• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمراں پارٹی ن لیگ بوکھلا گئی ہے، اندھیرے میں تیر چلارہی ہے۔ سمجھ نہیں آرہی کیپٹن (ر) صفدر کس کو غدار کہہ گئے۔ کیا وہ اس معاملے میں ایوان میں منظور ہونے والے متنازعہ ترمیمی بل پر قائد ایوان وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو غدار کہہ رہے تھے یا اس بل پر ’’عرق ریزی‘‘ کرنے والے وزیر قانون زاہد حامد کو غدار کہہ رہے تھے یا پھر حکمراں جماعت کے صدر نواز شریف کو یہ لقب عطا کر رہے تھے۔ میاں نواز شریف کے داماد اگر وضاحت کردیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ان کے تیروں کا رُخ دراصل اپنے ہی لوگوں کی طرف تھا۔ یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ مخالف فریق بھی مذہب کو اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے لئے استعمال کررہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ کیپٹن (ر) صفدر کو اچانک یہ کیا سُوجھی، کسی بھی ذی شعور رکن اسمبلی سے اس قسم کی حرکت کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ این اے 120 کا انتخابی نتیجہ حکمرانوں کے اعصاب پر سوار ہے۔ اس کے بعد ’’ کیوں نکالا‘‘ کی خالی بوتل ہاتھ میں پکڑ کر حکمراں لڑ کھڑا رہے ہیں، تمام کوششوں کے باوجود قدم جمنے نہیں پارہے۔ یہی لڑکھڑا ہٹ پارلیمنٹ ہائوس میں کیپٹن (ر) صفدر کے نقوش پا میں بھی نظر آئی۔ وہ بہت گہری بات کرگئے۔ ان کا اشارہ کس طرف تھا۔ ہوگا کیا؟ ملکی سیاست پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ کیا یہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو ایک قدم پیچھے ہٹانے کی کوشش تھی یا پھر محاذ آرائی کا نیا میدان سجانا مقصود تھا۔ اگر یہ مذہبی جماعتوں کو دوبارہ قریب کرنے کی کوشش تھی تو نہایت نامناسب حرکت تھی۔ ختم نبوتؐ قانون میں ترمیم کا جو تیر چل گیا وہ اس کی دوبارہ بحالی پر بھی واپس نہیں لوٹ سکتا۔ اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ غلطی نہیں دانستہ کوشش تھی۔ یہ ن لیگ کی بدقسمتی ہے کہ اس معاملے میں قوم بے وقوف بننے کو تیار نہیں۔ اپنے مخالفین کی تعداد ہر روز بڑھانے کا جو راستہ ن لیگ نے منتخب کیا ہے اس پر وہ بڑی تیزی سے رواں دواں ہے۔ امارت کی ایک مضبوط ترین دیوار سیاسی بوجھ تلے زمین بوس ہونے کو تیار ہے۔ دراڑیں پڑ چکی ہیں لوگ صرف اس کا ملبہ اٹھانے کے منتظر ہیں۔ عروج زوال کی یہ المنااک داستان اس گھر کے مکین خود ہی اپنے ہاتھوں سے لکھ رہے ہیں۔ کل کے مضبوط ترین آج کے کمزور ترین سیاسی کردار پناہ کی تلاش میں دربدر ہیں۔ انصاف کا کٹہرا ان کا منتظر ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان جب حواس باختہ ہوتا ہے اپنے بچائو کے لئے ہاتھ پائوں مارتا ہے اور بچ نکلنے کی راہ تلاش کرتا ہے اور کیپٹن (ر) محمدصفدر جیسی کوششیں بھی شروع کر دیتا ہے۔ کھلے دل سے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو ن لیگ کی کشتی میں سوراخ ہو چکا ہے اور یہ جماعت کیپٹن صاحب کے ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے سرخ دانوں کی طرح بکھرتی نظر آتی ہے۔ اشارے بڑے واضح ہیں یہ جو اسلام آباد کے سب سے بڑے گھر میں مقیم ہمارے بابا جی! ہیں بڑی کمال کی شخصیت ہیں۔ ان کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ ہمیشہ ممنون احسان رہتے اور زیادہ تر بڑے گھر کے اندر چلہ کشی میں مصروف رہتے ہیں۔ گوشہ نشینی ہی ان کی واحد مصروفیت ہے مگر ہیں باکمال۔ انہیں وقت سے پہلے آئندہ رونما ہونے والے واقعات کا ادراک ہو جاتا ہے۔ وہ زیادہ تر وجدانی کیفیت میں ہی رہتے ہیں مگر جب بولتے ہیں ایسے لگتا ہے کہ کوئی الہام ہورہا ہو۔ وہ کچھ کر تو نہیں سکتے بیچارے بڑے بے اختیار ہیں مگر کبھی کبھی وجدانی کیفیت میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ سننے والا حیران رہ جائے اور سمجھنے والا مستقبل کی تیاری پکڑ لے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو بابا جی نے فرمایا تھا کہ آپ دیکھیں گے کیسے کیسے لوگ قانون کی گرفت میں آئیں گے۔ پھر ان کی روحانی پیش گوئی کے اثرات ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ ایک عدالت ہے دیکھتے جائیے کون کون کٹہرے میں آتا ہے۔ اب ایک بار پھر بابا جی وجدانی کیفیت میں ہیں ایک بڑی معزز محفل جس کے سامعین میں اعلیٰ سول و فوجی حکام کیساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے معتبرین بھی موجود تھے۔ بابا جی نے داخلی و خارجی سلامتی کو درپیش خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا داخلی سلامتی پر اثرانداز ہونے والے خارجی عوامل پر ازسرنو غور کرکے دانش مندانہ حکمت عملی تیار کی جائے۔ بابا جی فرما رہے تھے کہ مملکت خدادادِ پاکستان کو درپیش خطرات سے نبٹنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ چاہے اس کےلئے قانونی ڈھانچہ ہی کیوں نہ تبدیل کرنا پڑے۔
بابا جی کے مریدین نے ان کے روحانی پیغام کا جو ’’نچوڑ‘‘ نکالا ہے اس کے مطابق تو صاف نظر آرہا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کا ڈبہ گول ہو چکا، سیاست دان قوم کو کچھ دینے میں ناکام ہو چکے، کوئی اس اہل نہیں کہ قوم کی صحیح رہنمائی کرسکے اور موجودہ درپیش خارجی و داخلی چیلنجوں سے اکیلے نمٹ سکےاس لئے کہ گرداب سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ طویل المدتی قومی نظام حکومت ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ہونے والی ورکشاپ میںیہ تمام اعلیٰ ترین دماغ سر جوڑے بیٹھے تھے کہ پاکستان کا نیا بیانہ کیا ہوگا۔ بابا جی کے روحانی پیغام کے مطابق پاکستان کا نیا بیانہ لکھا جا چکا ہے جو ان نکات پرمشتمل ہوگا۔ داخلی و خارجی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں ، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو عوامی حمایت سے منطقی انجام تک پہنچانا، مذہب اور انتہا پسندی کے فرق کو واضح کرنے کیلئے نظام تعلیم کی اصلاح ، صحت وروزگارکے یکساں مواقع، ملک و ملت کی تنظیم نو کے لئے پوری قوم اور اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی سے نیشنل ایکشن پلان پر دیانت دارانہ عمل درآمد،اس روحانی پیغام کے برعکس اسی دن ہمارے مری کے راجہ صاحب نے اٹک میں جواب آں غزل پیش کیا کہ ٹیکنو کریٹ یا غیر جمہوری حکومت پاکستان کے مسائل حل نہیں کرسکتی۔ مگر اس کا کیا جائےجو دیوار پر لکھا نظر آتا ہے۔ کیپٹن صاحب کی الٹی گھومتی تسبیح کے نتیجے میں چوہدری نثار، میر ظفر اللہ جمالی جیسے نگینے بہت دور جاچکے، وفاقی وزیر ریاض پیر زادہ جیسے کئی اراکین پارلیمنٹ اشارے کے منتظر ہیں، فاٹا اراکین جس طرح دھرنے پر ہیں نظر یہی آتا ہے کہ تحفظ ختم نبوتؐ پر ایمان کی شق کو چھیڑنے والے اللہ کی پکڑ میں ہیں اورآئندہ اس شق پر صحیح ایمان لانے والوں کا ہی نظام ہوگا اور ایک ایک کرکے سب ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ مسلم لیگ ن کے ایک رکن پنجاب اسمبلی مجھے چلتے چلتے صرف اتنا کہہ گئے حضوروالا! حالات بڑے خراب ہیں۔ تمام ساتھی بڑے فکر مند ہیں۔ ختم نبوت پر ایمان کی شق کو چھیڑنے والاجتنامرضی چھپ جائے راجہ ظفر الحق کی انکوائری کی رپورٹ منظر عام پر آئے یا نہ آئے اس کا انجام ضرور بُرا ہوگا اپنے کئے کی سزا ضرور بھگتے گا۔ بس آپ یہ سمجھ لیں ہمارا مستقبل شہباز شریف سے جڑا ہے۔ بس ذرا انتظار کیجئے سب ٹھیک ہو جائے گا۔

تازہ ترین