• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دیا ہے تب سے ہی میاں صاحب اور ان کی جماعت بے چین و بے کل ہے حالانکہ فی الحال حکومت بھی میاں صاحب کی جماعت کی ہے اسمبلی میں اکثریت بھی ان کی ہے جس کا جیتا جاگتا نتیجہ میاں صاحب کی نا اہلی کے باوجود ان کا اپنی جماعت کا سربراہ بن جانا ہے میاں صاحب اور ان کے حواریوں کا بس نہیں چل رہا کہ وہ مملکت خداداد پاکستان کی عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں میاں صاحب اور ان کے سرکردہ ہم راہیوں نے اپنی قوت اور چالاکی کا مظاہرہ احتساب عدالت کے باہر خوب اچھی طرح کیا ہے میاں صاحب کے وکلا کو خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ عدالت عظمیٰ نے نیب کو اور احتساب عدالت کو ایک مختصر اور محدود وقت دیا ہے تاکہ اس معاملے کا جلد از جلد فیصلہ ہوسکے عدالت عظمٰی اگر چاہتی تو وہ کام خود بھی کرسکتی تھی جو کام احتساب عدالت کے سپرد کیا گیا ہے چونکہ اس طرح قانون اور انصاف کے تقاضے پورے نہیںہوتے اس لئے احتساب عدالت سے رجوع کیا گیا عدالت عظمیٰ میں دوران سماعت میاں صاحب کے وکلا کا بار بار یہ کہنا کہ تحقیق و تفتیش کا کام عدالت عظمیٰ کا نہیں نیب کا ہے عدالت عظمیٰ نے ان وکلا کی خواہشات کے مطابق مقدمہ کی چھان پھٹک کا کام نیب کو سونپ دیا چونکہ عدالت عظمیٰ کے محترم جسٹس صاحبان خوب اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ حکمران وقت کو اگر نا اہل کر بھی دیا جائے تب بھی حکومت ان کے ہی ہاتھ میں رہے گی اور اگر عدالت عظمیٰ معاملے کی خود تحقیق و تفتیش کر کے فیصلہ کردیتی تو اس میں وہی لوگ کلی پھندنے لگا کر عوام کو گمراہ کرتے جیسا کہ اب بھی کیا جا رہا ہے احتساب کے عمل کو روکنے اور وقت برباد کرنے کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں احتساب عدالت کے باہر پہلے رینجرز کو کس نے تعینات کیا تھا اور تمام افراد کو روک کر ایک سیاسی حربہ استعمال کر کے احتساب عدالت کو مجبور کردیا گیا کہ کارروائی کو آگے بڑھا دیا جائے پھر دوبارہ وہی حکمت عملی اختیار کی گئی تاکہ متعلقہ ملزمان پر فرد جرم عائد نہ ہوسکے اور اس بار بھی ویسا ہی ہوا جیسا کہ حکمران چاہتے تھے اور احتساب عدالت کو مجبور کردیا گیا کہ پیشی کوآگے سرکا دیا جائے اس بار بھی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق لیگی رہنمائوں نے الزام تراشی کی مہم چلائی اور خود مریم بی بی انتظامیہ کی بد اعمالی، بد نظمی کی شکایت کرتے ہوئے عدلیہ پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے یہ بھول جاتی ہیں کہ حکومت کس کی ہے حکمران وقت کون ہے ۔ اس بار بھی میاں صاحب کی جماعت نے حسب سابق حسب معمول احتساب عدالت میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف شور شرابا کیا اور عدالت کو مجبور کردیا کہ وہ شنوائی کو موخر کردے سارے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کا اصل مقصد تو یہی تھا کہ کسی بھی طرح فرد جرم عائد نہ ہوسکے اگر فرد جرم عائد ہوجاتی تو مقدمے کی کارروائی آگے بڑھتی اور بہت سے معاملات جو فی الحال جے آئی ٹی کے پردے میں یا صندوق میں بند ہیں تو وہ پنڈورا بکس کھل جاتا تو بہت کچھ کھل کر سامنے آجاتا ہوسکتا ہے کہ میاں صاحب اور ان کی آل اولاد کہیں کی نہ رہتی ہے ۔ عدالت عظمیٰ فی الحال خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جس سے ان تمام بولنے والوں کو حوصلہ مل رہا ہے لیکن وہ عقل کے اندھے یہ نہیں سمجھ رہے کہ عدلیہ انہیں زیادہ سے زیادہ بولنے اور پے در پے غلطیاں کرنے کا موقع دے رہی ہے تاکہ جب ان کی گردنوں میں قانون کا پھندا پڑے تو وہ کہیں دائیں بائیں سے کوئی رستہ نہ پا سکیں، خود میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ بیگم صفدر اور خود کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر صاحب کی زبان بھی تالو سے نہیں لگ رہی وہ مسلسل عدلیہ پر تاک تاک کر نشانہ بازی کر رہے ہیں اس تمام کارروائی ہوش ربا الزامات کے علاوہ خود میاں صاحب کی جماعت کے پنجاب کے وزیر قانون جناب رانا ثنا اللہ جو وزیر قانون سے کہیں زیادہ کپی وزیر ہیں انہیں یہ ہوش ہی نہیں رہتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں گزشتہ دنوں جماعت احمدیہ کے ترجمان چینل پربر ملا کہا کہ جماعت احمدیہ کی حمایت میں وہ قرار داد پیش کریں گے امید ہے کہ وہ فوراً ہی منظور ہوجائے گی مولویوں کا تو کام شور مچانا ہے وہ لوگوں کو اپنے ساتھ لگا لیتے ہیں حالانکہ ان میںسے جو جان نثار کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ایک وقت کی نماز بھی نہیں پڑھتے اگر ان میں کوئی طاقت ہوتی تو وہ انتخابات میں کیوں نہیں کامیابی حاصل کرتے انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ احمدی بھی اپنی مساجد میں اذان دیتے ہیں نماز پڑھتے ہیں قرآن پڑھتے ہیں پھر ان میں اور مسلمانوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے یعنی ان کا خیال ہی نہیں یقین ہے کہ احمدی اور جماعت احمدیہ کا ہر فرد قادیانی کافر نہیں مسلمان ہے۔ان کی اس قادیانی حمایت کا رد عمل جب آیا تو پھر حسب شان حسب عادت اپنا تھوکا بھی چاٹنا پڑے تو چاٹ لینے میں کوئی حرج نہیں جس طرح آئینی ترمیم کے ذریعے حلف نامے کو اقرار نامہ بنانے پر عوامی جوتاکاری کے باعث ختم نبوت کی شق کی تنسیخ کو مجبوراً بحال کرنا پڑا اب ہر کوئی صفائی پیش کرتا پھر رہا ہے جبکہ وہ آئینی ترمیم خوب سوچ سمجھ کر اور عوام کو کم عقل بے وقوف سمجھتے ہوئے کی گئی تھی ترمیم کنندگان کا خیال تھا کہ ختم نبوت کے بارے میں حلف نامہ کو حذف کرنا صرف ایک لفظ حلف کو حذف کرنا کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گا اور اس طرح ہم ایک بڑا اہم معاملہ جس پر امریکہ یورپ اور خصوصاً اسرائیل کا مختلف انداز سے دبائو ہے اس کو ختم کردیں گے لیکن ایسے تمام عقل مندوں کی الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ عقل نے کام کیا انہیں یوں لینے کے دینے پڑ گئے اتنے اہم اور بڑے معاملے کو حکومت وقت خاموشی سے پی گئی حالانکہ ختم نبوت تو ایمان کا اہم ترین جزو ہے اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا نہ مسلمان مسلمان کہلانے کا حقدار ہوتا ہے آئینی ترمیم میں مزید ترمیم کے ذریعے گو کہ حلف کو بحال کردیا گیا ہے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کو شاید کوئی مشن سونپا گیا ہے کہ قادیانیوں کو دم دلاسہ دے کر انہیں یقین دلائو کہ وہ بے فکر رہیں حکمران وقت اپنی سی کرنی میں لگے ہوئے ہیں جب کبھی موقع ملا تو امید بر آئے گی قادیانی اینکر نے ان سے دلی شکوہ کیا کہ تمام ٹی وی چینلز پر تین چار افراد کو مدعو کیا جاتا ہے جو احمدیوں کے خلاف بولتے رہتے ہیں لیکن ہمیں کبھی اپنی صفائی کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا ہمارا بھی ایک نمائندہ ہونا چاہیے تاکہ ہم بھی اپنا موقف بیان کرسکیں اس پر رانا صاحب نے فرمایا کہ ہاں آپ درست کہتے ہیں آپ لوگوں کو بھی موقع ملنا چاہیے اس کا کیا مقصد ہے کیا حکمران جماعت سرکاری ٹی وی پر قادیانی جماعت کو اپنی صفائی پیش کرنے کاموقع دینا چاہتی ہے ۔اتنی بڑی اور اہم بات صوبائی وزیر قانون جو حکمران جماعت کے ترجمان بھی ہیں یوں بلا سوچے سمجھے اس اہم بات کو اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے اب مار پیچھے پکار کی مانند رانا ثناءاللہ اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں دھڑا دھڑ پریس کانفرنس کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھے، آمین۔

تازہ ترین