• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاست آج کل ایک سنسنی خیز فلم کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہر لمحہ نئے نئے انکشافات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ خبروں، تجزیوں اور تبصروں کی زینت بننے والی بہت سی کہانیاں حقائق کی بجائے ذاتی پسند یا ناپسند پر مبنی ہوتی ہیں اسلئے بہت جلد ذہن کی اسکرین سے غائب ہو جاتی ہیں مگر فلم بدستور چلتی رہتی ہے نئے نام اور ٹائٹل کیساتھ یا کرداروں میں تھوڑی بہت تبدیلی ہو جاتی ہے۔ فلمساز اور کہانی کار کئی ہیں اور ہر کوئی اپنی تخلیق کو سپر ہٹ بتا کر حقیقت ثابت کرنا چاہتا ہے۔ تمام دُور کی کوڑی لانے والے اپنے اپنے محاذوں پر پوری طرح چوکس اور فعال ہیں۔ پہلے بدلتی ہوئی صورتحال کی بنا پر افواہیں جنم لیتی تھیں اب افواہیں کاشت کی جاتی ہیں۔ میڈیا سیل نام کی فیکٹریوں میں تیار کی جاتی ہیں اور سوشل میڈیا کی مدد سے کونے کونے تک پھیلائی جاتی ہیں۔ جذباتی اور حالات کا ایک رُخ دیکھنے والے اذہان میں یہ پنیری خوب پھلتی پھولتی اور آگے منتقل ہوتی ہے۔ آج کل چونکہ اکثریت اصل صورتحال کا اپنی آنکھوں سے جائزہ لینے اور واقعات کا سرا تلاش کرنے کی بجائے اسکرین کو زیادہ اہمیت دیتی ہے اسلئے تمام اداروں نے کارکردگی کی بجائے اشتہارات پر زیادہ فوکس کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہر پارٹی میڈیا سیل کو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتی ہے۔ اگر تو بات اپنی کاوشوں کی ترویج کی ہو تو یہ بہت لائق تحسین ہے مگر زیادہ تر مخالف پارٹی کے عیوب اچھالنے کے کام پر توجہ دی جاتی رہی ہے تاہم اب لوگ اس سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ اب خطرناک الزامات کا دور ہے جہاں سیاسی مخالفت کو ملک سے غداری اور مذہبی اختلاف کو کفر کہنے کا رواج چل نکلا ہے۔
جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ ایک غلطی کو درست ثابت کرنے کیلئے سو غلطیاں کرنے کی بجائے معاملات کو سنوار لیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا تاہم آئندہ کیلئے انصاف کے ترازو کے پلڑے چیک کرانے پڑیں گے، وزن کی پڑتال کرنی پڑے گی تا کہ سب کا احتساب ممکن ہو سکے۔ اگر انصاف کرنے والے ادارے مشکوک ہو گئے تو ملک میں انارکی کو فروغ ملے گا، طاقتور گروہ تشکیل دینے کا رجحان بڑھے گا۔ آج کل پھر فضا افواہوں کی زد میں ہے۔ ملک میں جمہوریت کا بستر گول کرنے کے خدشات عروج پر ہیں۔ یہ افواہیں کہیں ملک کو خانہ جنگی کی طرف نہ لے جائیں۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ صورت حال کو واضح کریں کیوں کہ اس سے سرمایہ کاری اور اسٹاک ایکسچینج شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب کو جس طریقے سے ہٹایا گیا وہ الگ معاملہ ہے مگر جمہوریت قائم رہے۔ انہی کی پارٹی کی حکومت بھی باقی ہے اس لئے ہیجان خیزی پیدا کرنے والے بیانات سے گریز بہتر ہے۔ الیکشن کا وقت زیادہ دور نہیں۔ ایسا نہ ہو تند بیانی کسی اور طوفان کا پیش خیمہ بن جائے۔ اس مثبت پیش رفت کا آغاز بھی حکومت اور سیاسی رہنمائوں کی طرف سے ہونا چاہئے۔ اگر وہ سابقہ حالات کو بھلا کر تعمیری کاموں پر توجہ مرکوز رکھیں تو دیگر ادارے بھی ایسا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ضرورت محتاط رویہ اپنانے کی ہے۔ ریاست اور اس کا مفاد ہر شے اور شخصیت پر مقدم ہونا چاہئے اور یہ کُلیہ کسی ایک ادارے پر نہیں بلکہ ہر پاکستانی پر لاگو ہونا چاہئے۔ یہ ملک ہماری شناخت ہے۔ اس کی شہریت پر ہمیں فخر ہونا چاہئے۔ اسکی محبت ہمارے ایمان میں شامل ہو گی تو ہم اسے باوقار بنانے کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے لیکن اس کیلئے سب کو حقیقتاً ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے جبکہ حقیقتاً دن بدن اداروں کے درمیان چپقلش ایسی جنگ کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے جس کے نتائج ملک اور قوم کو طویل مدت تک بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ نظریاتی مخالفت، پسند ناپسند اور جنگ میں فرق ہونا چاہئے۔ سیاست دان اور ادارے جب مخالفت کو دشمنی بنا لیتے ہیں تو ملک کی گاڑی ریورس گیئر میں ڈال دیتے ہیں۔ ایک ریاست کے اداروں کا اس طرح ایک دوسرے کو نیچا دکھانا دنیا کی نظروں میں ملک کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ فوج، حکومت اور سویلین اداروں میں اختلاف گہری خلیج کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بعض اوقات جذباتی شدت پسندوں کے سوشل میڈیا پر بیانات پڑھ کر ندامت ہوتی ہے کہ اپنے لوگوں اور اداروں کے بارے میں ہم اس رویے کا اظہار کر کے کیا خود کو گالی نہیں دے رہے۔
ایسے میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا بیان ایک آئیڈیل صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے مطابق حکومت، فوج اور عدلیہ میں بال برابر فرق نہیں۔ نیز فوج اور حکومت ایک دوسرے کی پشت پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا پشت پہ وار کرنے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں یا تحفظ کیلئے ۔ تاہم اگر ایسا ہے تو معاملات کی گاڑی کچے پکے گڑھوں میں دھکے کھاتی سست رفتاری سے آگے کیوں بڑھ رہی ہے۔ اس صورت میں تو اسے ترقی کی موٹر وے پر بھاگنا چاہئے تھا جبکہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سول ملٹری تعلقات میں تنائو کی بجائے اختلاف کا امکان ظاہر کیا ہے اور آرمی چیف کا معیشت پر رائے دینے کا حق بھی تسلیم کیا ہے۔ بہرحال اگر سیاستدان آرمی کے مختلف منصوبوں، کاروبار، رہائشی اسکیموں پر لطیفے بنا سکتے ہیں تو ایک سنجیدہ معاملے پر آرمی چیف اظہار خیال کیوں نہیں کر سکتا۔ معیشت کسی ایک فرد یا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں۔ اس کا اثر ہر فرد پر ہوتا ہے اس لئے مقتدر حلقوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تا کہ جلد از جلد قرضوں سے نجات حاصل کر کے ملک کو صحیح معنوں میں خود مختار بنایا جا سکے۔ ضروری ہے کہ کچھ سیاست دان چند آمر جرنیلوں کی آڑ میں پوری فوج کو نشانہ بنانے سے گریز کریں اور ریٹائرڈ جرنیل بھی اپنی کمر درد کے علاج پر توجہ فوکس کریں۔ کم از کم خود کانے تو دوسروں کو طعنہ نہ دیں۔ بہرحال اس وقت دفاعی ادارے کو متنازع بنانے سے گریز کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ یاد رہے ایک ہی دشمن دونوں طرف سرنگ لگائے بیٹھا ہے۔ سب کو اشیر باد دیئے جا رہا ہے۔ سخت قوانین کی روشنی میں ملکی مفاد میں ایک نئے این آر او کی ضرورت ہے جہاں ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہیں اور سابقہ کوتاہیوں کو فراموش کر کے نئے سفر کا آغاز کیا جائے۔ ٹیکنو کریٹ کا شوشہ اب کارآمد نہیں رہا کیوں کہ ماضی میں ہم نے کئی معین الدین قریشی اور شوکت عزیز درآمد کر کے دیکھ لئے ہیں کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے بریف کیس میں ترقی یافتہ ملک سے ایسا فارمولا نہ لے کر آ سکا جو پاکستان کے مسائل کو حل کر کے اسے درست ڈگر پر ڈال سکتا۔ اب بھی اگر کوئی بہتری آئے گی تو وہ کوئی سیاست دان ہی لے کر آئے گا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون ہو گا؟ میاں شہباز شریف نے مختلف مواقع پر اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ترقی کے جس انقلاب کا آغاز کیا ہے اگر اس کا دائرہ پورے ملک تک پھیلا دیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔
چلتے چلتے یاد آیا اب تو لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بہت کم ہو گیا ہے اور شنید ہے کہ 2018ء میں اس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا اس لئے وہ تمام صنعت کار جو بجلی کی کمی کا بہانہ بنا کر سری لنکا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں واپس آنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں کیوں کہ وطن کی مٹی بھی انہیں آواز دے رہی ہے۔ لوٹ آئیں اور اپنے سرمائے سے اپنے وطن میں بند فیکٹریوں کو آباد کریں تا کہ یہاںباسیوں کو روزگار ملے، برآمدات میں اضافہ ہو اور وطن ترقی کرے۔

 

تازہ ترین