• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس مرتبہ پاک فوج کے ترجمان یعنی ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنا بیان واپس نہیں لیا ، بلکہ نہ صرف یہ کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں بلکہ انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ کے اس بیان پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا ، جس میں وفاقی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ پاک فوج کے ترجمان کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہئے ۔ اس طرح کے بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں ۔ میجر جنرل آصف غفور کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستانی معیشت کے گر جانے کی بات نہیں کی ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی کہا کہ جمہوریت کو فوج سے خطرہ نہیں ہے بلکہ جمہوریت کے تقاضے پورے نہ کرنے سے خطرہ ہے انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں، فوج جو کچھ کرے گی وہ عوامی امنگوں اور ملک کیلئے کرے گی۔پاک فوج کے ترجمان کی اس وضاحت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاک فوج اس بات پر قائم ہے کہ معیشت اور سیکورٹی کا آپس میں تعلق ہے ۔ معیشت اگر ٹھیک نہ ہوئی تو اس کے سیکورٹی پر اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ امر بھی آشکار ہو چکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد معیشت کے ایشو پر بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور فوج کا بیانیہ ایک جیسا نہیں ہے ۔ پاک فوج کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اداروں میں اختلاف رائے ہوتا ہے ۔ پاک فوج کے ترجمان کی یہ بات درست ہے لیکن پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اس اختلاف رائے کا منطقی نتیجہ کیا ہو گا ؟
حکومت اور فوج کے بیانیے میں تضاد پہلے بھی تھا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکہ جا کر ایشیا سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں اپنے گھر کو صاف کرنا ہو گا ۔ پاکستان میں کچھ انتہا پسند گروپ موجود ہیں ۔ دنیا اگر ’’ ڈومور ‘‘ کا مطالبہ کر رہی ہے تو وہ درست ہے ۔ اس بیانیہ کو نہ صرف فوج کے بیانیہ سے متصادم قرار دیا گیا بلکہ اسے پاکستانی ریاست کے موقف کے منافی بھی تعبیر کیا گیا ۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے ۔ اور اس جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں اور بہت نقصان اٹھایا ہے ۔ اب پاکستان سے ’’ ڈومور ‘‘ کا مطالبہ نہ کیا جائے بلکہ پاکستان کا دنیا سے ’’ ڈومور ‘‘ کا مطالبہ بنتا ہے ۔ پاکستان کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں ہیں ۔ خواجہ آصف نے بعد ازاں دیگر فورمز پر باتیں کرتے ہوئے اپنے اس بیانیہ کو ریاست کے بیانیہ سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ حقیقت ہے کہ خواجہ آصف نے یہ بات صرف امریکہ میں ہی نہیں کہی بلکہ پاکستان میں بھی کی ۔ اس بیانیہ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو دہشت گردی کے خلاف مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ بیانیہ میں اس تضاد کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کے دشمنوں کے موقف کو تقویت ملی بلکہ پاکستان کا کیس بھی کمزور ہوا ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی غیر یقینی صورت حال پیدا ہوئی ۔ دوسری مرتبہ حکومت اور فوج کے بیانیہ میں تضاد ملک کی معاشی صورت حال کے تذکرے پر ہوا ، جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اقتصادی حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملکی قرضے آسمان پر چلے گئے ہیں اور تجارتی توازن بہتر نہیں ہے ۔ انہوںنے ٹیکسوں کا دائرہ بڑھانے کی بھی تجویز دی ۔ اس سیمینار کا عنوان ’’ معیشت اور سیکورٹی میں ربط ‘‘ تھا اور اس کا اہتمام مشترکہ طور پر وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت ( ایف پی سی سی آئی ) اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) نے کیا تھا ۔ دوسرے دن آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے پاکستانی معیشت اور سیکورٹی کے حوالے سے بات کی ۔ اس پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کے ترجمان کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہئے ۔ پاکستان کی معیشت مستحکم ہے ۔ اس طرح کے بیانات پاکستان کی ساکھ متاثر کر سکتے ہیں ۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے جو بیانات دیئے اور حکومت میں شامل دیگر لوگوں نے ان کے دفاع میں مزید جو بیانات دیئے ۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا مقصد وہ نہ ہو ، جو کچھ حلقے بیان کر رہے ہیں ۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ افغان پالیسی دراصل پاکستان خصوصاً پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو دباؤ میں لانے کی پالیسی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملکی معیشت کا جو تجزیہ کیا ہے ، اس کا بھی مقصد وہ نہ ہو ، جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حکمراں اور انکے اتحادی سمجھ رہے ہیں ۔ یہ لوگ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ حکومت کی خراب معاشی کارکردگی کے حوالے سے چارج شیٹ پیش کی گئی ہے ۔ بہرحال دونون طرف کے بیانیہ کا مقصد کچھ بھی ہو ، ملک میں غیر یقینی اور سیاسی بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ حالیہ رپورٹ اسٹیٹ بینک نے جاری کی ہے وہ بھی کافی حد تک فوج کے بیانیہ سے ملتی جلتی ہے۔
جب وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بیان دیا تھا تو اپوزیشن کی سیاسی جماعت اور سول سوسائٹی کے دیگر حلقوں نے اس کی حمایت نہیں کی تھی ۔ سب نے یہی کہا تھا کہ خواجہ آصف کو اس طرح کے بیانات نہیں دینے چاہئیں تھے ۔ اسکے برعکس آرمی چیف کے ملک کی معاشی صورتحال کے تجزیے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں ، FPCCI،تاجر ، صنعت کار اور سول سوسائٹی کے زیادہ تر حلقے حمایت کر رہے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری نے موجودہ صورتحال میںفوری طور پر نیشنل اور پروفیشنل ایمرجنسی کا اعلان کرنے کیلئے کہا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کا کہنا ہے کہ فوج اور آرمی چیف کو معیشت پر بات کرنے سے نہیں روکنا چاہئے ۔ اگر معیشت مضبوط ہو گی تو لائن آف کنٹرول محفوظ ہو گی اور ہمارے پاس اندر سے طاقت ہو گی ۔ ایف پی سی سی آئی نے بھی آئی ایس پی آر کے ڈی جی کے بیان کو حقیقت پر مبنی قرار دیا ہے ۔ PPP کے ڈاکٹر عاصم اور سلیم مانڈویوالا نے ایک پریس کانفرنس میں ملک کی معاشی صورتحال پر گفتگو کی۔معیشت ایک ایسا شعبہ ہے ، جس کا تعلق عام آدمی کی زندگی سے ہے ۔ اسلئے معاشی حقائق کو چھپایا نہیں جا سکتا ۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کے قرضے آسمان پر پہنچ گئے ہیں ۔ اس وقت پاکستان 22 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے ۔ اس سال فروری میں موجودہ حکومت نے خود قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات کے دوران ایک سوال کے تحریری جواب میں یہ تسلیم کیا کہ پاکستان پر 18278 ارب روپے کا قرضہ ہو چکا ہے ، جو 2012-13 ءمیں 13480 ارب روپے تھا یعنی موجودہ حکومت کے صرف چار سالوں میں قرضے میں 35 فیصد اضافہ ہوا ۔ فروری سے اب تک یہ قرضہ 22000 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ۔ یعنی 4 سال پہلے کے مقابلے میں 70فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ پاکستان کا تجارتی توازن بہت بگڑ چکا ہے ۔ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔ بیروزگاری میں خوف ناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ حاصل کئےگئے قرضوں کو سماجی شعبوں اور عام آدمی پر خرچ نہیں کیا گیا ۔ سماجی اور سیاسی ہیجان ہے ۔ کیا حکومت دعویٰ کر سکتی ہے کہ جمہوریت کے تقاضے پورے ہوئے اور وہ عوامی امنگوں پر پورا اتری ہے ۔ اگر ٹیکنو کریٹ یا قومی حکومت کی باتیں ہو رہی ہیں تو اس میں قصور کس کا ہے ۔

تازہ ترین