• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک خبر کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ’’پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ یعنی پیمرا کے حکام سے کہا ہے کہ مختلف چینلز کے خلاف عدالتوں میں جاری مقدمات واپس لے لئے جائیں۔ جناب وزیر اعظم کی دلیل یہ ہے کہ اگر برسوں ان مقدمات کے فیصلے نہیں ہونے اور چینلز نے اپنی روش جاری رکھنی ہے تو پھر اس بے سود مشق کو ختم کر دینا چاہیے۔ خبر کے مطابق پیمرا کی طرف سے مختلف چینلز، اینکرز یا مالکان کے خلاف اس وقت آٹھ سو سے زائد مقدمات چل رہے ہیں۔ پیمرا ان مقدمات کے لئے بھاری فیسوں والے بڑے وکیلوں کا انتظام کر نے سے قاصر ہے۔ لہذا یہ مقدمات کئی کئی سالوں سے لٹکے ہوئے ہیں اور پیمرا بے بسی سے تماشا دیکھ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بعض چینلز ایسے بھی ہیں جنہیں سرے سے لائسنس بھی حاصل نہیں ہوا اور وہ ضابطے کی کارروائیوں سے گزرے ہی نہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جوں ہی کسی چینل کی گرفت کی جاتی ہے، قاعدے قانون کے مطابق اُسے شو کاز نوٹس جاری کیا جاتا ہے، وہ بلا تاخیر کسی بھی سطح کی عدالت سے رجوع کرتا اور اسٹے آرڈریعنی حکم امتناعی حاصل کر لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیمرا کے ہاتھ پاؤں بندھ جاتے ہیں۔ وہ چینل کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ نہ ہی اُس کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ پوری طاقت کے ساتھ عدالتی کارروائی میں حصہ لے اور اپنے موقف کی سچائی ثابت کرے۔ اس صورت حال کا عملی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کا ایک حصہ کسی ضابطے، قاعدے، قانون، آئین حتٰی کہ عمومی اخلاقیات کو بھی خاطر میں لائے بغیر وہ سب کچھ کئے جا رہا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے۔
کچھ لوگ اِسے صرف سیاست کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ فلاں چینل یا فلاں اینکر فلاں سیاسی جماعت یا شخصیت کو اُچھالتا ہے۔ فلاں ایک خاص موقف کا ڈھنڈورا پیٹتا اور طے شدہ ایجنڈے کے تحت کردار کشی کرتا ہے۔ فلاں کو یہ مشن سونپ دیا گیا کہ وہ ایک خاندان کو نشانہ بناتا رہے۔ معاملہ اس طرح کے سیاسی جھگڑوں سے بہت آگے کا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حکومت تو بے بس ہے ہی، خود میڈیا کا ایک حصّہ بھی ہر قید سے آزاد ہو کر اس قدر بے مہار ہو گیا ہے کہ قومی سلامتی، جمہوری نظام، معاشرتی اقدار، سماجی روّیے، ریاستی استحکام، غرض سب کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے اذیت ناک بات یہ ہے کہ زبان بگڑ گئی ہے۔ لہجے ناشائستہ ہو گئے ہیں۔ ایسے لفظوں کا استعمال روز کا معمول ہو گیا ہے جنہیں کوئی بھی مہذب معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ڈرامے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھے جاسکتے، اب گھر کے سارے افراد کے لئے مل بیٹھ کر بعض ’’ٹاک شوز‘‘ کو دیکھنا بھی ناممکن ہو گیا ہے۔ لوگ نہیں چاہتے کہ اُن کے بچے اس طرح کی زبان اورلب و لہجہ سیکھیں۔ بہت سے سیاستدان اپنی شائستگی اور سنجیدگی کے حوالے سے جانے جاتے تھے لیکن دیکھا دیکھی اب وہ بھی اُسی رنگ میں رنگ گئے ہیں جو عام ہوتا جا رہا ہے۔الیکٹرانک میڈیا کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو اس رنگ میں نہیں رنگا گیا۔ وہ خالص پیشہ ورانہ انداز میں کام کررہا ہے۔ قانون اور اخلاقیات کی حدوں کا خیال رکھتا اور ملکی مفاد کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتا ہے۔ اُسے اپنی ساکھ عزیز ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ایسے چینلز آج بھی عوام میں مقبول ہیں اور لوگ ان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد الیکٹرانک میڈیا کے ضابطہ اخلاق کے لئے کوشش کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے مشیر عرفان صدیقی کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی میں الیکٹرانک میڈیا مالکان کی تنظیم پی بی اے (پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن) کے نمائندے بھی شامل تھے۔ تقریباً ڈیڑھ دو سال تک اس کمیٹی کے اجلاس ہوتے رہے۔ آخر کار ایک ایسا متفقہ ضابطہ اخلاق تیار کرایا گیا جس پر حکومت اور پی بی اے پوری طرح مطمئن تھے۔ یہ ضابطہ اخلاق سپریم کورٹ میں بھی گیا۔ عدالت عظمی نے دونوں فریقوں سے پوچھا۔ دونوں نے رضا مندی ظاہر کی اور پھر سپریم کورٹ ہی کے حکم پر یہ ضابطہ اخلاق نافذ کر دیا گیا۔ پیمرا نے پرانے ضابطہ اخلاق کی جگہ اسے اپنا لیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب خود پی بی اے کی طرف سے ایک ضابطہ اخلاق پر رضامندی ظاہر کر دی گئی، خود پی بی اے نے اس کی تیاری میں بھرپور حصہ لیاتو کسی ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہی نہ رہتی اور اس ضابطہ اخلاق پر عمل شروع ہو جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جن سنجیدہ اور شائستہ چینلز کا اُوپر ذکر ہوا وہ اب بھی ممکن حد تک اس ضابطے کی پابندی کرتے ہیں لیکن ’’آزادی‘‘ کے نام پر بے مہار ہو جانے والے عناصر کو یاد ہی نہیں کہ ایسا کوئی ضابطہ اخلاق وجود بھی رکھتا ہے۔ یوں عملاً الیکٹرانک میڈیا کے بڑے حصّے نے دیگر قوانین، قاعدوں اور ضابطوں کے ساتھ ساتھ اس ضابطہ اخلاق کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔
صورتِ حال کی سنگینی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ معاشرے میں نفرتوں کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ فرقہ واریت کو اچھالا جا رہا ہے۔ قومی یکجہتی میں دراڑیں ڈالی جا رہی ہیں۔ عدم استحکام کا تاثُر عام کیا جارہا ہے۔ جمہوریت کو گالیاں دی جارہی ہیں۔ عدم برداشت اور اشتعال کو ہوا دی جارہی ہے۔ معاشرے کے مختلف طبقوںکو ایک دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے پر اُبھارا جا رہا ہے ۔ دنیا کو پیغام دیا جارہا ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی اچھا نہیں لہذا سرمایہ کار، سیاح، کھلاڑی اور سفارت کار ادھر کا رُخ نہ کریں۔ اب تو حالت یہ ہے کہ باقاعدہ فتوے بھی جاری کئے جارہے ہیں اور مذہب کے نام پر انسانوں کو سبق سکھانے کی تلقین کی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ ہر روز ہو رہا ہے۔ گھنٹوں ہورہا ہے۔ پوری ریاست کُھلی آنکھوں سے چُپ چاپ یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ آئین، قانون، ضابطے، قاعدے حتیٰ کہ اخلاقیات کچھ بھی کام نہیں آ رہا۔ کوئی خوش ہے کہ اُسکے حریفوں کی پگڑی اچھل رہی ہے۔ کوئی خوش ہے کہ اُسکی سیاست کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ کوئی خوش ہے کہ چلو ایک خاص طبقہ ہی بدنام ہو رہا ہے۔ کوئی خوش ہے کہ چلو جو کچھ بھی ہو رہا ہے و ہ تو بچا ہوا ہے۔ یہ اندازہ لگانا تو آسان نہیں کہ میڈیا کے ایک حصے کا یہ طرزعمل، کس کو فائدہ پہنچا رہا ہے اور کس کو نقصان لیکن دو باتیں پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ میڈیا کا یہ حصہ اپنے چال چلن سے خود میڈیا کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا رہا۔ اُس کے اعتبار کو ختم کر رہا ہے۔ اس کی عزت میں کمی لا رہا ہے۔ میڈیا کی آزادی پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اس طرز عمل سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ طرح طرح کے داخلی اور خارجی مسائل میں گھر ا وطن عزیز سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ اپنے مسائل پر توجہ مانگتا ہے۔ ان پر مثبت اور تعمیری مکالمہ مانگتا ہے۔ اُن کے حل کیلئے ٹھوس تجاویز مانگتا ہے۔ اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے کا گریبان نوچنے اور بے سود تماشوں میں لگے ہیں۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ خود میڈیا سے تعلق رکھنے والے بڑے اور بزرگ میدان میں آئیں اور اپنی عمر بھر کی کمائی کو لٹنے سے بچا ئیں؟

تازہ ترین