• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 رائیونڈ اسپتال میں حاملہ خاتون کو داخل نہ کرنے اور سڑک پر ہی بچے کو جنم دینے پر ہمیشہ کی طرح خادم اعلیٰ پنجاب نے سخت نوٹس لیا اور حکم جاری کیا کہ ذمہ داروں کو سزا ملے گی۔ اخبارات نے بھی ان کے اس نوٹس کو بڑی نمایاں جگہ دی ۔چونکہ یہ حکومت پنجاب کی ’’گڈ گورننس ‘‘کی بات ہے اور انکی گڈ گورننس کا فارمولا یہ ہے کہ پہلے کوئی مسئلہ پیدا کیا جائے اور جب پوری قوم اس جانب متوجہ ہو جائے تو پھر بڑے زور شور سے نوٹس لے لیا جائے۔ اس سے نہ صرف عوام مطمئن ہونگے بلکہ میڈیا بھی اسکو نمایاں کوریج دیگا، آخر کا ر’’گڈ گورننس ‘‘کی بھی تو مشہوری ہونی چاہئے ۔ جیسے گزشتہ دنوں میڈیکل انٹری ٹیسٹ کے حوالے سے ’’گڈ گورننس‘‘ کے کئی پرت کھلے ہیں۔ چونکہ بوٹی مافیا کا قلع قمع کرنے کیلئے موجودہ خادم اعلیٰ جب وہ صرف وزیراعلیٰ ہوا کرتے تھے انہوںنے میڈیکل کالجوں میں داخلے کیلئے انٹری ٹیسٹ متعارف کرایا ۔ انٹری ٹیسٹ کا یہ امتحان 2008 سے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام منعقد ہورہا ہے جوپہلے دن سے سوالیہ نشان ہے کہ بوٹی مافیا کو ختم کرنے کی تگ ودو میں بہت بڑے اکیڈمی مافیا کا جّن کھڑا کر دیا گیا۔ جس پر انہیں سطور میں 28اگست 2017ء کو بڑا تفصیلاً لکھا گیا ہے۔ چونکہ اس سال 20اگست کو پنجاب بھر کے 13بڑے شہروں کے 28 مراکز پر ہونیوالے میڈیکل کے اس انٹری ٹیسٹ کی اصلیت کا پول اُسی روز کھل گیا تھا اور بعض ذہین طلبہ نے اسکے نتائج رد کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیااور ہائیکورٹ نے اسکے نتائج کو فوری روک دیا جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ’’گڈ گورننس ‘‘ کے چرچوں کیلئے فوری طور پر چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ایک مشترکہ اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔ جس نے سب اچھا کی رپورٹ دی کہ انٹری ٹیسٹ کا پیپر لیک نہیں ہوا۔ مگر ایسے ٹھوس شواہد سوشل میڈیا پر گردش کر رہے تھے کہ انکو ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس حسین اصغر کی سربراہی میں مجبوراً ایک اور کمیٹی بنانا پڑی ۔ اس کمیٹی کی رپوٹ کے مطابق پیپر لیک ہوا جس میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ، ڈپٹی کنٹرولر صائمہ سمیت امتحانی عملے کے کئی افراد ملوث ہیں۔ رپورٹ کی روشنی میں لاہورہائیکورٹ نے بھی اس انٹری ٹیسٹ کو منسوخ کر کے نیا انٹری ٹیسٹ لینے کا حکم دیا جبکہ یونیورسٹی نے 29 اکتوبر کو دوبارہ انٹری ٹیسٹ لینے کا اعلان کیا ہے ۔
حکومت پنجاب اور محکمہ ا سپیشل ہیلتھ کیئر نے پیپر آئوٹ ہونیکا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ اسوقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر جنید کی جگہ پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کر دیا ہے اور نئے وائس چانسلر نے فوری طور پر ہیلتھ یونیورسٹی میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے سیکورٹی ایڈوائزری کمیٹی کااجلاس بلا کر یہ فیصلہ کیا کہ انٹری ٹیسٹ کے سوالیہ پرچے کی تیاری کیلئے مخصوص قسم کا کمپیوٹر استعمال ہوگا جس سے کسی قسم کا ڈیٹا بھیجا یا وصول نہیں کیا جا سکے گا ۔ متعلقہ تمام کام سی سی ٹی وی کیمروں کی نگرانی میں ہوگا۔ جس کو وائس چانسلر خود مانیٹر کرینگے۔ انٹری ٹیسٹ کے انعقاد تک پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے نمائندے یونیورسٹی آف ہیلتھ میں موجود رہیں گے تاکہ ڈیٹا سیکورٹی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ انٹری ٹیسٹ سیل میں کاقم کرنیوالے تمام ا سٹاف کی سیکورٹی کلیرنس لی جائیگی، ان کے اثاثہ جات کی پڑتال کی جائیگی۔ مشکوک افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے آئی بی سے مدد لی جائیگی ۔ یونیورسٹی کی حدود میں موبائل جیمر نصب کئے جائیں گے،وائی فائی نیٹ ورک بند کر دیا گیا ہے اور تمام ملازمین کو بغیر جیب یونیفارم پہننے کا پابند کیا جارہا ہے پھر مخصوص اور جدید طرز کی عمارت تعمیر کی جائیگی جہاں سخت ترین حفاظتی انتظامات میں امتحانی پرچوں کی تیاری ہوگی ، اب جو کوئی بھی شخص ایسے لمبے چوڑے اقدامات کے حوالے سے پڑھے گا وہ وقتی طور پر مطمئن تو ہوگا کہ شاید کسی حقدار کو اسکا حق مل سکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک ڈھونگ ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہوکہ جب انٹری ٹیسٹ کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا تب ایسے اقدامات کے حوالے سے کیوں نہ سوچا گیا کیونکہ اسکے آغاز سے ہی لوگوں نے بداعتمادی کا اظہار کیا پھر اسکو ترک کرنیکی تجویز بھی وزیراعلیٰ نے منظورکی اور اسکو ختم کرنے کیلئے سمری تیار ہوئی مگر اکیڈمی مافیا (جسمیں بعض اعلیٰ سرکاری عہدیدار بھی ملوث ہیں )کے سامنے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اخبارات میں تحقیقات کے حوالے سے جو رپورٹس شائع ہوئی ہیں یا ذرائع سے جو معلومات مل رہی ہیں اُنکے مطابق تو یہ دھندہ گذشتہ آٹھ برس سے جاری ہے ، اس مرتبہ طریقہ واردات کا انکشاف ہوا کہ ایک گروہ جس میں یونیورسٹی کا عملہ ، ایک دو اکیڈمیوں کے مالکان اور یونیورسٹی سے باہر گروہ مختلف اضلاع میں مالی طور پر مستحکم لوگ تلاش کرتے ہیںپھر ان سے فی کس 20لاکھ روپے لیکر امتحان سے ایک روز پہلے خصوصی طور پر تیاری کروائی جاتی ہے اور ٹیسٹ کے روز خصوصی نگرانی میں پرچے حل کروائے جاتے ہیں۔ اس کیلئے 200 طالبعلموں کاانتخاب کیا جاتا ہے ۔ انکوائری کے بعد جن لوگوں کیخلاف مقدمات درج کئے گئے۔ لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ان کیخلاف گھروں میں داخل ہو کر چوری کا کمزور مقدمہ درج کیا گیا ہے، حالانکہ فیس بک کے ذریعے پیپر کا آئوٹ ہونا سائبر کرائم اور پریوینٹیشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ پھر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ڈپٹی کنٹرولر امتحانات و سیکریسی نے وعدہ معاف گواہ بننے پر مافیا کو بے نقاب کرنیکا وعدہ کیا ہے بات صرف اس مرتبہ کے انٹری ٹیسٹ کا پرچہ آئوٹ ہونیکی نہیں بلکہ ایک یہ کام تو گزشتہ آٹھ ، دس برس سے جاری ہے ۔ چند سال پہلے ایم بی بی ایس کا ایک پرچہ آئوٹ ہونیکا ا سکینڈل سامنے آیا تھا ، اُسمیں ملوث کرداروں نے موجودہ اسکینڈل کو بے نقاب کیا ہے۔
اب یونیورسٹی کی کریڈبیلٹی پر ایک فیصد بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایک سال میں مختلف شعبوں میں 147سالانہ 190سپلیمنٹری اور دیگر نوعیت کے 11ٹیسٹ لیتی ہے ۔ جن میں میڈیکل ، پی ایم اینڈ ڈی سی ، بی ایس نرسنگ ، پوسٹ گریجویٹ ، پی ایچ ڈی ، ایم فل ، ایم ایس سی ،ایم ڈی پی جی ڈپلومہ ، ایم بی بی ایس ، بی ڈی ایس وغیرہ کے امتحانات شامل ہیں اور خفیہ اطلاعات یہ ہیں کہ مبینہ طور پر ڈاکٹروں کا ایک بڑا مافیا ملوث ہے اور بھاری رقم لیکر پیپر آئوٹ کرواتا اور نمبر لگواتاہے جو اب تک اربوں روپے کی کرپشن کر کے ملک اور قوم کے وقار کو دائو پر لگا چکا ہے ۔گزشتہ تین برسوں میں ایم بی بی ایس کے 14پرچے آئوٹ کئے گئے۔ اگر کسی غیر ملکی ، غیر جانبدارتھرڈ پارٹی سے گزشتہ دس برسوں کا آڈٹ کروایا جائے توبہت بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آئینگے اور یہ وجہ بھی معلوم ہوجائیگی کہ ڈاکٹر اتنے زیادہ متشدد کیوں ہوگئے ہیں۔اب آپ اگر یہ کہیں کہ تمام اکیڈمی مافیا اور کرپٹ مافیا کے ہوتے ہوئے 29اکتوبر کو بالکل فیئر انٹری ٹیسٹ ہو جائینگے تو یہ کسی دیوانے کا خواب تو ہے ، حقیقت میں یہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جب تک گزشتہ دس برسوں میں ہونیوالے ایسے جعلی داخلوں کو کینسل نہیں کیا جاتا اور مجرموں کو سر عام سزا نہیں دی جاتی ،اگر تو یہ خوش فہمی ہے کہ نئے انٹری ٹیسٹ کے انعقاد سے معاملہ ختم ہو گیا اور ذمہ داروں کو سزا بھی نہیں ہوگی تو یہ ممکن نہیں کیونکہ حکمرانوں کو اس نظام میں ٹرانسپرنسی لانے کیلئے مجرموں کو سزائیں دینا ہونگیں اور عوام کے اس سوال کا پہلے جواب دینا ہوگا!

تازہ ترین