• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو سپورٹ کرنے والے کئی بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے آئندہ کے لئے کسی بھی نئے قرضہ کی فراہمی کے لئے امریکی اشارے پر اپنے دانت تیز کرنے شروع کر دیئے ہیں تاکہ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں اگر پاکستان کو ایک بار پھر IMFکے پاس کسی نئے قرضہ ( جس کی مالیت 5ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے ) کے لئے جانا پڑے تو وہ اپنی پرانی مگر کچھ سختی کے ساتھ نئی شرائط منوانے پر زور دے سکتا ہے ۔اس وقت پاکستان میں جیسے سیاسی ایشوز پر سیاسی قائدین اور جماعتیں آپس میں تقسیم ہیں اور ہر جماعت اپنی اپنی بولی بول رہی ہے کسی کو جمہوریت سے پیار ہے اور کوئی الیکشن جلد کرانے کی جدوجہد میں ہے یہی صورتحال احتساب کے عمل کی ہے اس پر بھی ہر کوئی جماعت اپنی ہی پالیسی کا اظہار کر رہی ہے عین اس طرح ہمارے اقتصادی ماہرین کی اکثریت بھی IMFسے کسی نئے قرضہ کے حق اور مخالفت میں رائے دے رہے ہیں، یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ہمارا ملک قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو اپنی موجودہ اقتصادی صورتحال کے پس منظر میں ختم نہیں کر سکتا بلکہ بعض ماہرین تو اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اگر ملکی و غیر ملکی قرضوں کا بوجھ جو اب تک 75ارب ڈالر بتایا جا رہا ہے خدانخواستہ 80ارب یا 90ارب ڈالر کی حد کراس کر گیا تو پھر پاکستان کی خودمختاری، سلامتی اور ہمارے قومی اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر کئی نئے مسائل کو جنم دے سکتا ہے ، اللہ نہ کرے ایسے حالات پیدا ہوں لیکن اگر ملک میں زراعت اور صنعت کا شعبہ حکمرانوں اور ممبران پارلیمنٹ کے ریڈار پر نہیں آئے گا اور FBRاپنے ٹیکسوں کے نظام کو وسیع کرنے کے لئے جامع اصلاحات کرکے ٹیکس نیٹ کو ممبران پارلیمنٹ سے لیکر جاگیرداروں، وڈیروں اور بڑے بڑے کاروباری اداروں اور شخصیات سے ان کی پوری آمدنی پر پورا ٹیکس وصول نہیں کرے گا اس وقت تک بجلی چوری کی طرح ٹیکس چوری بھی بڑھتی رہے گی اور دونوں طرف صنعت و زراعت پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہماری برآمدات میں اضافےکی کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکے گی ۔اس وقت صرف پاور سیکٹر میں اصلاحات کے بڑے حکومتی دعوے سامنے آ رہے ہیں مگر بجلی کی قیمت سے جو صنعتی و تجارتی شعبہ کی لاگت بڑھتی جا رہی ہے اس پر حکمرانوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اس سلسلہ میں بہتر یہ ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی فوری طور پر صنعت ، تجارت، ٹیکسیشن اور دیگر ماہرین کی ایک خودمختار ٹاسک فورس بنائیں جو ہر ماہ میں کم از کم ایک بار پاکستان کے حقیقی اقتصادی مسائل سے آگاہ کرے اور اس کی روشنی میں وزیراعظم ہر سہ ماہی میں مالی سال کے بجٹ کو ریویو کریں اس سلسلہ میں فیڈریشن کے نمائندوں کی مشاورت سے بڑی اچھی ٹاسک فورس بن سکتی ہے جس کے لئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز کے کرتا دھرتا افتخار علی ملک اور موجودہ صدر زبیر طفیل سمیت مختلف شخصیات سے مشاورت کرکے پاکستان کو بڑھتے ہوئے اقتصادی بحران سے نکالنے کا کام شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ پاکستان میں روایتی اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے ایڈہاک ازم کے ذریعے سیاسی نعرے لگائے جاتے رہیں گے ۔ابھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ نعرے لگا رہی ہے کل اور پارٹی و بنی گالہ یا بلاول ہائوس والے یہی کام کرسکتے ہیں اب تو کچھ اشارے ایسے بھی ملنے شروع ہو گئے ہیں کہ کسی ایک حد پر خاص جگہ پر پیپلز پارٹی کے لئے بھی ’’سافٹ کارنر‘‘ بنایا جارہا ہے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو بے چارے عمران خان کی پارٹی کا کیا بنے گا جس کے پاس سوشل میڈیا کی وجہ سے سپورٹرز بہرحال سب سے زیادہ ہیں مگر ووٹرز بنانے میں اسے وہ مہارت حاصل نہیں ہے جو مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کو ہے بہرحال اس وقت حالات کا تقاضا ہے کہ سیاست سے ہٹ کر معیشت پر فوکس بڑھایا جائے۔ معیشت اگر ٹھیک ہو گی تو سیاست اور سیاسی کاروبار سب کچھ چلے گا اس سلسلہ میں وزیراعظم عباسی اگر چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ کارپوریٹ سیکٹر میں ایک کامیاب بزنس مین بھی ہیں انہیں معاشی فرنٹ پر قومی مقاصد کی زیادہ سمجھ بوجھ ہے لیکن اگر وہ کسی سے ''HONEST''ایڈوائس لیں گے تو پھر ہی بات بن سکتی ہے ورنہ خطرات اور خدشات کا سلسلہ بڑھتا رہے گاپھر اقتدار بچانے سے زیادہ ملک بچانے کی فکر لاحق ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین