• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ہم اپنے وطن کو نہایت مستحکم اور اپنے عوام کو خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں، مگر ہمارے انفرادی اور اجتماعی رویے ایک ایسے سانچے میں ڈھلتے جا رہے ہیں جس میں شائستگی سے بات کہنے اور تحمل کے ساتھ اختلافِ رائے سننے کی گنجائش کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ قوم کے سیاسی اکابرین جو عوام کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں، اُن کے اندر شدید تناؤ پایا جاتا ہے اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرنا بھی گوارا نہیں۔ جناب آصف زرداری پچھلے دنوں لاہور آئے اور یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ سے نواز لیگ کی قیادت نے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تو میں نے صاف انکار کر دیا۔ جناب عمران خاں جو اپنے آپ کو حقیقی اپوزیشن لیڈر سمجھتے ہیں، وہ سبھی سیاسی جماعتوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے اور اُن کے لیڈروں کو برے الفاظ سے پکارتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت آپس میں دست و گریباں ہے جبکہ مسلم لیگ نون کے قائدین سخت آزمائش سے دوچار ہیں۔ نوازشریف سپریم کورٹ سے نااہل ہو جانے کے بعد عدلیہ اور فوج سے برگشتہ دکھائی دیتے ہیں اور عوام کی حاکمیت کی جنگ لڑنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی جناب محمد شہبازشریف جن کی اعلیٰ کارکردگی اور شبانہ روز کوششوں سے جماعت کا بھرم قائم ہے اور ترقیاتی منصوبے وقت سے پہلے مکمل ہو رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ہمیں اداروں کے ساتھ محاذ آرائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی جو قوم کی فکری قیادت کا فریضہ سرانجام دیتی رہی ہے، اس کے امیر جناب سینیٹر سراج الحق ہر آن احتجاج کی زبان استعمال کرتے ہیں اور انتخابات میں ان کے ووٹر بہت کم رہ گئے ہیں۔ اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری سیاست بتدریج شرافت، سنجیدگی اور معاملہ فہمی کے اوصاف سے تہی دامن ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کا کردار پارلیمنٹ میں بہت محدود نظر آتا ہے جس کے باعث غیر سیاسی طاقتیں ضرورت سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔
ہمارے دانش وروں کی حالت بھی کچھ زیادہ قابلِ رشک نہیں۔ متانت، بردباری اور علمی گہرائی کے بجائے ان کے اندر بھی سطحیت اور تعصب کا غلبہ ہے۔ ٹی وی چینلز پر وہ مختلف ’طاقتوں‘ کے ترجمانوں کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ہم بعض صحافیوں کے چہروں پر بقراطیت کا ملمع دیکھتے ہیں اور جب وہ گفتگو فرماتے ہیں، تو یوں لگتا ہے کہ تمام صاحبانِ اقتدار ان کی مشاورت اور صحبت سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ الفاظ کی جگالی سے ناظرین تنگ آگئے ہیں۔ وہ اس قدر چیختے اور دھاڑتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ان کی پیشین گوئیاں قوم سے اپنے اعلیٰ مقاصد کے لیے تگ و دو کرنے کا عزم چھینتی جا رہی ہیں۔ ان اندھیروں میں انسانی ذہن روشن الفاظ اور تابناک چہرے تلاش کرتا اور حسین تخیلات میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے عہد کے ایک نئے لہجے کے شاعر عزیزی مسعود عثمانی نے ہمیں ایک بھارتی شاعر جناب عرفان صدیقی کی ’روشن‘ ردیف کے ساتھ ایک غزل کے چند اشعار سے روشناس کرایا ہے۔ مجھ پر ان کا ایک سحر طاری ہے اور میں لطیف جذبات کی ایک نئی دنیا میں آ گیا ہوں۔ آپ بھی ان کا لطف اُٹھایئے؎
موجِ خوں نیلے سمندر کا سفر کرتی ہوئی
دجلہ روشن کبھی اس رنگ سے گنگا روشن
کانپتے ہاتھوں میں دل دار دعاؤں کے چراغ
اور اشکوں کے ستاروں سے مصلیٰ روشن
چھت پر مہتاب نکلتا ہوا سرگوشی کا
اور پازیب کی جھنکار سے زینہ روشن
آؤ سب بند کریں کالی کتابیں ساری
رحل پہ ہونے کو ہے سبز صحیفہ روشن
بظاہر شعری طلسم اور سنگلاخ زمینی حقیقتوں میں کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا، مگر ہمارے ملکی حالات میں سرگوشی کا ماہتاب طلوع ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں کی حکایت سنا رہا ہے۔
ہم جسے ملکی استحکام کہتے ہیں، اس کے سرچشمے ہمارے اندر موجود ہیں۔ ہم سب مل کر اپنے عظیم وطن کو عظیم تر بنا سکتے ہیں۔ یہ استحکام اداروں کے مابین ہم آہنگی اور ہمارے درست اجتماعی رویوں سے فروغ پاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں، اہلِ دانش، اہلِ قلم اور اہلِ سیف ان عظیم روایات کو پروان چڑھاتے ہیں جن کی جڑیں ہماری تاریخ، ہمارے عقائد، ہماری تہذیب اور ہمارے شعور میں بہت گہری ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت دل سے تسلیم کرنا ہو گی کہ پاکستان جمہوری عمل سے وجود میں آیا تھا اور جمہوری عمل ہی سے اس کی بقا، اس کا ارتقا اور اس کا استحکام وابستہ ہے۔ یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کو اعلیٰ سیاسی تربیت دینے اور ڈسپلن قائم کرنے میں قابلِ فخر کردار ادا نہیں کر سکیں، مگر یہ حقیقت بھی اسی قدر افسوس ناک ہے کہ فوجی بغاوتوں نے سیاسی استحکام کو درہم برہم کرنے اور سول اداروں میں بدنظمی پھیلانے میں منفی کردار ادا کیا۔ اب ہمیں اس تنازع سے باہر آ جانا اور قومی طاقت کے جملہ عناصر میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔ ملکی استحکام کے لیے سیاسی اور معاشی استحکام لازم و ملزوم ہے۔ یہ استحکام آئینی اور جمہوری عمل کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہم نے گزشتہ برسوں میں سیاسی استحکام کو پنپتے دیکھا۔ تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود پارلیمنٹ نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی ایک روشن مثال قائم ہوئی۔ حکومتی استحکام کی بدولت وزیراعظم نوازشریف کے چار سالہ دورِ اقتدار میں ملک نے بے پناہ ترقی کی۔ سڑکوں اور شاہراہوں کا جال پھیلتا جا رہا ہے۔ بجلی کے کارخانے لگ رہے ہیں اور اندھیرے اُجالوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے وزیرِ خزانہ جناب اسحق ڈار جن کو ایک سال پہلے ایشیا کا بہترین وزیرِ خزانہ ہونے کا خطاب ملا، وہ چار سال میں اقتصادی نمو 3.7سے 5.3فی صد تک لانے میں کامیاب ہوئے۔ عالمی جریدے ’اکانومسٹ‘ نے لکھا ہے کہ پاکستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی پانچویں معیشت ہے اور اس کی معاشی ترقی کی رفتار ملائیشیا، انڈونیشیا اور ترکی سے بھی قدرے زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے ہماری جمہوری حکومت کی کارکردگی کی تعریف کی جانی چاہیے، مگر ہمارے بعض اداروں کو اپنی حد سے نکل کر دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کی جو عادت پڑ گئی ہے، وہ مسائل پیدا کرتی ہے۔ ہمارے نزدیک پوری قوم کو متحد اور اسے ترقیاتی عمل میں شریک رکھنے کے لیے مضبوط سیاسی جماعتیں ناگزیر ہیں اور ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح ہم یہ شہادت دیتے ہیں کہ دہشت گردوں کے عفریت پر قابو پانے میں ہماری فوج، ہمارے رینجرز اور ہماری پولیس نے بے کراں قربانیاں دی ہیں اور حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں، قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔ یہ ہمارے قیمتی اثاثے ہیں اور ان کے استحکام پر پاکستان کے استحکام کا انحصار ہے۔ اسی طرح دانش ور، اہلِ قلم اور تجزیہ کار قوم کے اندر نئی رُوح پھونکتے رہتے ہیں۔ یہ تمام عناصر مل کر کام کریں گے، تو ملکی استحکام اور قومی ترقی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
گزشتہ چند ہفتے شدید تناؤ میں گزرے اور افواہوں کے طوفان اُٹھتے رہے۔ یوں محسوس ۔ہوتا تھا کہ جمہوری حکومت کی بساط لپیٹی جا رہی ہے، مگر دونوں طرف بالآخر اس امر کا شدید احساس ہوا کہ بیان بازی، افواہ سازی اور محاذ آرائی سے پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، چنانچہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور وزیرِ داخلہ جناب احسن اقبال نے مدبرانہ طرزِ عمل اختیار کیا۔ میجر جنرل آصف غفور ایک منجھے ہوئے وزیرِ اطلاعات معلوم ہوئے۔ ادھر محترمہ مریم نواز اور عزیزی حمزہ شہباز کی جناب شہباز شریف کی قیادت میں ملاقات ایک بڑی پیش رفت ہے جو حالات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس ملاقات کی جناب نوازشریف بھی مانیٹرنگ کرتے اور اعتدال پسندی سے کام لیتے رہے۔ جناب حمزہ شہباز کی گفتگو میں بڑی فراست اور دانائی تھی جسے سیاسی حلقوں میں سراہا گیا۔ مریم نواز صاحبہ پُرعزم بھی تھیں اور انہیں حالات کی نزاکت کا پورا اِدراک بھی تھا۔ حالات میں بہتری کے واضح آثار ہیں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ نام نہاد ترجمانوں کی زباں بندی کا اہتمام کیا جائے۔ زیادہ تر فتنے یہی ترجمان اُٹھا رہے ہیں۔سیاسی استحکام کی ذمے داری عسکری قیادت پر بھی عائد ہوتی ہے۔

تازہ ترین