• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ذرا مشکل ترجمے سے بات شروع کرتے ہیں، بعد کی گفتگو کو سمجھنے سمجھانے میں کچھ مدد ملنے کی توقع پر۔
مقاطعۂ جوعی،ایک بڑے آدمی نے یہ ترجمہ کیا۔ وہ بڑے صحافی بھی تھے۔ اردوصحافت میں استعمال ہونے والے بہت سے ترجمے انہیں کے کئے ہوئے ہیں۔ مگر یہ ترجمہ اتنا مشکل تھا کہ اس کے بعد بہت سے مترجمین نے بھوک ہڑتال کردی۔ آپ مقاطعۂ جوعی اور بھوک ہڑتال میں کوئی تعلق تلاش کرسکتے ہیں؟ ایک ہی بات ہے۔ ہنگر اسٹرائک کا پہلا ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا۔ بڑے صحافی تھے اور بڑے ادیب۔ یہ ترجمہ مگر چل نہیں سکا۔ مشکل ترجمے نہیں چل پاتے۔بھوک ہڑتال اس وقت بھی سب کی سمجھ میں آیا اور آج تک آتا ہے۔ جن کی زیادہ سمجھ میں آتا ہے وہ کر بھی لیتے ہیں۔ عبدالمجید سالک نے یہ ترجمہ کیا تھا ۔ اسی طرح سول نافرمانی Civil Disobedienceکا ترجمہ ہے۔ یہ بھی عام فہم ہے۔ ظفر علی خان نے اس کا ترجمہ ’عصیانِ مدنی‘ کیا تھا، وہ نہیں چلا۔
ایک بات تو آپ سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک زبان کے محاورے اور مثالیں دوسری زبان میں ترجمہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ہر محاورے کی اپنی ایک کہانی ہوتی، ایک پس منظر ہوتا، مقامی ثقافت کو بھی ہم شامل کئے لیتے ہیں۔ پھر اس کا ایک ادبی پسِ منظر بھی ہوتا ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرنے کے حوالے سے کافی گفتگو کے بعد لکھا : ’’ترجمے اور تصنیف کے تجربہ کار جانتے ہیں کہ ان کی عبارت میں کسی زبان کا اصل لفظ اپنا جو مطلب بتاجاتا ہے، سطر سطر بھر عبارت میں ترجمہ کریں تو بھی وہ بات حاصل نہیں ہوتی جو مجموعہ خیالات کا اور اس کی صفات اور لوازمات کا اس ایک لفظ سے سننے والے کے سامنے آئینہ ہوجاتا ہے، وہ ہماری سطر بھر سے پورا نہیں ہوتا۔‘‘
کچھ دلچسپ مثالیں پیش ِ خدمت ہیں۔ ایک بہت معروف صاحب قلم کی کتاب سے لی گئی ہیں۔ آپ پسند کریں تو انہیں استعمال کریں، ورنہ کوئی اور لفظ تلاش کریں۔ ’’یہ جستجو ازراہِ تفریح ہے نہ برائے تہمت‘‘۔ Scandal کاترجمہ تہمت کیا ہے۔ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں ـ ’’خوابیدہ حصہ داری‘‘۔ یہ Sleeping Partnership کا ترجمہ ہے۔ ان کے ایک دوست ـ بائی سائیکل کے’ بار گیر‘ پر سفر کرتے تھے۔ میں اور آپ کیریر پر بیٹھتے رہے ہیں۔ بار گیر پر شاید اب بیٹھیں۔ ان کے لئے جمہوریت ایک ’’شمار شی کھیل ہے‘‘۔ یعنی Game of Numbersمگر اس سے سمجھ میں کیا آیا؟ اور دیکھیں کہ اپنی کتاب میں انہوں نے Microscopic Minority استعمال کیا ہے، کوئی ترجمہ نہیں کیا۔ میرے خیال میں اسے قلیل اقلیت کہا جا سکتا ہے، اگر میں غلط ہوں تو آپ میری تصحیح کرسکتے ہیں۔ اور بھی بہت کچھ صاحب ’’آواز ِ دوست‘‘ کی نئی کتاب میں ہے۔ ایک پیش ِ خدمت ہے۔ Town Planning کو’’شہری طرح بندی‘‘ کہیں تو شہری منصوبہ بندی تو نہیں ہو پائے گی۔
ـ ــمیں نے اپنے ایک پوتے کے ساتھ مل کر کچھ ترجمے کئے ہیں۔ آپ کی نظر ہیں۔ حسب ِدستور ِحالیہ وہ ایک نام نہاد انگریزی اسکول میں پڑھتا ہے۔ بات سمجھتا ہے۔ اگر اس سے کہا جائےTake your seat تو وہ اپنی کرسی پر بیٹھ جائے گا۔ جب ہم دونوں نے مل کر اس کا ترجمہ کیا تو اس نے کہا’’ اپنی کرسی لے لو‘‘۔ ایک آدھ دن بعد کسی بات پر اس کی سرزنش ہوئی، کہا گیا No way ۔ وہ مان گیا۔ ساتھ ہی اس نے ترجمہ کیا ’’کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔ یہ زبان ، الفاظ اور ماحول کا ایک دوسرے سے ربط کا نتیجہ ہیں۔ ’’بیٹھ جایئے‘‘ اور ’’نا کریں ‘‘ ۔ ایک اچھی خاصی ملازمت محض اس لئے ملنے سے رہ گئی کہ عزیز دوست ایک اخبار نکالنے والے تھے، اس پر بات ہو رہی تھی، انہوں نے پوچھا What is your take? ایک شرمندگی سی محسوس ہوئی، یہ شاید مجھ سے پوچھنا چاہ رہے ہیںکہ میں کیا لینا چاہتا ہوں۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ دوست صرف میرا خیال ، میری رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس جملے میں کہاں سے مجھ ایسا تقریباً ناخواندہ شخص یہ باریکی تلاش کر سکتا تھا۔ ایک دوست کو کسی کے بارے میں بتایا، He has left for good ان سے پوچھا بھی کہ اس کا کیا مطلب ہوا۔ انہوں نے بالکل صحیح جواب دیا : ’’اچھے کے لئے چھوڑ دیا‘‘۔ حالانکہ جن صاحب نے چھوڑا تھا، انہوں نے ہمیشہ کے لئے چھوڑا تھا۔ یہی اس کا درست مطلب ہے۔ اصل میں ترجمہ مفہوم کا کیا جانا چاہئے، نہ کہ الفاظ کا۔
ترجمہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہم نے سمجھ لیا ہے یا سمجھ رکھا ہے۔ کسی شخص کو اگر صرف ایک زبان آتی ہو تو وہ دوسری زبان سے ترجمہ نہیں کرسکتا، اچھا ترجمہ تو قطعی نہیں کر سکتا۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کے لئے دونوں زبانوں پر ایک معقول حد تک عبور ہونا چاہئے۔ منٹو نے فرانسیسی سے اردو میں’ سرگزشتِ اسیر‘ کے نام سے ایک کتاب کا ترجمہ کیا تو اس کی وجہ ہے، اسے فرانسیسی بھی آتی تھی اور اردو بھی۔
ان دنوں انگریزی کتابوں کے بہت ترجمے کئے جا رہے ہیں۔ آپ نے Will Durant کی کتابیں پڑھی ہونگی،
The Story of Philosophy, The Pleasures of Philosopy,
ان کتابوں کو آپ میں سے جن لوگوں نے پڑھا ہے وہ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ فلسفے جیسے خشک اور گنجلک موضوع پر اتنی خوبصورت انگریزی میں Will Durant نے یہ کتابیں لکھی ہیں کہ آپ انہیں ناول کی طرح پڑھ سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کتابوں کے ترجمے ہوئے ہیں۔ The Pleasures of Philosophy کا ترجمہ’ نشاط فلسفہ‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔ نام بہت اچھا رکھا، مگر مجھ جیسے کم علم کی سمجھ میں اردو زبان کی وہ تحریر اچھی طرح نہیں آسکی۔ میں اردو میں نشاط فلسفہ پڑھنے کے لئے انگریزی کتاب بھی ساتھ رکھتا ہوں، پھر انگریزی ہی میں پڑھتا ہوں۔ یہی حال بعض دوسری کتابوں کا ہے، بلکہ اکثر ترجموں کا ہے۔اس کے بالکل برعکس، دوستوں نے بتایا کہ فارسی میں انگریزی کتابوں کے بہت اچھے ترجمے ہوتے ہیں۔ جن لوگوں نے دیکھے ہیں وہ تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں۔ ہم نے فارسی تو نہیں پڑھی، تیل بیچتے ہیں۔
ایک بار اسپین جانا ہوا۔ قرطبہ میں کتابوں کی ایک دکان میں چلاگیا۔ بہت سے جانے پہچانے مصنفین کے نام نظر آئے۔ جی خوش ہو گیا۔ ایک کتاب اٹھا کر دیکھی، پھر دوسری، اور کئی۔ وہ سب اسپینش زبان میں ترجمہ کی ہوئی تھیں۔ پتہ چلا اِدھر کتاب آئی اُدھر اس کا ترجمہ مقامی زبان میں کردیا گیا۔ ترجمہ کیسا تھا، میں بتا نہیں سکتا۔ اسپینش زبان نہیں آتی۔ البتہ ایک بات میں بتا سکتا ہوں، دوسری کئی زبانوں سے انگریزی میں جو ترجمے ہوئے ہیں انہیں کسی مشکل کے بغیر پڑھا جا سکتا ہے۔ Plutarch کی Lives ظاہر ہے انگریزی میں نہیں لکھی گئی، مگر اس کاانگریزی ورژن بہت اچھا ہے اور آپ لطف لے کر پڑھ سکتے ہیں۔ اور بہت سی کتابیں جو انگریزی میں لکھی نہیں گئیں، مثلاً افلاطون کے ڈائیلاگ، اور یونانی فلسفیوں کے ارشادات۔ انہیں پڑھ کر آپ کو بس اتنی ہی مغائرت محسوس ہوتی کہ آپ انہیں ایک دوسری زبان میں پڑھ رہے ہیں، مگر یہ سب کتابیں فلسفے کی، آپ کی، ہر پڑھنے والے کی سمجھ میں اچھی طرح آتی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان زبانوں سے انگریزی میں ترجمے کئے گئے، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان پر بڑی محنت کی گئی ہے۔ یہی اصل بات ہے۔ محنت نہیں ہو رہی ہے۔ (جاری ہے)
(ترجمہ کے عالمی دن کے حوالے سے انجمن مترجمین کراچی کی تقریب میں پڑھا گیا)

تازہ ترین