• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمیونزم چاہے دنیا سے ختم ہو بھی جائے لیکن برصغیر ہندپاکستان میں سرد جنگ اور وہ نیم حقیقت نما لطیفے کبھی پرانے نہ ہونگے کہ جب ماسکو میں برف پڑتی ہے تو کامریڈ دہلی اور کراچی میں اوور کوٹ پہنے پھرتے ہیں۔ اور اب روسی یا پہلے روسی کمیونسٹ یا بولشویک انقلاب کی سو سالہ تقریبات کا چرچا ہے۔ یہی اکتوبر کا مہینہ ہے اور روسی انقلاب کے سو سال۔اکتوبر انیس سو سترسے اکتوبر دو ہزار سترہ، وہی ولادیمیر الیچ اولیانوف لینن کی قیادت میں اکتوبر دس کو ہونے والا انقلاب جسے امریکی مصنف جان ریڈ نے دنیا کو جھنجھوڑنےوالے دس دنوں سے تعبیر کیا اور ہمارے ذوالفقار علی بھٹو نے جو کتابیں اپنی بیٹی بینظیر کو پڑھنے کیلئے تجویز کی تھیں ان میں یہ کتاب دنیا کو جھنجھوڑنے والے دس دن بھی شامل تھی۔اکتوبر انقلاب، انیسویں صدی میں فرانسیسی خونی انقلاب کے بعد بیسویں صدی کا بہت بڑا انقلاب لیکن خونی انقلاب تھا جو ایک بحری جہاز سے گولا داغنے کے بعد دنیا میں سینٹ پیٹسبرگ میں زار روس اور اسکے خاندان کے عظیم الشان محل کو قتل غارت اور لوٹ مار کا نشانہ بناتے آیا تھا۔ اوراب دنیا میں پہلی بار بقول انقلاب کےبانی لینن پرولتاری انقلاب یا پرولتاریہ کی ڈکٹیٹر شپ کی بنیاد پڑ چکی تھی۔
یہ پہلی جنگ عظیم بیسویں صدی میںدوسری دہائی تھی جسے انقلابات کی دہائی کہا گیا تھا۔ بولشویک انقلاب۔ بولشویکوں اور منسشویکو کی فرقہ بندی کے باوجود دنیا میں انقلابیوں اور اشتراکیوں نے اسے انقلاب کہا تھا۔ حالانکہ یہ بھی ایک قسم کی مسلح بغاوت تھی زار روس کے خلاف۔ کئی ہزار دولتمند یا بورجواژی لوگ پرولتاریہ یا مزدور طبقات کے ہاتھوں جانیں بچاتے ملک بدر ہوئے تھے جس کے اثرات سندھ کے نہ فقط پونجی وادیوں پر شکارپور اور سکھر یا کوئٹہ اور قندھار تک پہنچے تھے پر اتنی ہی تعداد میں صاحب ثروت لوگ مہاجر بن کر ان شہروں میں بھی آ پہنچے تھے۔اسی لیے تو روسی انقلاب کے کمیونسٹ لکھاری اور ناول نگار میکسم گورکی جیسے نفاست پسند انسان نے زار روس کے محل کا حشر دیکھ کر لینن سے شکایتاًکہا تھا:’’ان لوگوں کو روکو یہ کیا پاگل پن کر رہے ہیں‘‘ اسی لیے تو میرے ایک دوست نے انیس سو پچاسی میں کراچی میں ہونیوالے ترقی پسند ادیبوں کی پچاس سالہ گولڈن جوبلی کانفرنس کا اجلاس جشن کراچی کے میٹروپولیٹن ہوٹل میں ہونے پر زیادہ غلط بھی نہیں کہا تھا کہ ادیبوں اور مندوبین نے نےہوٹل کا حشر وہ کیا ہے جو پرولتاریوں نے روسی انقلاب کے موقع پر زار روس کے محل کا کیا تھا۔
لیکن دنیا بھر میں اشتراکیوں نے اس روسی انقلاب پر جشن منائے تھے جو بعدمیں ’’سوویت انقلاب‘‘ بنا۔ بر صغیر ہندو پاک کے کئی شاعروں اور نثر نگاروں نے ’’انقلاب روس‘‘ کی مدح سرائی میں کئی تحریریں اور شاعری رقم کی۔
جیسا کہ علامہ اقبال نے ’’لینن خدا کے حضور میں ‘‘ تخلیق کیا اور حبیب جالب نے لکھا:’’عظیم لینن کی رہبری میں دُکھی دلوں نے قرار پایا۔‘‘ یہ اور بات ہے کہ لینن کے جانشیں اور روس میں اپنے وقت کے ضیا الحق جوزف ٖاسٹالن نے اس ’’انقلاب‘‘ سے اختلاف کرنے والے لوگوں کی زندگی زہر کردی جس میں لیوں ٹراتسکی کو میکسیکو کے شہر نیو میکسیکو میں روس سے جلاوطنی اختیار کر کے پناہ لینا پڑی۔ لیکن اسٹالن کے قاتل گماشتوں نے اس عظیم منحرف اور صحیح کے انقلابی کا پیچھا نہیں چھوڑا اور آخر کار اسکے سر پر ہتھوڑا مارکر اسکا کام تمام کردیا گیاروسی یا کمیونسٹ یا کمیونزم کے منحرفین کی ایک لمبی فہرست ہے اتنی لمبی جتنی خود روسی انقلاب اور کمیونسٹوں کی صد سالہ تاریخ ہے۔ روسی شاعر مایا کوسسکی سے لیکر لازوال ناول ’’’ڈاکٹر زواگو‘‘ کے مصنف زان پاسٹر ناک اور پھرایلیا ا ہرن بزرگ، سخاروف اور سولزے نیتسن تک۔
لیکن بر صغیر ہند و پاک میں بھی روسی انقلاب کےحامیوں اور اسکے مخالفین میں باقاعدہ ایک سرد گرم جنگ کا سا ماحول ہمیشہ رہا۔ رد انقلاب میں کائونٹر ریولیوشنری کےفتوے بھی رہے اور پچاس کی دہائی میں باقاعدہ کمیونسٹوں کی روس نواز ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ نے منٹو اور قرۃ العین جسے لکھاریوں کے پڑھنے پر اپنے تئیں ’’پابندی‘‘ عائد کی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ روسی یا سوویت انقلاب کا تحریروں اور لکھاریوں پر غلبہ بھی رہا۔ فیض احمد فیض ان میں ایک اہم نام ہےجسے لینن پرائز سے بھی نوازا گیا اور اس طرف بھارت میں سوویت نہرو ایارڈ۔
ادھر ماسکومیں مشرقی علوم کی یونیورسٹی میں کئی لوگ پڑھنے کو روسی کمیونسٹ حکمران پارٹی کی دعوت پر بلائے گئے جن میں ویتنامی رہنما اور راولپنڈی کے دادا امیر حیدر اور سندھ کے قادر بخش نظامانی شامل ہیں۔ قادر بخش نظامانی بعد میں جدید بلوچ قوم پرستی کے بڑے نظریہ دان کہلائے اور دادا امیر حیدر انقلابیوں کی کہانیوں میں ہر دور میں ایک دیو مالائی کردار رہیں گے۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں کانگو کے رہنما پیٹرس لوممبا کے نام سے مشرقی علوم کی اس ماسکو یونیورسٹی کا نام رکھا گیا جہاں دنیا بھر کے کمیونسٹوں یا بائیں بازو والوں یا انکی نسلیں پڑھتی رہی تھیں ۔ زیادہ تر اس یونیورسٹی میں غیر ملکی طلبہ و طالبات کا داخلہ ایسے ملکوں کی کمیونسٹ پارٹیوں کی سفارشات پر کیا جاتا تھا۔ اس یونیورسٹی میں لائل پور کے کامریڈ اور صنعتکار سیف خالد کے بچے بھی تھے تو خیرپور میرس کے چھوٹے سے گائوں مینگھو فقیر شر کی لڑکیاں بھی جو ڈاکٹر بن کر لوٹی تھیں تو انس سو ستر کی دہائی میں بلوچستان میں بغاوت کے دوران افغانستان نقل وطنی کرنے والے مری قبائل کے بچے بھی۔ شاید ان میں نواب خیر بخش مری کابیٹا بالاچ بھی شامل تھا تو بلوچی شاعر جمال دینی کا بیٹا بھی۔ نسلوں کی نسلیں لڑکیوں اور لڑکوں کی پڑھ کر ماسکو سے پلٹ آئیں۔
پھر ایسا ہوا کہ جسے عبداللہ ملک نے ’’جنت ارض‘‘ کہا تھا وہ سوویت روس ٹوٹ گیا۔ کمیونزم کی نیا ڈوب گئی۔ افغانستان میں برے پھنسےیا پھنسانے گئے، پرولتاریہ کی ڈکٹیٹر شپ کسی نے اسے ’’ہرولتاریہ کی سرمایہ داری‘‘ سے تعبیر کیا۔ بس ایک بہت بڑا جہاز اوڈیسا سمندر میں ڈوب گیا۔ اتنی بڑی داستان رقم کرنے کو لامحالہ ایک کالم ناکافی ہے۔

تازہ ترین