• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 پاکستان میں ایک بار پھر افواہ ساز فیکٹریاں فعال اور افواہیں پھیلانے والے متحرک ہیں۔ ملک میں ہر چند ماہ بعد کسی نہ کسی عنوان سے افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ ان افواہوں کی مختلف اقسام اور متنوع مقاصد ہوتے ہیں۔ افواہ ساز فیکٹریوں کو خام مال اور فنی مہارت فراہم کرنے والوں میں صرف غیر ملکی ہی نہیں بلکہ بعض اندرونی عناصر بھی شامل ہیں۔ دراصل مقامی تعاون اور مدد کے بغیر کسی بھی ملک میں افواہ پھیلانا ممکن نہیں ۔
گزشتہ کئی دہائیوں میں پھیلائی جانےوالی افواہوں کے تجزئیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ افواہ سازوں کے دوبڑے اہداف ہیں ۔ (1) حکومت ِ وقت کے بارے میں غیر یقینی اور بدگمانی پھیلانا۔ (2) قوم کو پاکستان کی معیشت اور سلامتی کے بارے میں کنفیوژن اور مایوسی میں مبتلا کرنا۔
حکومت کے بارے میں افواہ ساز فیکٹریاں پاکستان میں جمہوری ادوار میں زیادہ متحرک رہتی ہیں۔ نئی حکومت بنتے ہی اس قسم کی افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں کہ یہ حکومت بس تین چار مہینوں کی مہمان ہے۔ حکمران خاندان میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔ موجودہ سیٹ اپ ختم کرکے تین سال کے لئے ایک ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کی جارہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ حکومت سے ناراض ہوچکی ہے۔ وزیر اعظم اور کسی اہم وزیر کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں وغیرہ ۔ افواہ سازوں کی ایک خاص دلچسپی عوام کو حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کے بارے میں فکرمند کرنابھی ہے۔
یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اہداف اور انداز کی تبدیلیوں کے ساتھ مختلف قسم کی افواہیں پاکستان میں ہمیشہ پھیلائی جاتی رہی ہیں۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد سے ہی بعض عناصر نے پاکستان کی معیشت اور سلامتی کے بارے میں شکوک پھیلانا شروع کردئیے تھے۔ ان پاکستان مخالف عناصر کا کہنا تھا کہ ہندوستان سے علیحدہ ہو کر قائم ہونے والا ملک پاکستان معاشی لحاظ سے قابل عمل نہیں ہے۔ واقعی نوزائیدہ مملکت پاکستان کومعیشت اور انتظامی لحاظ سے کئی چیلنجز کا سامنا تھا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان میں کوئی بڑی صنعت نہیں تھی۔ تجارت میں بھی مسلمانوں کی شرکت بہت کم تھی، لیکن عوام اپنے ملک کو خود کفیل مستحکم اور مضبوط بنانے کے لئے پُرعزم تھے۔ پاکستان نے اپنے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت اور رہنمائی میں انتہائی بے سرو سامانی کی حالت میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ 1948ء میں قائد اعظم کی رحلت اور 1951ء میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت جیسے واقعات پاکستان کے لئے ناگہانی اور بڑے سانحات تھے لیکن پاکستان اپنے سفر پر کامیابی سے گامزن رہا۔ پاکستان مخالفوں کی تمام تر سازشوں اور افواہوں کے باوجود 1960ء کے عشرے میں پاکستان ایک مضبوط معیشت اور صنعتی لحاظ سے تیزی سے ترقی کرتا ملک بن چکا تھا۔ کراچی کا سمندری پورٹ اور کراچی ایئر پورٹ خطے کے مصروف ترین پورٹس تھے۔ مغرب میں یورپ، امریکا، کینیڈا، مشرق میں بھارت، سری لنکا، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور، چین، جاپان اور آسٹریلیا سمیت تقریباً ہر ملک کے جہاز کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرتے تھے۔ افواہ سازوں کی تمام تر منفی کوششوں کے باوجود پاکستان کی کرنسی بھارت کی کرنسی سے زیادہ مستحکم تھی۔ پھر 1971ء کا سانحہ ہوگیا۔ قیام پاکستان کے تقریباً چوبیس سال بعد کئی وجوہات کے تحت پاکستان کے دو لخت ہونے کو افواہ سازوں نے اپنے لئے ایک بڑی دلیل بنا لیا۔ 1971ء کے بعد چندسال پاکستانی قوم پر بہت بھاری تھے۔ سانحہ مشرقی پاکستان پر قوم شدید صدمے میں تھی۔ ایسے میں چند افواہ ساز شمال مغربی سرحدی صوبے (اب خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں علیحدگی کے شوشے چھوڑ رہے تھے۔ ان حالات میں ذوالفقار علی بھٹو نے ارکان اسمبلی کو ساتھ ملا کر ایک متفقہ آئین منظور کروایا۔ پاکستان کے لئے آئین بناتے ہوئے مخالف الخیال جماعتوں کو متفق کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھیوں نے اپوزیشن کے ساتھ اتفاقِ رائے کے بعد یہ اہم ترین کام مکمل کرلیا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا ٹاسک دیا۔ خامیاں دنیا میں کہیں بھی ہوسکتی ہیں۔ کوتاہیاں بھی اچھے سے اچھے نظام میں سامنے آسکتی ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں بعض حلقوں کی جانب سے خامیوں اور کوتاہیوں کو بہت زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے، خوبیوں، اہلیتوں اور حاصلات پر بات یا ہوتی ہی نہیں یا سرسری انداز میں ذکر کرکے خانہ پرُی کردی جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں کئی معاملات اصلاح طلب ہیں۔ان معاملات پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں عوام کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اپنے قیام کے وقت سے ہی کئی مشکلات اور افواہوں کے سیلاب کے باوجود پاکستانی قوم نے کن شعبوں میں کس قدر کامیابی حاصل کی۔ 1958ء میں وزیر اعظم فیروز خان نون کی کئی سالہ کوششوں کا ثمر گوادر کی مسقط سے پاکستان کو حوالگی کی صورت میں سامنے آیا۔ 60کے عشرے میں پاکستان معاشی لحاظ سے استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ آب پاشی کے لئے پانی کی فراہمی، سیلاب سے تحفظ اور بجلی کی پیداوار کے لئے منگلا، تربیلا ، وارسک اور دیگر کئی ڈیم بنائے گئے۔ 1968ء میں کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر شروع ہوئی جو پانچ سال کی مدت میں مکمل ہوئی ۔ پاکستان میں زراعت کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ صنعتی خود کفالت کی بنیاد رکھی گئی۔ آج پاکستان کے تعلیم یافتہ، کم تعلیم یافتہ، ہنر مند اور غیر ہنر مند کروڑوں افراد صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ تقریباً یہ سب صنعتیں 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ہی قائم ہوئی ہیں۔ تمام تر دشواریوں، رکاوٹوں اور انتہائی کم مالی وسائل کے باوجود پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔ پاکستانی قوم کئی دہائیوں سے انتہائی مشکل حالات کا نہایت بہادری سے مقابلہ کررہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی افواج کی شاندار کامیابیاں منفرد نوعیت کی ہیں۔ پاک فوج وہ مشکل ترین اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی جو برٹش آرمی، سوویت آرمی اور امریکی افواج حاصل نہیں کرسکی تھیں۔ پاکستانیوں نے فن، ثقافت، اسپورٹس کے مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، کرکٹ، ہاکی، اسکواش اور دیگر کئی کھیلوں میں عالمی ، اولمپک، ایشیائی کپ اور دیگر اعزازات حاصل کئے ۔ پاکستان کے کئی گلوکار، موسیقار اور فن کار دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوانے میں کامیاب رہے۔ لیکن مایوسی پھیلانے والے پاکستان کے حاصلات اور فرزندان اور دخترانِ پاکستان کی کامیابیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے افواہیں پھیلانے میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ہوں، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو ، نواز شریف ہوں، میر ظفر اللہ خان جمالی یا شوکت عزیز ہو ں ، یوسف رضا گیلانی یا راجہ پرویز اشرف، افواہ ساز ہر حکمران کے بارے میں نت نئی افواہیں گھڑتے رہے۔ 2000ء کے بعد سب سے زیادہ افواہیں آصف علی زرداری کی صدارت کے دوران پھیلائی گئیں۔ بعض سیاسی پنڈت اور طوطا فال ٹائپ کے سیاسی نجومی2008ء سے 2013ء تک تقریباً ہر روز زرداری کی صدارت ختم ہونے کی پیش گوئیاں کرتے رہے ۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت افواہ سازوں کی زد میں آئی۔
پاکستان میں جب پریس پر پابندیاں تھیں، خبروں پر کنٹرول اور جبر کے اس عالم میں پے درپے افوا ہوں کا پھیلنا قابلِ فہم تھا۔ اب جبکہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا آزاد ہیں۔ خبروں کی اشاعت و نشریات پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں بھی افواہوں کے تیزی سے پھیلنے کی وجوہات پر غور کرنا ضروری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کئی معاملات پر عوام کا ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے پورا سچ نہیں بتایا جارہا۔ گویا عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کا تعلق ابھی پوری طرح قائم نہیںہوپایا۔ نہ صرف حکومت بلکہ پارلیمنٹ کے سب اراکین کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کے قیام میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

تازہ ترین