• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے موجودہ اقتصادی حالات اور خاص کر موجودہ حکومت کی اقتصادی کارکردگی کے حوالے سے پہلے تو کئی عالمی ادارے اور آزاد پاکستانی معاشی ماہرین کئی خدشات کا اظہار کر رہے تھے ۔اب چند روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں ISPR اور FPCCIکے سیمینار میں قومی سلامتی اور معاشی معاملات کے حوالے سے کافی کچھ کہہ دیا ہے جس کی تفصیلات ٹی وی اور اخبارات میں آ چکی ہیں۔اس طرح کے سیمینار 1980ءاور 1990ء کی دہائی میں ISPRمیں ہوا کرتے تھے جب یہ ادارہ اتنا وسیع نہیں تھا جتنا اب ہو چکا ہے۔اس وقت بریگیڈیر ریاض اللہ مرحومISPRکے سربراہ تھے جو موضوع سیمینار کیلئے اس وقت چنا گیا اس طرح کے ایشوز پر اس وقت بھی بات ہوا کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے 1992ءمیں آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی سربراہی میں پاک فوج نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کیا تھا جس میں پہلی بار پاکستان بھر سے 100سے زائد صحافیوں کو بھی فوجی مشقوں کا حصہ بنایا گیا تھا ہم پانچ چھ لوگ جنرل اسلم بیگ کے ہمراہ سرگودھا ترمیموں ہیڈ ورکس وغیرہ میںہوتے تھے اس وقت ہماری فوجی قیادت اقتصادی ایشوز سے زیادہ سیکورٹی ایشوز پر بات کیا کرتی تھی اس لئے کہ ان دنوں میں معیشت اور ملکی معاشی حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے اب ہوتے جارہے ہیں۔اس وقت سیکورٹی ایشوز میں بلوچستان اور افغانستان سرحد کی صورتحال وہ نہیں تھی جو اب ہے اس طرح وقت کے ساتھ سیکورٹی اور معیشت دونوں ہی قابل فکر ایشوز بنتے گئے اور اب موجودہ حکومت کی ساڑھے چار سالہ مدت میں ایسا تاثر سامنے آ رہا ہے کہ معاشی فرنٹ پر عوام کو ریلیف تو نہیں البتہ ان کی تکالیف میں اضافہ ہوا ہے کئی شعبوں میں حکومتی کارکردگی اطمینان بخش بھی رہی ہے مگر قابل ذکر عوامی مسائل خاص کر مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔انرجی کی قیمتوں میں اضافہ اور بجلی کی فراہمی میں تسلسل سے کوششوں کے باوجودعوام کو کوئی فائدہ نہیںہوا جبکہ آرمی چیف کے بقول قرضوں میں مسلسل اضافہ اور تجارتی خسارہ سمیت مالیاتی خسارہ وغیرہ خاصا تشویشناک ہے۔ ان کی یہ بات سب سے اہم ہے کہ معاشی استحکام کے لئےسیاسی عدم استحکام دور کرنا ہو گا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بڑھتا ہواسیاسی عدم استحکام کیسے دور ہو سکتا ہے ۔اس کیلئے تو موجودہ حالات سازگار نظر نہیں آتے اس لئے کہ سیاسی جماعتوں میں قومی سطح پر بڑھتا ہوا اختلاف رائے جو اصولی سے زیادہ سیاسی مقاصد کے پس منظر میں ہے وہ کسی بھی طرح قومی مفاد میں نہیں ہے ہماری عدلیہ اور فوج کے خلاف بالواسطہ اور بلاواسطہ طریقے سے جو منظم مہم چلائی جا رہی ہے اس سے قومی سلامتی کے خدشات اور انصاف کی فوری فراہمی کے مسائل بڑھ سکتے ہیں جس سے ایلیٹ کلاس نہیں غریب اور مڈل کلاس مزید مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے اس لئے کہ ایلیٹ کلاس کا اب پہلا گھر ولایت (لندن) یا کوئی اور یورپی ملک بن چکا ہے یہاں وہ سیاست کرنے اور اس کی آڑ میں معاشی مقاصد حاصل کرنے آتے ہیں اس میں صرف ہر شعبہ زندگی کے کئی قابل ذکر افراد اور خاندان زیر بحث آ سکتے ہیں مگر اگر بات صرف یہاں تک ہی محدود رکھی جائے کہ معاشی استحکام کیلئے سیاسی عدم استحکام کیسے دور ہو سکتا ہے اس کیلئے مالیاتی ڈسپلن اور گورننس خاص کر اکنامک گورننس اور فنانشل ڈسپلن کو موثر بنانے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے قابل عمل اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے اس کیلئے پارلیمنٹ کو اس پھرتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جیسے اس نے پچھلے دنوں اپنے سیاسی مفادات اور مقاصد کیلئے انتخابی اصلاحات کا بل پاس کرایا ایسے ہی انداز میں پارلیمنٹ میں قومی معاشی پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھنے اور سیاسی افہام و تفہیم کیلئے موثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے اگر سیاسی قائدین بشمول حکومتی اراکین اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے مل بیٹھ کر اس ایشو پر غوروفکر نہ کیا تو پھر خدانخواستہ ایسا وقت نہ آ جائے کہ سب ہاتھ ملتے رہ جائیں یا کوئی اور ردعمل سامنےآ جائے ایسی صورتحال سے بچنااور ملک کو بچانا صرف اور صرف قومی سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے اگر ملک میں آنے والے دنوں میں گورننس اور معیشت ان کے ریڈار ا سکرین پر نہ آئے تو پھر دعا کرنی چاہئے کہ کچھ ایسا نہ ہو جائے جو پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے۔ اس حوالے سے خلاف روایت آرمی چیف بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ تمام قائدین سے ملاقاتیں کر سکتے ہیں مگر اس کے پس منظر میں جنرل ضیا کے بھٹو صاحب اور PNAکے ساتھ مذاکرات والا ایجنڈا نہیں ہونا چاہئے ۔اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے ردعمل پر مختلف حلقوں کی رائے یہ سامنے آئی ہے کہ اس کی موجودہ حالات میں کوئی خاص ضرورت نہیں تھی اس سے معاملات اور حالات مزید خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے۔

تازہ ترین