• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کا نہ صرف قبل از وقت انعقاد ناممکن ہے بلکہ ان کا بروقت انعقاد بھی انتہائی مشکل ہے ۔ اس کے اسباب ملک کے سیاسی حالات نہیں ہیں ۔ پہلی مرتبہ انتظامی معاملات کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہے ۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نئی انتخابی حلقہ بندیاں کرنے میں بہت تاخیر ہو گئی ہے ۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے اگلے روز ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر نئی حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں تو ان پر اعتراض ہو گا ۔ لیکن میرے خیال میں نئی حلقہ بندیاں صرف ایک مسئلہ نہیںہیں ۔ دیگر کئی مسائل ہیں ، جو انتخابات کے بروقت انعقاد کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ یہ بات کسی بھی جمہوری ملک کے لئے تشویش ناک ہے کہ وہاں انتخابات کا انعقاد انتظامی ، آئینی اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے مشکل ہو جائے ۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی عام انتخابات کے لئے ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ سے زیادہ ہو گی ۔ اس حوالے سے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جو مسائل درپیش ہیں ، وہ پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئے ۔ آئندہ عام انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیوں کا نہ ہونا یقینََا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ یہ حلقہ بندیاں اگر آج بھی شروع کی جائیں تو شاید یہ آئندہ عام انتخابات سے قبل مکمل ہو جائیں ۔ شیڈول کے مطابق آئندہ عام انتخابات اگست 2018 میں یا اس سے پہلے ہونا چاہئیں بشرطیکہ کوئی دوسری صورت حال پیدا نہ ہو لیکن یہ نئی حلقہ بندیوں کا کام فوری طور پر شروع نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کام مردم شماری کے مکمل نتائج ملنے کے بعد شروع ہو گا ۔ مردم شماری کے مکمل نتائج اپریل 2018 سے قبل مرتب نہیں ہوں گے ۔ مکمل نتائج آنے کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے لئے 6 ماہ کا وقت درکار ہو گا ۔ یعنی اگر انتخابات نئی حلقہ بندیوں پر ہوں تو اکتوبر 2018 یا اس کے بعد ہوں گے ۔ اگر نئی حلقہ بندیوں پر انتخابات نہ ہوئے تو آئینی ضرورت پوری نہیں ہو گی اور ان انتخابات پر آئینی اور قانونی اعتراضات ہوں گے ۔
10 کروڑ سے زائد ووٹرز کے لئے پورے ملک میں 95 ہزار سے زیادہ پولنگ اسٹیشنز قائم ہوں گے ، جن کے لئے 65 ہزار سے زائد عمارتیں درکار ہوں گی ۔ چاروں صوبوں اور قبائلی علاقہ جات سے دستیاب عمارتوں کی جو فہرستیں مہیا کی گئی ہیں ، ان کی تعداد مطلوبہ تعداد سے کم ہے ۔ ان عمارتوں میں درکار سہولتوں کا فقدان ہے ۔ کہیں بجلی نہیں ہے اور کہیں پانی نہیں ہے ۔ کہیں عمارتیں مخدوش ہیں ۔ اگر الیکٹرونک یا بائیو میٹرک ووٹنگ مشینیں استعمال کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو یہ عمارتیں قطعی طور پر ضرورت پوری نہیں کریں گی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ساڑھے سات لاکھ انتخابی عملہ درکار ہو گا ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس حوالے سے جو فہرستیں الیکشن کمیشن کو ارسال کی ہیں ، ان کے مطابق انتخابی عملہ بھی ابھی تک پورا نہیں ہو رہا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ابھی تک عملے کی تربیت کا کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیا گیا ہے ۔ درکار عملے کی تربیت کے لئے بھی کم از کم 6 ماہ کا عرصہ درکار ہو گا ۔ سیکورٹی کے لئے فوج ، پیرا ملٹری فورسز اور پولیس کی مطلوبہ نفری کو پورا کرنے کے لئے بھی ابھی تک کوئی واضح پروگرام وفاقی یا صوبائی حکومتوں کو نہیں دیا گیا ہے ۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے لئے کم از کم 20 کروڑ بیلٹ پیپرز شائع ہوں گے ۔ پاکستان میں سیکورٹی فیچرز والے صرف تین پرنٹنگ پریس ہیں ۔ ان میں پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان ، سیکورٹی پرنٹنگ پریس اور پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن کے پرنٹنگ پریس شامل ہیں ۔ یہ تینوں پرنٹنگ پریس مقررہ مدت میں مطلوبہ بیلٹ پیپرز شائع نہیں کر سکتے ۔ مزید پرنٹنگ پریس لگانے کی ضرورت ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے نئی انتخابی فہرستیں مرتب کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن نئی مردم شماری کی وجہ سے سینسس ( Censos ) بلاکس اور کوڈز تبدیل ہو گئے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کو وفاقی ادارہ شماریات نے ابھی تک نئے سینسس بلاکس اور کوڈز فراہم نہیں کیے ہیں ۔ اس طرح نئی انتخابی فہرستوں پر بھی کام شروع نہیں ہو سکا ہے ۔ اگر یہ کام ابھی سے شروع ہو جائے تو اس کی تکمیل میں کم از کم 6 ماہ درکار ہوں گے ۔
الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات سے قبل تمام پولنگ اسٹیشنز کو گوگل میپنگ ( Google maping) سے منسلک کرنا ہے ۔ یہ کام بھی تاخیر کا شکار ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کو ابھی تک پولنگ اسٹیشنز کی حتمی فہرستیں نہیں ملی ہیں ۔ انتخابی فہرستوں میں اندراج ، ترمیم اور تنسیخ کے لئے نادرا کی مدد سے کمپیوٹرائزڈ الیکٹورل رولز سسٹم ( CERS ) بھی ابھی تک کئی اضلاع میں نصب نہیں ہو سکا ہے ۔ نئے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 ء کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کو انتظامی اور تکنیکی اقدامات کرنا ہیں ، جن کے لئے وقت درکار ہو گا ۔ ان کے علاوہ بھی دیگر کئی عوامل ہیں ، جو انتخابات کے بروقت انعقاد میں رکاوٹ پیدا کر سکتے ہیں ۔
دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں ، جہاں جنگوں اور داخلی بحرانوں کے باوجود بھی عام انتخابات اس وقت ہو جاتے ہیں ، جب ضرورت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں آمریت کی وجہ سے انتخابی عمل رک جاتا ہے لیکن اس مرتبہ انتخابات میں اگر تاخیر ہوتو اس کی وجہ کوئی اور ہو گی ۔ اس صورت حال کا ذمہ دار الیکشن کمیشن آف پاکستان نہیں ہے ۔ مردم شماری اور انتخابی اصلاحات بروقت نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر ہوئی اور اس کی وجہ سے یہ سارے مسائل پیدا ہوئے ۔ بروقت انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیوں اور نئی انتخابی فہرستوں سمیت کئی معاملات پر کمپرومائز کرنا ہو گا ، جس سے آئینی مسائل پیدا ہوں گے ۔

تازہ ترین