• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں چھٹی مردم شماری کے چیدہ چیدہ عبوری نتائج کا اعلان اگست 2017ء کے آخری ہفتے کر دیا گیا۔ جن کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 20 کروڑ77لاکھ 74ہزار ہوگئی ۔جس میں1998ء کی نسبت 57فیصد اور1981ء کے بعد سے 146.6فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا۔ نتائج کے مطابق قومی سطح پر پنجاب اور سندھ میں آبادی کی شرح نمو میں کمی جبکہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور فاٹا میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ کل مجموعی آبادی میں 10کروڑ 64لاکھ 49ہزار322مرد اور 10کروڑ 13لاکھ 14ہزار 780خواتین جبکہ10ہزار 418خواجہ سرا ہیں۔ ایک لحاظ سے گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں خواتین کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے ۔ ان نتائج کے مطابق پاکستان میں گھرانوں کی تعداد 3کروڑ 22لاکھ 5ہزار 111ہوگئی ہے جن میں سے دیہی علاقوں میں2کروڑ 12ہزار 797 اور شہروں میں گھرانوں کی تعداد ایک کروڑ 21لاکھ92ہزار 314ہے۔ جبکہ دیہی مجموعی آبادی 13کروڑ 21 لاکھ 89ہزار 531 اور شہری علاقوں کی مجموعی آباد ی7کروڑ 55لاکھ 84ہزار 898 ہوگئی ہے ۔یہ بدقسمتی ہے کہ ملک میں 1951ء کی پہلی مردم شماری سے لیکر آج تک انکے نتائج کو کبھی بھی پوری طرح سے نہ تو تسلیم کیا گیا اور نہ ہی اعتراضات سے پاک رہے ، اُسکی شاید وجوہات یہ ہیں کہ ہم مجموعی ملکی مفادات کو دیکھنے کی بجائے ذاتی ، سیاسی مفادات اور علاقائی سیاسی دکانداریوں کو ترجیع دیتے ہیں۔ یا پھر ان نتائج کی روشنی میں وسائل کی علاقہ وائز جو تقسیم ہوتی ہے اُسمیں ناانصافی کا بڑا عمل دخل ہے ۔ حالیہ مردم شماری کے نتائج پہلے مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کئےگئے جس نے تفصیلی جائزے کے بعد وزارت شماریات کو عبوری نتائج جاری کرنیکی اجازت دی۔ اس مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کی نمائندگی موجود ہے اسکے باوجود نتائج کے اعلان کے فوراً بعد سندھ حکومت نے ان نتائج کو نہ صرف یکسر مسترد کر دیا بلکہ اس کیخلاف ہائیکورٹ میں چلی گئی ۔ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اگر ہم صرف تنقید برائے تنقید کو ہی وطیرہ بنالیں تو نقصان صرف ملک کا ہوگا؟ ہم وسیع تر ملکی مفاد میں کیوں نہیں سوچتے کہ ان نتائج سے کس طرح بہتر انداز میں فائدہ اٹھانا چاہئے ۔
ویسے تو ہر چیز کی منصوبہ بندی اعداد وشمار کی بنیاد پر ہوتی ہے ملکی اور شخصی ضروریات کا اندازہ بھی مردم شمار ی سے لگایا جاتا ہے۔ لیکن ملکی وسائل کی تقسیم اور انتخابات کیلئے صحیح حلقہ بندیوں کا انحصار سب سے زیادہ مردم شماری پر ہوتا ہے ۔ آئین کی شق 51(3) کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا ازسر نوتعین اور حلقوں میں ردوبدل مردم شماری سے مشروط ہے جبکہ آئین کی شق 60(2) کے مطابق ہر مردم شماری کے بعد قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل اور صوبوں کیلئے فنڈز اور ملازمتوں کے کوٹے کاتعین ضروری ہے ۔ یہی وہ نکات ہیں جن پر سیاست ہوتی ہے اور ہر مردم شماری کا کسی نہ کسی حوالے سے متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چونکہ سال 2018ء الیکشن کا سال ہے اور ملک کی معاشی صورتحال اور قرضوں کا بھاری بھر کم بوجھ ہونے کیوجہ سے سیاستدانوں کے مفادات اسوقت عروج پر ہیں ۔ آنیوالے انتخابات کیلئے نئی حلقہ بندیاں بنیادی ضرورت ہیں لیکن بعض مفادپرست سیاستدانوں کا سارا زور اس بات پر رہا کہ محکمہ شماریات مردم شماری کا حتمی نوٹیفکیشن فوری جاری نہ کرے کیونکہ نومبر سے پہلے تک اگر نوٹیفکیشن ہوجاتا ہے تو پھر نئی حلقہ بندیوں کا کام شروع ہو جائیگا۔ جس کیلئے کم از کم چھ مہینے درکار ہیں 2002 کے الیکشن میں حلقوں کی تقسیم 1998کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوئی تھی، اسوقت قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 272ہے جبکہ نئی مردم شماری کے مطابق اسمیں 150سے زائد سٹیوں کا نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ حلقے بھی بدل جائیں گے ۔
ماضی کے انتخابات میں سیاستدان مرضی کے علاقے اپنے حلقے میں شامل کرواتے رہے اور یہی دھاندلی کی بنیاد ہیں ۔ اسلئے اب الیکشن کمیشن کا یہ کام ہے کہ وہ چھٹی مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیاں دیانتداری کی بنیاد پر مکمل کروائے ، گو الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ نومبر کے مہینے میں گھر گھر جا کر ووٹر فہرستوں کی تصدیق کی جائیگی لیکن یہ کرنے سے پہلے کچھ اور ضروری کام ہیں کیونکہ ہمیشہ سے یہ گلہ رہا ہے کہ حکومتیں سارے فنڈز بڑے شہروں پرخرچ کر تی ہیں یا پھر اتنی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے کہ دور دراز کے علاقے اس سے قطعی طور پر استفادہ نہیں کر سکتے ۔ اسلئے ضروری ہے کہ پورے ملک میں آبادی کے تناسب کو مدنظر رکھ کر انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنائے جائیں ۔ مثال کے طور پر پنجاب کی آبادی گیارہ کروڑ 12ہزار 442نفوس پر مشتمل ہے ۔ اسکو کم از کم تین صوبوں میں تقسیم ہونا چاہئے ۔ اسکے بعد تمام اضلاع کی آبادی کو ایک خاص حد تک کنٹرول میں رکھنے کیلئے قانون سازی کی جائے اور وسائل کی تقسیم بھی انصاف پر کی جانی چاہئے ۔ اسکے بعد قومی اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی کسی کی پسند نہ پسند کی بجائے نیچرل طریقے سے ہو۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن ان کے مطابق ووٹر فہرستیں مکمل کروائے اور ان نئی فہرستوں کی بنیاد پر الیکشن کروائے جائیں جبکہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر یہ سارا پراسیس مکمل کئےبغیر پرانی حلقہ بندیوں اور ووٹر فہرستوں پر انتخابات کروائے جاتے ہیں تو پھر راتوں رات جتنی مرضی انتخابی اصلاحات لے آئیں اُن سے نہ تو قطعی طور پر منصفانہ ، شفاف اور غیر جانبدار الیکشن ہو سکتے ہیں او ر نہ ہی مثبت تبدیلی کی اُمید رکھنی چاہئے اور1 2کروڑ عوام کے نام پر استحصال کر کے صرف نااہل ہی پارٹی سربراہ منتخب ہو سکے گا۔ چھٹی مردم شماری کی خاص بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی مردم شماری کرائی گئی لیکن انکے نتائج کا اجرا نہ کرنا باعث تشویش ہے جبکہ ابتدائی نتائج میں معذور افراد کو نظر انداز کر دیا گیا اور ان کی گنتی شامل نہیں کی گئی حالانکہ 1998ء کی مردم شماری میں انکی تعداد 32لاکھ 86ہزار تھی ۔ اسی طرح کراچی کی آبادی کم ہونے کے حوالے سے اعتراضات سامنے آئے ، گو محکمہ شماریات نے واضح کر دیا ہے کہ ایک چولہے کو ایک خاندان تصورکیا گیا ہے اور دو اضلاع ابھی تک دیہات کی کیٹگری میں ہیں جبکہ پاک فوج اور محکمہ شماریات کے نتائج ایک جیسے ہیں ۔ ایک یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ فارم -2اے کی معلومات جمع نہیں کی گئیں جس سے عارضی رہائشی ہونے کاپتہ چلتا ہے ۔ محکمہ شماریات ڈویژن کو چاہئے کہ فوری طور پر حتمی نوٹیفکیشن جاری کر کے شکوک و شبہات ختم کرے اور ٹرانسپرنٹ طریقے سے تمام تر معلومات عوام کیلئے مشتہر کی جائیں اور انکی بنیاد پر ساری منصوبہ بندی کی جائے ۔ پھر تو اسکے نتائج بھی تسلیم کر لئے جائیں گے اور کسی بہتری کی امید بھی کی جا سکے گی ۔
آخر میں تعلیم کے حوالے سے ایک پہلو پربات کرنا ضروری ہے کہ نئی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں پاکستان میں کم از کم 50ہزار سے زائد نئے اسکول ، ایک ہزار سے زائد کالج اور ایک سو مزید یونیورسٹیوں کی ضرورت ہیں جبکہ دو لاکھ سے زائد اساتذہ درکار ہونگے۔ لیکن افسوناک صورتحال یہ ہے کہ پہلے سے موجود تعلیمی اداروں کی عمارتوں کی نہ صرف مخدوش حالت ہے بلکہ اساتذہ کی شدید کمی ہے اور حکمرانوں نے تعلیمی مافیاز کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ تعلیم کے نام پر ڈکیتیاں کرتے رہیں ۔ سونے پہ سہاگہ 18ویں ترمیم کے بعد تعلیمی معیار اور زیادہ پستی کی طرف گامزن ہے جو ملکی ترقی کیلئے زہر قاتل ہے۔ اسلئے نئی مردم شماری کی روشنی میں واضح طور پر تعلیمی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ حکمرانوں اور سیاستدانوں پرہے کہ وہ کس طرح بنیادیں انصاف پر رکھتے ہیں۔

تازہ ترین