• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کے تاریخی رنگ محل میں زیر تعلیم معذور بچوں پر تشّددکے مقدمے میں ’مک مکا ‘ کی خبر نے ملک میں قانون کی بالادستی اور موجودہ کرمنل جسٹس سسٹم کو پہلے سے زیادہ نا قابل اعتبار بنا دیا ہے۔ یہاں یہ ناگزیر سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا کسی فرد کے پاس یہ قانونی حق ہونا چاہئے کہ وہ کسی دوسرے فرد (بشمول اولاد ) کے خلاف ظلم و تشدّد کے مرتکب کسی شخص کو معاف کردے؟ متاثرہ فرد کے ورثہ عدالت میں بحیثیت مدعی مروّجہ قوانین کے تحت ملزم سے مصالحت، یا اُسے معاف کردینے، کاحق رکھتے ہیں ۔ لہٰذا وہ انصاف کے بنیادی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر جرم کے مرتکب کسی بھی شخص کوذاتی مفادات ، سہل پسندی ، ذاتی مجبوری یا فراغ دلی کے سبب معاف کر سکتے ہیں ۔ یعنی اِس قانون کی آڑ میں اِس دستیاب ’ حق‘ کے بھرپور استعمال کے ذریعے جرائم پیشہ افراد کی مستقل حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ المیہ یہ کہ اس پورے عمل میں ریاست اور اس کے ماتحت ادارے بظاہر کوئی موثر کردار ادا کرتے دکھائی نہیں دیتے۔بحث یقیناََ پیچیدہ ہے لیکن یہ معاملہ بلا شبہ فوری قانون سازی کا متقاضی ہے۔
ٹورنٹو میں چند سال قبل سنے گئے ایک مقدمے کا مختصر ا حوال شاید زیر بحث معاملے کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو۔ہوا یوں کہ ایک ملازمت پیشہ خاتون کی شیر خوار بچی اپنی بے بی سٹر (babysitter) کی غفلت کے باعث گر کر کوما میں چلی گئی۔مقدمہ درج ہوا اور بے بی سٹرجیل بھیج دی گئی ۔بچی معجزانہ طور پر صحت یاب ہو گئی تو خاتون نے بے بی سٹر کو معاف کرکے عدالت سے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کی۔ لیکن عدالت میں موجود بچوں کے حقوق کی تنظیم کے نمائندے نے اس ’ صلح ‘ کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس کا موقف تھا ، ’’ یہ بچی صرف ایک عورت کی بیٹی نہیں ؛ یہ کینیڈا کی بیٹی بھی ہے ۔‘‘ لہٰذا حریفوں کے درمیان ’مک مکے ‘ کی بنیاد پر یہ مقدمہ ختم نہیں کیا جاسکا! یہاں سوال بنتا ہے کہ کیا لاہورکے یہ معصوم و معذور بچّے پاکستان کے بیٹے نہیں ہیں ؟
کوئی پانچ سال قبل کراچی میں شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں شاہ زیب خان کے قتل کے مقدمے میں حریفوں کے درمیان صلح سے متعلق تفصیلات سے پوری قوم اچھی طرح واقف ہے۔یہ جاننے کے لئے محنت کی ضرورت نہیں کہ اس مقدمے نے دنیا میں پاکستان کے بارے میں کیا تاثر قائم کیا۔ وکی پیڈیا کے متعلقہ پیج پر انگریزی میں درج ہے کہ، ’’(ترجمہ) اِس سانحے نے پاکستان میں امنِ عامہ اور (یہاں مروجہ ) انصاف کے نظام کا اصلی چہرہ دکھادیاہے۔‘‘
ستم یہ کہ پاکستان میں مقدمات کی کارروائیوں میں ریاست کا کردار کم و بیش واجبی ہے ۔ سماعت کے دوران اَ صل کھیل عموماً مدعی اور ملزم کے وکلاء کے درمیان کھیلا جاتا ہے ۔ پولیس ، سیکورٹی فورسز، تفتیشی و تحقیقاتی ادارے اور استغاثہ ایک سطح پر اگرچہ ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن یہ نمائندگی دیوانی اور عام جرائم سے متعلق مقدمات میں کم و بیش غیر موثر رہتی ہے ۔
عام تاثر ہے کہ استغاثہ کے وکیلوں کا جھکائو عموماً مقدمے کے زیادہ طاقتور یا زیادہ دولت مند حریف کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے اور یوں یہ صورتحال فیصلوں پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ اگرچہ استغاثہ سے منسلک وکیلوں کی کم تنخواہیں اپنے طور پر ایک سنجیدہ معاملہ ہے لیکن بدعنوانی کے آسیب نے اِس اہم شعبے کو ناصرف غیر فعال کردیا ہے بلکہ یہ ناانصافی کے امکانات کا مستقل سبب بھی ہے۔ شاہ زیب خان کے قتل کے مقدمے میں صلح نامے کا پیش کیا جانا بظاہر اس صورتحال کی واضح نشاندہی ہے۔
جرائم کی نوعیت اور معاشرے کے نفسیاتی خدوخال کے تناظر میں کسی نہ کسی سطح پر قانون میں مصالحت کی گنجائش یقیناََ ہونا چاہئے ۔ لیکن اس معاملے میں حریفوں کو ہر طرح کا اختیار دے کر عدالت اورر یاست کو مکمل طور پر بے بس اور بے اختیار کردینے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے ۔ مثال کے طور پر کسی بااثر شہری کا بیٹا قتل کے ایک مقدمے میں ’صلح ‘ کے ذریعے بری ہوکر دوسرا قتل کردیتا ہے اور دوسری باربھی آزاد کردیا جاتا ہے تویہ کسی قانونی سقم کے تحت قاتل کو ملنے والی ایک غیر منطقی اور خطرناک رعایت ہے۔ یہی وہ صورتحال ہوتی ہے جہاں ریاست کی طاقتور مداخلت ناگزیر ہوجاتی ہے ۔
ریاست کا اوّلین فرض ہے کہ وہ پولیس یا دیگر تحقیقاتی اداروں اور استغاثہ کے ذریعے جرم کا سد باب کرے اور ہر مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے عدالت میں بھر پور قانونی کردار ادا کرے ۔ دوسری جانب عدالتوں کوبھی اپنے اختیار ات کا بے باک ا ستعمال کرتے ہوئے حریفوں کے وکلا کے تیار کردہ صلح ناموں کے اندراجات پر سو فیصد عمل کرنے کے بجائے تمام قانونی اور معاشرتی پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر اپنا آزاد فیصلہ صادر کرنا چاہئے ۔ دوسری صورت میں اس قسم کے قانونی سقم مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے اور جرائم پیشہ عناصر مصالحت کے آسان اور سستے ہتھیار کے ذریعے امن پسنداور مہذب شہریوں کے لئے خطرہ بنے رہیں گے ۔
ماضی میں شاہ زیب خان کے قتل کے مقدمے میں جمع کرایا جانے والا صلح نامہ اورلاہور میں رنگ محل کے معذور بچّوں پر تشدّد کے تازہ واقعہ کے بعد والدین اور اِس ظلم کے مرتکب بس کنڈکٹرز کے درمیان مصالحت ، آگہی کے مارے اُن لوگوں کے لئے انتہائی مایوس کن ہیں جن کی معصوم بیٹیوں نے حال ہی میں نا معلوم چھری مار کے ہاتھوں زخم کھائے ہیں ۔
کراچی میں تعینات قانون نافذ کرنے والے ادارے اب تک وضاحت نہیں کرسکے ہیں کہ ایک معمولی چھری مار ان کے لئے بھلا چھلاوہ کیوں کر بن گیاہے؟ پانی کے زیر زمین ٹینکوں سے میزائل بر آمد کرنے والے ماہرین ایک دُبلے پتلے موٹر سائیکل سوار سے معمولی چھری چھیننے کی انتھک کوششوں میں آج بھی مصروف عمل ہیں۔خود اعتمادی کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ پولیس افسران کو گرفتار شدہ افراد میں سے کسی کے بارے میں یہ مکمل علم نہیں کہ وہ اصل آدمی ہے یا نہیں ! اب ایک بار پھر سننے میں آرہا ہے کہ اصل چھری مار کی گرد ن دبوچ لی گئی ہے ۔ لیکن یہ پولیس ہی جانتی ہے کہ عوام کے سامنے کسی کو ’’اصلی چھری مار‘‘ کس طرح ثابت کیا جائے گا۔
اب تشویش یہ ہے کہ ’’اصلی چھری مار‘‘ اگر سچ مچ ہاتھ آنے والا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ سنجیدگی کے ساتھ کیسے لڑا جاسکتا ہے ؟ مقدمے کی ممکنہ طوالت کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ چند خواتین مایوس ہوکر گھر بیٹھ جائیں اور چندبادل نخواستہ ہی سہی، صلح پر رضامند ہوجائیں ۔ایسی صورت میں کیا ریاست اور اس کے ماتحت ادارے ایک بارپھر خاموش تماشائی بن کر ’’اپنی بیٹیوں‘‘ پر حملہ کرنے والے شخص کو بھی ایک دن بری ہوتا دیکھ رہے ہوں گے؟

تازہ ترین