• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھری پھرے بھی اور چیخ بھی نہ نکلے۔ کچھ ایسا ہی تقاضا ہے، لیکن تکلیف ہوگی تو چیخیں تو نکلتی ہی ہیں اور ایسے میں جب دستِ قاتل کو جھٹکنے کی سکت بھی نہ ہو۔ سوائے اس کے کہ ایک اچھے خاصے منتخب وزیراعظم کو ایک خالی کھاتے کی تہمت پر چلتا کرنے سے جو دھول اڑی ہے، پاکستان پہ ایسی کیالئے آفت ٹوٹی ہے کہ ہر طرف ’’گو جمہوریت گو‘‘ کے بے ہنگم ڈھول پیٹنے میں ہمارے میڈیا کے دوست بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔ یہ دن بھی دیکھنے کو ملنا تھا کہ طرح طرح کے نقال اور بھانڈ جمہوریت کی اعلیٰ اقدار کے حوالے دے دے کر جیسی کیسی، لٹی پٹی اور بدحال بی جمہوریت کو بیچ چوک برہنہ کر کے اُس پر سنگ باری کریں اور اپنی اذیت پسندی (Sadism) کی تشفی میں شرم بھی محسوس نہ کریں۔ ایسے ایسے بدکردار، بدوضع اور بدطینت لوگ میدان میں احتساب کی دو دھاری تلوار لئے نعرہ زن ہیں کہ شریف احتساب پر ترس آتا ہے۔ اُستاد مارکس نے کبھی کیا خوب کہا تھا کہ ہر نعرے کے پیچھے کوئی نہ کوئی معاشی مفاد گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ عوام کو دھوکہ دیا جاتا رہا ہے، تاآنکہ وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ سیاست اُن کے ناکردہ گناہوں کا اجر ہے۔ پہلا مرحلہ تو یہ تھا کہ 2013ء کے عام انتخابات کے مینڈیٹ کی بیچ دارالحکومت دھجیاں بکھیر دی جائیں اور خالی ہوتے ہوتے پنڈال بھرے بھرے نظر آئیں۔ عوامی مینڈیٹ کی بے حرمتی پہ خوب بغلیں بجائی جائیں اور ناکہ بند پارلیمنٹ اپنی بے حرمتی پہ نالہ خواں! اور نازل ہوا بھی تو پانامہ کا ڈرون اور جیسے بلکتی قوم کو کرپشن سے نجات کی راہ مل گئی کہ بس لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی اور وارے نیارے ہو جائیں گے۔ لیکن کرپشن کا پہاڑ کھودنے پہ نکلا بھی تو کیا ایک خالی اکاؤنٹ کا سفری اقامہ۔ آخر بے ایمانی تو بے ایمانی ہی ہوتی ہے، بھلے آپ گھر بیٹھے کہلوا دیں کہ گھر میں موجود نہیں۔ اس سنہری اُصول کو لاگو کیا جائے تو کوئی ہے جو بچے گا، خواہ منصف ہو یا محافظ، موکل ہو یا وکیل، حکمران ہوں یا رعایا۔ بہرکیف، کٹہرے میں منتخب وزیراعظم کو کھڑا کرنے میں ہی قانون کی حکمرانی کی شان ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ قانون کے کٹہرے میں صرف منتخب نمائندے ہی کھڑے کئے جاتے رہے ہیں اور اس کٹہرے کو کسی آئین شکن، ملک شکن اور قوم شکن کو دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ بھئی ’’گو نواز گو‘‘ تو ہو چکا اور عدالتِ عظمی کے احکامات کی تعمیل میں نئے وزیراعظم اور اُن کی کابینہ نے سابق وزیراعظم کی جگہ بھی لے لی اور نااہل کئے گئے وزیراعظم احتساب کی عدالت میں حاضر ہیں تو کیا اب توپ کے گولے کے سامنے کھڑا کرنے کا ارادہ ہے؟
پچھلے دنوں ملک کو دیوالیہ قرار دیئے جانے کی بھی ایک خوفناک دوڑ لگی اور وہ بھی حب الوطنی کے انتہائی پاکیزہ فریضے کے نام پر۔ کسی نے کہا کہ بیرونی ادائیگیاں 31 ارب اور کسی نے 40 ارب ڈالرز تک پہنچا دیں۔ بات تھمی تو تب جب ورلڈ بنک ہی نے یہ تردید کر دی کہ 13 ارب ڈالرز کی تو کاروباری (Portfolio) سرمایہ کاری ہے جبکہ بیرونی ادائیگیاں 17 ارب ڈالرز ہیں۔ میدان میں اُترے بھی تو نیب زدہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور مجموعی قومی پیداوار کی دس برس میں اعلیٰ ترین شرحِ نمو 5.3 فیصد کے ساتھ اور اس مژدہ کے ساتھ کہ گزشتہ چھ ماہ میں برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور ذرائع مبادلہ اتنے ہیں کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس جانے کی (ابھی) ضرورت نہیں۔ اب غیرضروری اور پُرتعیش اشیاء کی درآمد پر بھاری ڈیوٹیاں بھی لگا دی گئی ہیں کہ تجارتی خسارہ کم ہو۔ کسی نے یہ نہ دیکھا کہ CPEC کے تحت اور مشینری کی درآمد کے باعث درآمدات بڑھیں اور یوں تجارتی خسارہ کافی بڑھ گیا۔ اب برآمدی اجتہاؤں کے پیکج کے باوجود برآمدات نہ بڑھیں تو قصوروار برآمدی سیکٹر کے نحیف ڈھانچے کا ہے اور یا پھر ان برآمد کنندگان کا جو مراعات تو لیتے ہیں، لیکن مقابلے میں مصلحتاً پیچھے ہیں۔ توازنِ ادائیگی کے بحران کے غبارے سے ہوا اگر نکالی بھی تو پاکستان کے جید ماہرِ معیشت ڈاکٹر پرویز طاہر نے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بیرونی قرضے سے ادائیگیاں مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا 2011ء میں 31 فیصد تھیں اور 2015ء میں کم ہو کر 24 فیصد رہ گئیں۔ 2016ء میں یہ پھر بڑھ کر 26 فیصد ہو گئیں اور اس وقت 27 فیصد سے کچھ زیادہ ہیں۔ یہ یاد رہے کہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے قرض اور ادائیگیوں کے بوجھ کی حد کمزور کارکردگی والے ممالک کے لئے جی ڈی پی کی 30 فیصد ہے۔ یوں ہم ابھی خطرے کے نشان سے نیچے ہیں۔ جبکہ ہمارے 65 فیصد قرضے اندرونی ہیں۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر اس رولے گولے کا کیا مطلب تھا؟ کیا وزیرِ خزانہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا تھا یا کچھ اور مقاصد تھے جن کا ذکر ڈان اخبار میں خرم حسین کے مضمون میں کیا گیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اصل تناؤ یہ ہے کہ محدود ذرائع کتنے ترقی پہ خرچ ہوں اور کتنے سلامتی پر۔
ٍ مجھے اسحاق ڈار کے نیولبرل آزاد منڈی کے شگاگو ماڈل یا واشنگٹن اتفاقِ رائے سے قطعاً اتفاق نہیں۔ نہ ہی مجھے ترقی کے اُس ماڈل سے اتفاق ہے جس کا مظاہرہ کرنے کو جناب شہباز شریف ہر روز بیتاب نظر آتے ہیں۔ ہم ایک دست نگر سرمایہ دارانہ معیشت کی حامل سائل (Client) قومی سلامتی کی ریاست ہیں جس کے پاس کوئی بڑے ذرائع آمدن ہیں نہ فعال، تعلیم یافتہ اور ہنرمند انسانی ذرائع۔ کم بڑھتی ہوئی آمدن اور تیزی سے بڑھتے ہوئے ریاستی و سلامتی کے تقاضے اور بڑھتے ہوئے خرچے، جاگیرداروں، تاجروں اور افسروں کی ظاہر آمدنیوں کے مقابلے میں ہوش رُبا دولت کے مظاہر اور ٹیکس نادہندگی، صوبوں اور مرکز میں محاصل کی تقسیم کی جنگ اور استحصالی طبقوں کی چھینا جھپٹی اور اوپر سے ریاست کے سول اور ملٹری بازوؤں میں محاصل کے حصول کی کھینچاتانی جب کوئی بھی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے کو تیار نہ ہو تو ذرائع کی تقسیم کی جنگ تو ہونی ہے۔ ابھی تو عوام کی کوئی سننے والا نہیں۔ جنہیں دو وقت کی روٹی، روزگار، تعلیم و صحت کی کوئی قابلِ ذکر سہولت میسر نہیں۔ ترقی و تنزل ہو رہا ہے۔ امرا اور حکمرانوں کی ترقی دیکھیں اور اُن کے چمکتے دمکتے رہائشی علاقے اور باقی مفلوک الحال پاکستان کے کروڑوں عوام کی حالتِ زار تو معلوم ہو جائے گا کہ تنزلی کتنی وسیع و عریض ہے اور ترقی کتنی محدود۔ ایسے میں یہ بحث تو ہونی ہے کہ روٹی دیں یا بندوق لیں، تعلیم و صحت دیں یا جنگلہ بسیں بنانے کا مقابلہ کریں۔ انسانی ذرائع کو ترقی دیں یا عالیشان شاہراؤں پہ تیز رفتار گاڑیاں دوڑایا کریں، انسانی سلامتی ہو یا فقط فوجی سلامتی۔
ذرائع پیدا ہو تو کہاں سے، ٹیکس لگے تو کس پر، خرچ ہو تو کس پر۔ ملٹری سلامتی میں تو عظیم الشان سوویت یونین بھی نہ بچ پایا، ہم کہاں تک یہ بوجھ اُٹھائے چلے جاتے رہیں گے، آخر اس کا تناسب کہیں تو طے ہو اور کہیں تو لوگوں کو بھی کچھ سکھ نصیب ہو، اور امن کی راہ لے کہ عوام کو بھی امن و ترقی کے پھل نصیب ہوں۔
ایسے میں ایک مقدمہ زدہ وزیرِ خزانہ کس کس کے تقاضے پورے کرے۔ پارٹی نے الیکشن میں جانا ہے۔ کامیاب کارکردگی بھی دکھانی ہے اور چمکتی دوڑتی میٹرو ٹرین بھی۔ صوبوں نے بھی الیکشن میں جانا ہے اور ایم این اور ایم پی اے حضرات نے بھی سڑکیں، اسکول بنانے ہیں۔ اوپر سے تگڑے ادارے ہیں اور اُن کا اصرار اور مالی و مالیاتی خسارے کا ڈر۔ گنجی دھوئے گی کیا، نچوڑے گی کیا۔ چھری پھرے بھی اور چیخ بھی نہ نکلے، ایسے بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟!
(تصحیح: کمپوزنگ کی غلطیوں کے باعث میرے گزشتہ اتوار کے کالم میں کچھ اعداد و شمار غلط چھپ گئے۔ درست یہ ہیں: کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 16 ارب ڈالرز ہونے کا اندازہ ہے جبکہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے اسے 4 سے 5 فیصد کے درمیان قرار دیا ہے۔ ورلڈ بنک نے اسے اب 17 ارب ڈالرز کے قریب بیان کیا ہے۔ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالرز ہونے کا تخمینہ ہے۔ حالیہ درآمدی ڈیوٹیز کے اطلاق کے بعد اور برآمدات میں اضافے کے امکانات کے پیشِ نظر یہ مزید کم ہو سکتا ہے۔)

تازہ ترین