میں دیا جاتا ہے ۔ انہی باخبر ذرائع کی آڑ میں قومی حکومت کے قیام سے متعلق خبریں آ رہی ہیں ۔ ان خبروں میں قومی حکومت کے قیام کی مدت اور ایجنڈے کی تفصیلات بھی دی جا رہی ہیں ۔ مدت دو سے تین سال بتائی جا رہی ہے اور ایجنڈے میں ’’ بلا امتیاز احتساب ‘‘ ، معیشت کی بحالی ، سی پیک میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور آئین میں بعض اہم ترامیم شامل ہیں ۔ سوشل میڈیا پر قومی حکومت کے معاملے پر بحث میں ابھی تک کہیں سے واضح طور پر بات سامنے نہیں آئی ہے کہ قومی حکومت کے قیام کا آئینی راستہ کیا ہے ؟
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اگرچہ باخبر ذرائع سے قومی حکومت کے قیام سے متعلق ابھی تک خبروں کا آغاز نہیں ہوا ہے لیکن سوشل میڈیا پر قومی حکومت کی تشکیل کے جو اسباب بیان کیے جا رہے ہیں ، ان پر بحث شدت اختیار کر چکی ہے ۔ سب سے پہلے سوشل میڈیا پر بہت اہم لوگوں کے نام سے تجزیے آتے رہے ، جن میں بڑھتے ہوئے قرضوں اور معاشی بحران کو پاکستان کا سنگین مسئلہ قرار دیا گیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اس معاشی بحران کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے ، جو تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان کے لئے سنگین داخلی اور خارجی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے ۔ معیشت کی اس خراب صورت حال پر بحث الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ’’ معیشت اور سلامتی کے درمیان ربط ‘‘ کے موضوع پر کراچی میں منعقدہ سیمینار سے جو خطاب کیا ، اس کی وجہ سے بھی بحث میں ایک نیا رخ پیدا ہو گیا ہے ۔ آرمی چیف نے ملک کی سلامتی اور معیشت کو لازم و ملزوم قرار دیا ۔ انہوں نے اگرچہ توانائی اور انفرا سٹرکچر کے شعبوں میں بہتری کا اعتراف کیا لیکن ملک میں قرضوں کے حجم میں بے تحاشا اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ۔ آرمی چیف کے خطاب کے بعد دوسرے دن پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی کراچی یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معیشت اور قومی سلامتی کے تعلق کی مزید وضاحت کی ۔ کچھ لوگ آرمی چیف کے اس خطاب کو بعض قیاس آرائیوں سے جوڑنے کی غلط کوشش کر رہے ہیں ۔ آرمی چیف نے تو وہ حقیقت بیان کی ہے ، جسے سیاسی مدبرین اور معاشی ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ملک میں داخلی امن کا انحصار مضبوط معیشت پر ہے اور اس امر سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں قرضوں کا بوجھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور یہ معاملہ سنگین مسائل پیدا کر سکتا ہے ۔
بات ہو رہی تھی سوشل میڈیا پر قومی حکومت کی تشکیل کی قیاس آرائیوں سے متعلق ۔ اس کا اصل سبب شاید یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومتیں بشمول پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت پاکستان کو ملنے والے جمہوری ’’ وقفے ‘‘ میں عوام کی توقعات پوری نہیں کر سکی ہیں اور سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کے بقول پاکستان میں جمہوریت کا وقفہ ’’ فلم کے انٹرویل ‘‘ کی طرح ہوتا ہے ۔ اب ملک کے سیاسی حالات بھی اس طرف جا رہے ہیں ، جہاں بے یقینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہ سوال پیدا ہو گیا ہے یا کر دیا گیا ہے کہ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو ملک کا کیا ہو گا ؟ سیاست دان خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ایک دوسرے پر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت ہوئی تو اس کا ذمہ دار دوسرا فریق ہو گا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ وہ خود بھی یقین سے یہ نہیں کہہ رہے کہ آئندہ انتخابات وقت پر ہوں گے ۔
پاکستان میں اگر 2018 ء میں عام انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو یہ مسلسل تیسرے عام انتخابات ہوں گے ، جن کے ذریعہ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل ہو گا اور اس طرح تیسری جمہوری حکومت قائم ہو گی ۔ عام انتخابات کے با ربار انعقاد سے یہ تاثر کمزور ہو گا کہ ملک کی اصل مقتدر قوتیں سیاست دان نہیںبلکہ کوئی اور ہیں ۔ اگر نواز شریف کی پارٹی دوبارہ آ جاتی ہے تو یہ تاثر مزید کمزور ہو گا ۔ اس لئے بھی لوگ قومی حکومت کی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں ۔ ان کے خیال میں حقیقی مقتدر قوتیں ان حالات میں خاموش نہیں رہیں گی ۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندے ملنے سے انکار کر رہے ہیں ۔ حکومت کی خارجی محاذ پر کارکردگی ، معاشی بحران اور تصادم کے خدشات نے بھی ان قیاس آرائیوں میں اضافہ کر دیا ہے ۔ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سیاست دان چھوٹے چھوٹے مفادات میں الجھے ہوئے ہیں ، وہ کسی بڑی تبدیلی پر مزاحمت کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ بہرحال بات کہیں سے نکلی ہے اور اس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے تو اس کا کچھ سبب تو ہو گا ۔

تازہ ترین