• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 آپ نے اکثر دانشوروں کو کہتے سنا ہوگا کہ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد تقریباً 60 فیصدہے اور ان میں اکثریت ان پڑھ، یا کم پڑھے لکھے غیرہنرمند اور بے روزگار ہیں، ان کہ اتنی بڑی تعداد ملک کی ترقی میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر رہی ۔ یہ ان کا قصور نہیں حکومت اور نااہل حکمرانوں کا قصور ہے کہ 70سال بعد بھی انھوں نے کوئی اچھا لازمی تعلیمی نظام نافذ نہیں کیا اور نہ ہی ان کی ٹریننگ کا بندوبست کیا۔ مغربی ممالک میں 10 سال لازمی تعلیم ہے اور جو بچے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرپاتے ان کو ہرقسم کی فنّی اور معاشی تعلیم دی جاتی ہے یہ لوگ قوم کی ریڑھ کی ہڈی بن جاتے ہیں۔ اور تمام اعلیٰ فنّی کاموں کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ میں نے سن 2000ءمیں مشرف کو ایک تجویز پیش کی تھی کہ مجھے قبائلی علاقوں میں بچوں کو فنی تعلیم ہ دینی اور مغربی تعلیم دینے کے پروگرام کا سربراہ بنا دیا جائے تاکہ میں قبائلی بچوں کو کارآمد، مفید، فنّی قوّت بنا دوں تاکہ وہ شرپسندوں اور دہشت گردوں کی گرفت سے محفوظ رہیں۔ مگر ایک ایف اے پاس کی عقل و فہم سے یہ چیزیں بالاتر تھیں ۔ اگر کھانے پینے اور گانوں ناچنوں کا پروگرام پیش کرتا تو غالباً فوراً قبول ہوجاتا اور ہم یعنی بدکردار قوموں میں شمار کئے جانے لگتے۔ دیکھئے آپ بعض اوقات اَچھے مشوروں پر عمل نہیں کرتے تو نتائج خراب نکلتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ اگر بھٹو صاحب میری تجویز نہ مانتے تو آج اس ’’مملکت خداداد پاکستان‘‘ کا کیا حشر ہوتا۔
نوجوانوں، ان پڑھ، بے ہنر نوجوانوں، بے روزگار نوجوانوں کی باتیں تو کرچکا ہوں اب آپ کو بزرگ (Senior Citizens) کے بارے میں چند معلومات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
پاکستان میں بزرگ شہریوں کی ایک فائونڈیشن ہے جس کا مرکزی دفتر اسلام آباد (ستارہ مارکیٹ، جی سیون) میں ہے اور اس کی شاخیں کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور میں ہیں۔ اس ادارے کی ایک شاخ واہ کینٹ میں بھی ہے۔ انگریزی میں اس ادارے کا نام Senior Citizens Foundation of Pakistan ہے۔ میں اس کا پریزیڈنٹ ہوں، پرانے سینئر سول سرونٹ جناب ایچ ۔ایم چوہان (سیکرٹری)ہیں۔ نائب صدر جناب اکبر حیات گنڈاپور، سیکرٹری فنانس جناب ایف۔آئی قریشی ہیں اور سیکرٹری اطلاعات جناب حفیظ الدین صاحب ہیں۔ یہ تمام اَفسران وفاقی حکومت میں اعلیٰ عہدوں سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
ملک میں بزرگ افراد کی تعداد تقریباً 87 لاکھ ہے اور ان میں ہزاروں نہایت تجربہ کار سائنسدان، انجینئرز، سول سرونٹس، صحافی، پروفیسر، سفارتکار، فنّی ماہرین، سیاستدان، پانی کے ماہرین، بینکرز، معاشی ماہرین وغیرہ شامل ہیں۔ آج تک نااہل حکمرانوں نے اس ادارہ سے کبھی بھی کسی بھی اہم معاملے پر تبصرہ، رپورٹ کی درخواست نہیں کی۔ پوری دنیا میں ترقی یافتہ ممالک میں تھنک ٹینکس ہوتے ہیںان میں ماہرین شامل ہوتے ہیں اور حکومت اہم معاملات، پالیسی پر ان سے مشورہ کرتی ہیں اور ان کی ماہرانہ رائے سے استفادہ کرتی ہے۔
پوری دنیا میں یکم اکتوبر کو ہر سال سینئر سٹیزن ڈے منایا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی ہماری فائونڈیشن پُروقار طریقے سے یہ دن مناتی ہے۔ اس سال چونکہ یکم اکتوبر محرم کے مقدس دنوں میں آئی تو ہم نے یہ دن 7 اکتوبر بروز سنیچر منایا۔ پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے آرام دہ آڈیٹوریم میں یہ تقریب ہوئی۔ ہم تمام عہدیداروں کے علاوہ اسلام آباد، پنڈی، واہ، اور دیگر مقامات سے بہت سے ممبران نے شرکت کی۔ ہماری روایت ہے کہ ہر سال اس موقع پر ہم دو بزرگوں کو سال کے بہترین، مشہور بزرگ شہری کا انعام دیتے ہیں اس سال یہ انعامات ڈاکٹر نعیم غنی اور جناب اکبر حیات گنڈاپور کو دیئے گئے۔ڈاکٹر نعیم غنی ایک اعلیٰ میڈیکل ڈاکٹر، ایک مخیر شخص ،ایک اعلیٰ مصنف، ایک اعلیٰ سوشل ورکر ہیں۔ آپ نے برسوں سعودی عرب میں پریکٹس کی ہے۔ آپ آجکل سلطانہ فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں اور نظریہ پاکستان کونسل کے بھی چیئرمین ہیں۔ آپ نے اسلام آباد اور پنڈی میں لاتعداد فلاحی میڈیکل سینٹرز اور تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں۔ اللہ پاک ان کو تندرست، خوش و خرم رکھے، عمر دراز کرے۔ آمین
دوسرے بزرگ شہری جناب اکبر حیات گنڈاپور ہیں آپ سابق سینئر سول سرونٹ (سیکرٹری) ہیں اور آپ کی مہارت دیہاتی ترقی میں ہے۔ آپ نے لاتعداد غیرملکوں کے دورے اپنے کام کے سلسلے میں کئے ہیں اور وہاں کے طریقہ کار سے استفادہ کرکے ملک کی بہترین خدمات انجام دی ہیں۔ اللہ پاک ان کو تندرست و خوش و خرم رکھے اور عمر دراز کرے۔ آمین
چند اہم مشکلات جن کا ہم کو سامنا ہےوہ یہ ہیں۔
(1) خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے سینئر سٹیزنز بل پاس کردیئے ہیں مگر نہ ہی حکومت پنجاب اور نہ ہی اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری نے یہ بل پاس کئے ہیں جن کی وجہ سے بزرگوں کی ایک کثیر تعداد ان فوائد اور سہولتوں سے محروم ہے۔ پنجاب حکومت اور اسلام آباد ایڈمن سے درخواست ہے کہ وہ یہ قانون فوراً پاس کرکے عوام کو سہولتیں فراہم کریں۔ (2) اس وقت 85 برس کے بزرگ عوام کو 25 فی صد پنشن میں اضافہ منظور کیا گیا ہے۔ چند ہی لوگ اس عمر تک پہنچتے ہیں۔ حکومت سے درخواست ہے کہ وہ یہ عمر 75 سال کردےتاکہ کچھ اور لوگوں کو چند سال اس کا فائدہ میسر ہوسکے۔(3) دوائوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں حکومت اس معاملےمیں قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ چند کرپٹ لوگ دواساز کمپنیوں سے مل کر یہ قیمتیں قائم کئے ہوئے ہیں اور اپنا حصّہ لے رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پنشن یافتہ عوام کو کم از کم 20 فیصد اضافہ دیا جائے تاکہ ان کی زندگی آسان ہوجائے۔(4) بدقسمتی سے حکومت اتنے تجربہ کار اور ماہرین کی موجودگی میں اہم فنّی کام نااہل، ناقابل لوگوں کے سپرد کررہی ہے جس سے ملک کو اور معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ان ماہرین کی خدمات و تجربے سے استفادہ کیا جائے ورنہ یہ ملک آہستہ آہستہ تباہ ہوتا جائے گا۔ اس وقت بھی ملک کی معاشی حالت نہایت خراب، کمزور ہے ملک مزید خرابی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔(5) فائونڈیشن کا سرمایہ نیشنل سیونگ میں ہے اور محفوظ ہے۔ مگر آمدنی کی شرح میں لگاتار کمی ہورہی ہے۔ اخراجات پر دبائو ہر سال بڑھ رہا ہے۔ مالیاتی کنٹرول کے باوجود مالیاتی حالات دبائو میں ہیں۔(6) فائونڈیشن کا مستقل دفتر نہیں ہے۔ موجودہ دفتر کی کرایہ داری عدالتی حکم کے تحت ختم ہوری ہے۔ متبادل انتظامات کی تلاش جاری ہے۔ مگر اخراجات میں اضافہ ناگزیر ہے۔ غیریقینی صورتحال کو ختم کرنے کے لئے مستقل دفتر کا حصول نہایت ضروری ہے۔(7) اس مقصد کے لئے انتظامات اور محنت درکا ر ہے۔ انتظامیہ کو مضبوط کئے بغیر ایسا ممکن نظر نہیں آیا۔ عرصے سے درخواست کی جارہی ہے کہ ممبران فائونڈیشن کے کاموں میں زیادہ حصہ لیں۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا۔ موجودہ انتظامیہ کی عمر اور صحت مطلوبہ کارکردگی کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ ضرورت ہے کہ زیادہ باہمت ممبران آگے آکر فائونڈیشن کو مضبوط اور کامیاب بنائیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ پاکستان پائندہ باد
(نوٹ) پاناما کیس نے ملکی سیاست کو نہایت گندہ کردیا ہے۔ میاں نواز شریف، ان کے ساتھیوں اور اہل خانہ نےجو رویہ اختیار کیا ہے وہ نہ صرف قابل مذمّت ہے بلکہ عدلیہ اور اداروں کی توہین بھی ہے۔
مجھے ان کی بعض باتیں سُن کر بہت افسوس ہوا لگتا ہے یہ کسی بڑے لیڈر کی جانشین بننے کی ناکام کوشش ہورہی ہے۔ ان سب کی عقل کی کمی یا بے علمی کا ثبوت وہ تقاریر ہیں جو انھوں نے JIT میں پیش ہونے کے فوراً بعدکی ہیں اور اب بھی یہ باز نہیں آرہے۔ کبھی انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے تین بار ’’بادشاہ‘‘ بنایا وہ کیوں اس طرح کیوں نکالا گیا۔ عدلیہ نے بہت صبر کا اظہار کیا ہے ورنہ وہ بہت کچھ کرسکتی تھی ۔ شہباز شریف نے نواز شریف کے مشیروں پر تنقید کی ہے اور بھائی کو مشورہ دیا ہے کہ ان سے جان چھڑائیں۔ مگر؟ مگر؟ میاں صاحب اس پر توجہ نہیں دے رہے۔ اگر صبر کا مظاہرہ کرتے تو حالات یقیناً بہتر ہوتے۔

تازہ ترین