• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سول ملٹری تعلقات، دراصل حکمران فوجی قیادت تعلقات ہی، سب اچھا کی رپورٹ کا غیر ضروری ڈھنڈورا پیٹنا معمول بن چکا ہے۔ منافقت جھوٹ وطن عزیز میں منفعت بخش کاروبار بن چکا۔ سب کچھ بائی پروڈکٹ ہے،بے عیب نظریہ پاکستان کو داغدارکرنے کا، بہت کچھ گنوا چکے ہیں۔ جو کچھ بچا ’’بیخ کنی اسکواڈ‘‘ رات دن مصروف ہے ۔تقریباً ساری اشرافیہ شریک کارہے۔ کثرت بوجہ جہالت جبکہ اقلیت بدنیت، کام ایک ہی، ریاست کو نظریاتی طور پر بانجھ رکھنا ہے ۔ حکمران طبقہ ، سیاسی قائدین ، سول ملٹری اداراتی قیادتیں، میڈیایہی تو ہیں ہماری اشرافیہ،ملکی بربادی میںباقاعدہ حصہ دار۔ عظیم قائدباآواز بلند، واشگاف الفاظ میں دو رہنمااصول، نظریہ مملکت بمع قومی زبان وضاحت، صراحت، فِراسَت سے بیان فرماگئے۔ نوزائیدہ مملکت سے بنفس نفیس نتھی کیا۔ ارادہ پکا، عزم مصمم، غیر متذبذب، تضادات سے مبرا ،ثابت قدمی، میرے عظیم قائدکی پہچان اور وصف تھے، ابہام اور قضیہ کیسے اورکیونکر چھوڑتے۔ اسلامی نظریہ اوراُردو بطور قومی زبان مملکت کی اساس ٹھہرے۔ آج دونوںکو محنت سے متنازع بنا دیا۔ مملکت کے رہنما اصول دربدر، جائے اماں ڈھونڈنے سے نہیں مل پا رہی۔قرآن و سنت اور اُردو کا تحفظ آئین پاکستان نے یقینی بنایا۔مملکت کی پاسداری آئین نے کرنی تھی جبکہ ہر پاکستانی کا فرض، آئین سے وفادار رہنا تھا۔ وائے نصیب! پارلیمان، حکومت، عدالتوں، اداروں پر آئین محافظ قابض، دلجمعی سے آئین کے پرخچے اُڑا رہے ہیں۔سب سے پہلے سیاسی قیادت ذمہ دار، آئین کی بے حرمتی قومی شعار بن چکی۔ سپریم کورٹ کی درخشاںتاریخ کومتنازع فیصلوں نے ماند کر رکھا،دہائیوں سے قومی شرمندگی اور بے توقیری کی علامت ہیں۔مارشل لائوں اور ماورائے آئین اقدامات کی وجہ، فی الحقیقت سپریم کورٹ کے فیصلے بنے۔نظام عدل، عسکری ادارے اور افسر شاہی نے ہر حال میں 20کروڑ عوام کی نظر میں غیر جانبدار رہنا تھا۔ نظر آنا تھا۔منوانا تھا۔ ہر چند سال بعد سیاسی افراط و تفریط کی زد میں رہے،قوم تقسیم رہی۔قوم کاایک حصہ اپنے وطن میں اپنے آپ کوبے یارو مددگاریا اجنبی جانے، ایسا تصور ہی روح فرسا، کئی دفعہ بیت چکا۔ریاست کا باجا بجنا بنتا ہے۔بیسوں ملک گھوما ہوں، کسی ملک کے کسی شہری کا ایسا تصور نہیں ماسوائے مقبوضہ علاقے یا جن ملکوں میں مارشل لائوں نے حکمرانوں کو چت کیا، ادارے متنازع بنے۔ وطن عزیز میں شاید ایک پہلو پر غورہوا نہ جائزہ لیاگیاکہ ایسے عمل میں عوام الناس کاایک حصہ اپنے ہی اداروں سے متنفر ہوجاتا ہے۔ مقبولِ عام فیصلے اور مقبولِ عام اقدامات ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ مٹھی بھر افراد کی مفاداتی سوچ جب قومی سلامتی اور ریاستی اہمیت کے چیلنجزسے نبٹنے کی بجائے، حکومتوں کو ٹھیک کرنا ترجیح بناتی ہے تو سانحات رونما ہوتے ہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا کہ اداروں میں اقتدار و اختیارات کی جنگ پہلی ترجیح ٹھہری۔ قوم بٹی ، ایک حصہ لاتعلق رہابلکہ اپنے اداروںپر حملہ آور ہوا۔میرے نزدیک جہادِ افغانستان، پاکستان کی تاریخ بلکہ دنیا کی تاریخ کاایک سنہرا باب ہے۔ 1917میںروس سے طلوع ہونے والا اشتراکی انقلاب، توسیع پسندانہ عزائم لئے دنیا کو فتح کرنے کالامتناہی عزم رکھتا تھا ۔پاکستان کا اعجاز کمال ہی کہ افغانستان میں اشتراکیت کو زمین گور ہونا پڑا۔ پوری دنیا سرشار رہی، کتابیں رقم ہوئیں، فلمیں بنیں، جنرل ضیاء الحق کو تاریخ کے بڑے ہیرو کے طور تسلیم کیا گیا۔ ہم نے موقع کا بخوبی فائدہ اٹھایا ،عالم ِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنے۔ پہلو تہی کیسے کہ روس کے قبضے کی صورت میں یاروسی مداخلت پرآنکھیں بند رکھنے پروطن عزیز قصہ پارینہ رہتا۔پاکستان بارے فیصلے اسلام آباد، راولپنڈی کی بجائے ماسکو سے ہوتے۔ کبھی سوچا بھی کہ جہاد افغانستان پر پوری قوم کو فخر کیوں نہیں؟ ایک مخصوص طبقہ اتنے بڑے تاریخی کارنامے کوآج بھی قومی جرم گردانتا ہے۔اہم بات اتنی کہ عسکری قیادت ہی سیاسی قیادت تھی۔ عسکری قیادت ،بڑی جماعت پیپلز پارٹی کو اپنے خلاف اکسا چکی تھی۔ قوم تقسیم تھی۔
نظریہ ،آئین پس پشت ، اداروں کا باہمی ٹکرائو، تصادم، آنکھ مچولی، منافقت،جھوٹ، باہمی بیخ کنی کئی دہائیوں سے قومی دستور بن چکا ہے۔ ہر ادارہ کی قیادت ایک انجمنِ تعریف و ستائش بسا لیتی ہے۔ انجمن کے ممبران کی صفت ایک ہی کہ تمام معتقدین، متاثرین، معاونین، خوشامدی رہیں۔ ہمارے قائدین، سیاسی لیڈر، ججز، جرنیل، بیورو کریٹ جب عزیز و اقارب، ’’پارٹیوں‘‘، حلقہ احباب کی زینت بنتے ہیں۔ فیصلوں ،سوچوں پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے دیکھتے سنتے ہیں، خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ ذاتی معمولی تجربہ خوشی،غمی کی تقریب یامسجد بازار میں جب کوئی میرے حصے کا اکا دُکا ذی نفس گھیر لیتا ہے۔ میرے تجزیوں ، مشاہدات کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے۔ تو احساسِ تفاخرکے بالائی حصے میں دُرِشہوار حسن نثار، دانش کدہ امتیاز عالم، نابغہِ روزگار مظہر عالم، زودفہم بابر ستار، جنگجو شہزاد چوہدری اور مسرت بخش ارشاد بھٹی جیسا گلدستہ مجھے خوشبوبغیر محسوس ہوتاہے۔لگتا ہے، فقط ذات شریف ہی ہے جس نے رپورٹ کارڈ کومعطر کر رکھا ہے۔ گردونواح کے سینکڑوں ہزاروںدوسروں کی بے اعتنائی، بے گانگی، لا تعلقی ذہن پر درج ہوتی نہیں کہ احساسِ تفاخر یہی بتاتا ہے اندرون خانہ انکو بھی اپنا مداح ہی سمجھتا ہوں۔یہی خام خیالی حضرت انسان کا المیہ ہے۔ ایک دفعہ کسی جج صاحب کو اپنے متنازع فیصلہ کے بعد ’’پارٹی ‘‘میں جانا ہوا،ہر طرف سے واہ واہ سنی تو گویا ہوئے ’’اب تو مانا کہ فیصلہ متنازع نہیںبلکہ جرات مندانہ اور مقبول ہے‘‘۔ یقیناً بیسوں سال پہلے سنائے گئے فیصلے، مولوی تمیز الدین، دوسو، نصرت بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو، جونیجو، ظفر علی شاہ تمام مقدمات کے مصنف جب اپنے دوستوں، عزیز و اقارب، پبلک، پارٹیوں میں جاتے ہوں گے، ’’بہت عمدہ‘‘کی آوازیں سننے کو ملتی ہوں گی۔
صدقِ دل سے سمجھتا ہوں، عظیم قائد کے مقرر کئے متعین اصولوں سے انحراف نہ رہتا، جمہور کی خواہش اور امنگوں کی ترجمانی رہتی۔ نظریہ، زبان، جمہوریت، آزادی، مساوات کی تشریح و توضیح بمطابق فرقان حمید اور اسلامی ضابطے ہوتے کہ آئین کی روح بھی یہی۔ وطنِ عزیزنے اتحاد، تنظیم، یقین محکم، یکسوئی، امن و آشتی، انصاف کا گہوارہ رہنا تھا۔دستور پاکستان ریاست اسلامی جمہوریہ کا وفادارجبکہ آئین کی پاسداری و پابندی ہر شہری ہر ادارے کا فرض ہے۔ تمام اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہنے کا پابند بناتا ہے۔ سیاسی دنگل سیاست دانوں تک محدود رہنا تھا۔ ایمپائرکا کام نہیں کہ انگلیاں دے یا کھڑی کرنے کی یقین دہانی کرائے۔ یقیناًقوم تقسیم نہ ہوتی اورآج تجدید تعلقات کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ جب بھی سیاسی جماعت یا کسی لیڈر کی WITCH HUNTING کا تاثر عام ہوگا۔ قانون اور انصاف کا ترازو اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ ماورائے آئین فیصلے ہونگے۔ سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں ادارے ملوث سمجھے جائیں گے۔ ایسا ملک جہاں انصاف، قانون، سیکورٹی ادارے، افسر شاہی بارے شکوک و شبہات یا دلوں میں کدورت آ جائے۔ قوم کا یکجا ہوکر وطن کی حفاظت کرنا قصہ پارینہ سمجھیں۔ جسٹس عبدالقیوم کی سیف الرحمن سے فون گفتگو نے جسٹس عبدالقیوم کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ سزا کالعدم ہوئی، اس بنا پر نہیں کہ جرم سرزد ہوا یا نہیں بلکہ اس بناپر کہ ماورائے قانون منصوبہ بندی پکڑی گئی۔ ISIاور MI کو حصہ بنانایا IBکو باہر رکھنا شاید انصاف کے سارے تقاضے پورے رکھتا اگر پراسرار و اٹس ایپ کا قضیہ سامنے نہ آتا۔آج مسلم لیگ(ن) کے کارکن، متاثرین، معتقدین اس فیصلے کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں۔ دہرے معیار پر پرکھنے پر تالیاں نہیں بجائی جا سکتیںکہ قوم کو تقسیم رکھنے کا نادر نسخہ ہی ۔
کل کا ڈرون حملہ ،ہلکی پھلکی پیغام رسانی ،حالات کی نزاکت اور آنے والے گمبھیر خطرات کی نشاندہی ہے۔ لکھ لکھ انگلیاں ٹیڑھی ہو چکیں کہ وطن عزیزبیرونی خطرات میں گھر ا ہے۔ پاکستان کے بارڈر قریب امریکی فوج کمر بستہ، مہلک ترین گولہ بارود، میزائلوں، توپ و تفنگ سے لیس، لڑاکا طیارے ،ڈرون تیاربلکہ حالت جنگ میں۔چند ماہ پہلے ہماری سرحد کنارے، امریکہ کا بموںکی ماں کو پھاڑنا، سب پیغامات ہمارے لئے ہی۔ وطن عزیز کی فکر کون کرے گا؟ ’’مشق سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی‘‘، تجدید تعلقات بھی اور کڑاکے نکالنے کا بندوبست بھی۔پیغام کڑا ہے،کیا اندرونی لڑائی ہماری اشرافیہ کی پہلی ترجیح ہے اسکو منطقی انجام تک پہنچانا ہی اولین مقصد بن چکا۔ مسلم لیگ قیادت کے متاثرین معتقدین کو سمجھانا آسان نہیں کہ معاملہ انصاف کا نہیں، کچھ اورمعاملات بھی ہیں۔ مودبانہ گزارش ، پہلے سچ پھر تجدید تعلقات، TRUTH AND RECONCILIATION کی بنیادی روح اور تقاضا بھی یہی ہے۔

تازہ ترین