• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ اسرائیل کی مدد کرنے میں اتنا آگے بڑھا ہوا ہے کہ اس نے 1983 میں یہ فیصلہ کیا کہ مشرق وسطیٰ بشمول پاکستان، ایران، ترکی، عراق، سعودی عرب اور شام سے کسی بھی ملک کو نہ تو آبادی کے لحاظ سے بڑا رہنے دیا جائے گا اور نہ ہی رقبے کے لحاظ سے۔ اسرائیل کے ایک سفارت کار یینون نے یہ منصوبہ بنایا کہ اِن ممالک کو لسانی، فرقہ واریت کے حوالے سے تقسیم کردیا جائے، اِس کے بعد کرنل پیٹر والف نے باقاعدہ مشرق وسطیٰ کا ایک نقشہ ترتیب دیا کہ جس میں عراق کے بطن سے دو ممالک مسلک کی بنیاد پر اور ایک کرد عراق بنایا جائے، جو عملاً ہوچکا ہے۔ عراق میں یہ ہورہا ہے مگروہاں روس اور ایران نے امریکہ کی پیش قدمی روکی ہے، عراقی کردستان کے لیڈر مسعود بارزانی نے 25 ستمبر 2017 کو ریفرنڈم کا اعلان کیا اور 93 فیصد ووٹ آزادی کے حق میں آئے۔ اس طرح وہ عراق سے علیحدہ ہو کر ایک ملک بننے کا مینڈیٹ حاصل کرچکے ہیں، اس میں اُن کو امریکہ اور مغرب کی حمایت حاصل ہے۔ یہ معاملہ یہاں رکتا نظر نہیں آتا کیونکہ کرد شام، ترکی، ایران اور آذربائیجان میں رہتے ہیں۔ ترکی اور ایران نے اس کا سخت نوٹس لیا ہے اور کرد لیڈر کو سخت وارننگ دی ہے اور ساتھ ساتھ ایران نے بھی ایسا ہی کیا ہے کیونکہ وہ اِس منصوبے کے تحت پانچ ممالک سے زمینوں کے ٹکڑے نکال کر ایک ملک بنانا چاہتے ہیں۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اگر کردستان ملک بن گیا تو امریکہ کا روئے زمین پر اُس سے زیادہ وفادار ملک کوئی اور نہیں ہوگا، امریکہ انتہائی سفاکانہ انداز میں اِس منصوبے پر عمل پیرا ہے اور ایران سے ایٹمی معاہدہ ختم کررہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران کا اہواز کا علاقہ جو عربی بولنے والے لوگوں پر مشتمل ہے وہ عراق کو دے دیا جائے گا اور ایران سیستان کا علاقہ کاٹ کر عظیم تر بلوچستان بنانے کے کام آئیگا اور برادرعرب ملک سے مشرقی صوبےاور قطیف عراق کے ایک ٹکڑے میں شامل کر دیئے جائیں گے۔ وہ امریکہ کو منانے کی بہت کوشش کررہا ہے جس کی وجہ سے اُسکےعوام میں بے چینی ہے اور مغربی ممالک اِس بے چینی کو حکمرانوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ اسکے علاوہ پاکستان پر بھی امریکہ تقریباً حملہ آور ہوگیا ہے اس نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی مخالفت کی ہےاور ہمارے کچھ علاقوں کو متنازعہ قرار دیدیا ہے جبکہ وہاں کے لوگوں نے ڈوگرا راج کو ہرا کر گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کیا ہے اور وہ فخر سے کہتے ہیں کہ وہ سپر محب وطن پاکستانی ہیں۔ کردستان میں تیل ہے اور لوگ بٹے ہوئے ہیں، زبانوں کے لحاظ سے تاہم نسلاً وہ کرد ہیں۔اس لئے امریکہ کا خیال ہے کہ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بخیہ کرتے وقت جو ملکوں کی لکیریں کھینچی تھیں وہ مصنوعی تھی، اب وہ لسانی، فرقہ اور مذہب اور نسل کے لحاظ سے جو سرحدیں متعین کریں گے وہ فطری اور مستقل ہوں گی۔ اس طرح سے اِس خطے میں امن قائم ہوجائے گا۔ دراصل وہ عظیم تر اسرائیل کے منصوبے پر کام کررہا ہے کہ کسی مسلمان ملک کو طاقتور بننے نہیں دےگا، اگر وہ بن گیا تو اِس کو توڑ نے کی کوشش کرے گا۔ اِس صورتِ حال سے ہمیں یہ اختیار مل جاتا ہے کہ ہم اسرائیل کے خلاف وہ کارروائی کریں کہ وہ عظیم تر اسرائیل کا خواب چھوڑ کر اپنے بچائو کی راہ اختیار کرے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کا بے گناہ خون بہا کر اِن لوگوں نے کشمیر اور فلسطین کے واقعات سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ساتھ اُن کو یہ بھی بتایا ہے کہ دوسرے ملکوں کا بھی یہی حال ہوسکتا ہے۔ ہم نے اِس منصوبے پر 2005ء اور 2006ء میں لکھا اور اپنی کتاب ’’چھٹی عرب اسرائیل جنگ‘‘ میں اس کا نقشہ اور تفصیل درج کردی تھی تاہم ہمارے لوگوں نے اس پر توجہ نہیں دی البتہ کراچی کے ایک جنرل صاحب کو جب تین سال پہلے اِس کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دی تو پھر افغانستان کی سرحد پر خاردار تاروں کاجال بچھانا شروع کیا گیا، اگرچہ سرحد بہت طویل ہے مگر دو سو سے زائد دخول و خروج کے راستے ہیں، وہاں تو پاکستان نےخاردار تاریں لگا دی ہیں اور چمن کے قریب 8 فٹ خندق کھود کر راستہ بند کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اِس سے آگے بڑھ کر الیکٹرانک سسٹم لگانا ضروری ہے اور اس کیلئے اگر ہمیں دہشت گردوں کے حملے روکنے کیلئے کسی حد تک بھی جانا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہئے، دوسرے ہم یاد دلاتے ہیں کہ پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان سینٹو کا معاہدہ تھا اور پھر باہمی معاہدے بھی تھے۔ اس وقت کی اہم ضرورت ہے کہ یہ تینوں ممالک اپنے آپ کو ایک لڑی میں پرو لیں اور دشمن کا مقابلہ کریں، چین اور روس کو ساتھ ملا لیں، جن کے اپنے مفادات ان ممالک کے ساتھ وابستہ ہیں، روس کا جہاں تک معاملہ ہے وہ بھارت کے قریب رہا ہے مگر وہ اب جان گیا ہے کہ بھارت اس سے دھوکہ دے رہا ہے اس لئے وہ اس سے سازوسامان بیچنے کی حد تک تو ساتھ دے گا اس کے علاوہ عملاً وہ بھی بھارت سے جدا ہوگیا ہے۔ بھارت ویسے بھی ایک ہندو ریاست بن گیا ہے، جس نے تاج محل تک کو اپنی سیاحت کی فہرست سے اِس لئے نکال دیا ہے کہ وہ ایک مغل بادشاہ نے بنایا تھا تو اُس ملک میں خانہ جنگی ہونا دیوار پر لکھی نظر آتی ہے۔ پاکستان کو اپنی اندرونی کشمکش کو قابو میں رکھنا ہوگا اگر میاں نواز شریف پاناما کے معاملے میں قربانی دیں تو وہ ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آسکتے ہیں، اُن کا یہ کہنا کافی ہوگا کہ وہ اپنے ملک کیلئے قربانی دیتے ہیں۔ تیسرے پاکستان کو اپنی طاقت کا اظہار کھل کر کرنا ہوگا یا کسی مناسب موقع پر کر دینا چاہئے اور اسرائیل و بھارت کو جتا دینا چاہئے کہ اگر انہوں نے سرخ لکیر عبور کی تو بس ہم نہیں تو تم بھی نہیں۔ ایران کو بھی اپنے سخت روئیے اور انداز کو بدلنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ قریب آنا چاہئے، پاکستانی آرمی چیف وہاں جارہے ہیں، اس لئے کہ وقت کی ضرورت ہے کہ فاصلے کم کئے جائیں اور فوری طور پر چین، پاکستان، ایران، ترکی اور روس کا ایک غیرمعمولی اجلاس منعقد ہونا چاہئے اور صورتِ حال کا جائزہ لے کر مناسب فیصلے کرنے چاہئیں۔

تازہ ترین