• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف، شہباز شریف کو قائد اعظم کی سیاست کا وارث امین بننا ہے تو نظریاتی قبلہ ہر صورت درست کرنا ہو گا۔ہمہ وقت متحرک شہباز شریف،وطنی وزراء اعلیٰ کی70سالہ تاریخ میں ، تعمیر و ترقی ،انتظام و انصرام، نظم و نسق میں اپنی غیر معمولی دھاک منوا چکے ہیں۔ اسلوب سیاست ،طرز حکمرانی پر سوالات و تحفظات موجود ، کئی خامیاں نمایاں، سکہ منوانے میں کہیں مانع نہیں۔ شاید یہی وجہ کہ حریف اول پرویز خٹک نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنا معیار شہباز شریف بتایا۔
پاکستانی سیاست جنگ کا میدان، تمام سیاسی جماعتیں، اہم ادارے شریک، جنگجویانہ یکجائی اور مربوطی کی سرپٹ دوڑ، وطن عزیزبحران کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ایسے حالات میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان قدم رنجہ فرما تے ہیں ، پاکستان کو ’’پاکستانی کرنے کے کام‘‘ کی طویل فہرست اور سانس لینے کی امریکی شرائط تھما تے ہیں۔ اگلا اور اصلی پڑائو بھارت ہے،تین روزہ قیام میں افغان صدر اشرف غنی حاضر،‘‘خطے میں بھارت کو مضبوط، مربوط اور موثر مقام دینے کے لئے امریکہ نے بھارت کے لیے کیاکرنا ہے۔چنانچہ ٹلرسن نے بھارت سے’’امریکی کرنے کے کام‘‘معلوم کرنے ہیں۔
حوصلہ افزائی اتنی کہ عسکری قیادت جانتی ہے بلوچستان ، کراچی ، قبائلی یا دیگر علاقہ جات میں جو کچھ ہو رہا ہے امریکی اور بھارتی اشیر باد ہی سے ہے ۔ افغانستان کمین گاہ ،جبکہ شکار اور نشانہ پاکستان۔سالوں سے لکھ رہا ہوں کہ "امریکہ اقتصادی راہداری بننے نہیں دے گا ،جبکہ چین ہر صورت بنا کر چھوڑے گا"۔ چین کی ناکہ بندی ، پاکستان کو بے چین رکھ کر ہی ایسا ممکن رہے گا۔ گوپاکستان کی عسکری قیادت، تمام بڑی سیاسی جماعتیں، جماعت اسلامی بمع 22کروڑ عوام اس معاملے پر چین کے ساتھ جڑے ہیں۔ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے سب از حد خواہش مند،مگر ایسی خواہش بے سودجب سب دوسرے کا دم نکالنے کے درپے ہوں۔ پچھلے چند سالوں سے جاری سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ، دنگل، اندرونی جنگ و جدل نے دم نکال کرہی تو دم لینا ہے۔ واپسی کے راستے مسدود ہو چکے ہیں۔شریف خاندان فارغ، پیپلز پارٹی نرغے میں، عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی بھی اسی جنگ و جدل کا منطقی تسلسل ہو گا۔ الیکشن کمیشن کا گلالئی بارے فیصلہ کچھ نہ کچھ آسودگی دے چکا ہو گا۔سپریم کورٹ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں فکرمند ہے۔ آئے دن کنفیوژن بڑھ رہی ہے۔ جہانگیر ترین کے مال و اسباب کے بارے میں کبھی اطمینان نہیں رہا اورسپریم کورٹ میں جو کارروائی چل رہی ہے اس سے میرا یقین پختہ ہورہا ہے ۔ موصوف آج مال ودولت کا قطب مینار بناچکے ہیں۔ عمران خان بارے رائے حتمی،ہمیشہ جائز کمائی (جوئے کو چھوڑ کران کے اپنے اعتراف کے مطابق) ذریعہ معاش رہی۔مگر یہاں معاملہ، حلال حرام سے زیادہ منی ٹریل اور اثاثوں کو ڈکلیئر و قانونی رکھنے کا ہے۔ منی ٹریل نہ دے سکنے پر ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پیسہ حرام کا ہے۔ ایک زمانہ تھا، منی ٹریل رکھنے کا رواج تھا نہ ایسی باز پرس وہم و گمان میں تھی۔ شومئی قسمت جس ہتھیار کے بل بوتے زندگی استوار کرنے کی تیاریاں تھیں، آج اسی ہتھیار آگے عمران خان دم توڑتے نظر آتے ہیں۔ قانون کا مسلمہ بین الاقوامی اصول، قرآنی احکامات کے عین مطابق بھی، بار ثبوت دعوے دار پر رہنا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ ذمہ داری دعوے دار سے لے کر ملزم کے ناتواں کندھوں پر ڈال دی۔نیب کے قوانین کی ساخت پہلے ہی سے تندوتیز، قرآنی احکامات کے یکسر منافی ہے۔ نظریاتی کونسل اور شرعی عدالت کو ایسا قانون جہاں بار ثبوت ملزم پر لاگو ،ہر حال میں کسی نہ کسی موقع پر ختم کرنا ہو گا۔ نعوذ باللہ کیا قرآن کو پتہ نہ تھا کہ اکثر ملزم ثبوت نہیں چھوڑیں گے؟ وطن عزیز باوجودکہ وطنی سیکورٹی، اقتصادی بحالی اور تعمیر و ترقی بارے پُر امیداورگامزن، دھڑام سے نیچے کیوں گرگیا؟ذمہ دار کون ہے؟ نادیدہ قوتوں کا تسلسل سے خواہ سپریم کورٹ کارروائی، ججز کے ناقابل فہم ریمارکس،واٹس ایپ کال پر تشکیل کردہ JIT اورا سکے اجزائے ترکیبی اور ہیئت و ترتیب بمع مشکوک طرز عمل و اسلوب اور انتظام و انصرام، ممبران کے مشکوک ذاتی معاملات، ایک موقع پر احتساب عدالت کا اغوا، احتساب عدالت کے اندر باہرحساس اداروں کے مشکوک افراد کا رنگے ہاتھوںپکڑے جانا ، NA-120 کا الیکشن، سوشل میڈیا پرنظام کو آڑے ہاتھوں لینے کا جناتی فلسفہ اور نظام کو تتربتر رکھنے کامنظم کاروبار، غرضیکہ معاملہ کوئی بھی رہا ہوہر جگہ ہر مقام پر نادیدہ قوتیں روبہ عمل نظر آئیں۔ چند دن پہلے ایک ڈنر پر تحریک انصاف کے رہنمائوں کی ایسی خواہش بھی سننے کوملی کہ ’’نادیدہ قوتوں نے اگر ن لیگ کو نہ توڑا تو ن لیگ 2018کا الیکشن بآسانی جیت جائے گی‘‘۔پچھلے تین دنوں سے میڈیا پراداروں کے خود ساختہ ترجمان اور اداراتی مہروں کا نیا شور و غوغا، شور شرابہ سامنے ’’نئےNROکی آمد آمد ہے‘‘۔ کل بروز سوموارسہون، عمران خان نے صبح سویرے 10 بجے حالت خوابیدگی میں پریس کانفرنس فرما دی۔ حسب معمول منافقت و مبالغہ نے علم البیان کو بلندیوں کی سیر کرائی۔ خان صاحب کا مدعا مختصر،’’ہم نیاNRO قبول نہیں کریں گے، رکاوٹ بنیں گے،سٹرکوں پر آئیں گے،حدیبیہ پیپرز مل کیس میں 300ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوئی ہے وغیرہ ، وغیرہ۔‘‘ حسب معمول ساری تقریر غصہ، انتقام اور جھنجھلاہٹ سے پر تکلف آراستہ پیراستہ تھی۔ خانصاحب کیا کریں گے، غرض نہیں۔ غرض دو پہلوئوں سے ہے۔ایک، عمران خان کے بیانیہ کے تناظر میںکہ مک مکا بہرحال دو فریقین کے درمیان ہی ممکن ہے۔ایک فریق تو معلوم کہ حدیبیہ پیپر ملزجہاں ملزمان میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شامل ہیں۔سوال اتنا کہ ’’عمران خان بتا پائیں گے کہ مک مکا کادوسرا فریق کو ن ہے؟کیا دوسرا فریق عسکری قیادت یاسپریم کورٹ یا کوئی بیرونی طاقت ہے؟‘‘ 2014میںاسی شدو مد سے"ایمپائر کی مداخلت" کا ذکربطور خاص کر کے اپنی عزت و آبرو بڑھاتے رہے،اترانا بنتا تھا۔مانا کہ نواز شریف کی سیاست کی کوئی کل سیدھی نہیں۔احمقانہ اور (CLUELESS) ، وگرنہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘کے سوال کی بجائے عمران خان سے یہ مطالبہ کرتے کہ ’’ـبتانا ہو گا 2014 دھرنے کے ایمپائرز کون تھے؟‘‘ عمران خان کے جواب سے سب کچھ معلوم ہو جاتا۔کم از کم آج ہی پوچھ لیں کہ’’NROکا دوسرا فریق کون ہے؟‘‘ہر دو جواب میں سب کچھ نکھر کر سامنے آ جائے گا۔
دوسرا پہلو نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان رخنہ ڈالنے کی ان تھک مشقت، جاری ہے۔ افواہوں کا اتوار بازار جم چکاہے۔ اعادہ کروں گا کہ دونوں بھائیوںمیں رخنہ ڈالنا ،ناممکن ۔ شہبا ز شریف سیاست چھوڑدے گا، بھائی کی تابعداری، فرمانبرداری سے پہلو تہی کا نہیں سوچے گا۔نقطہ نظری فکری اختلافِ رائے پر چہ میگوئیاںکیوں؟شہباز شریف اوردوست ِراست چوہدری نثار میں کئی قدریں مشترک، دونوں مسلم لیگ کا اثاثہ و ستون ، اپنی وفاداری و پاسداری ہر نازک موڑا ور بحران پر منو ا چکے ہیں۔ دونوں اپنے فرض منصبی اوراپنی کارکردگی میں سکہ جما چکے ہیں ۔اس سے بڑا اعزازکیا ہو گا کسی بھی صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کا خواہش مند یاوزارت داخلہ پر تعینات وزیر اپنی کارکردگی ،قابلیت کا معیاربمطابق شہباز شریف اور چوہدری نثار مقرر کر تے ہیں۔ دونوں کی کارکردگی کا حتمی فائدہ ہمیشہ مسلم لیگ کوملا ہے ۔2013کے الیکشن کی جیت کاسارا کریڈٹ صرف اور صرف شہباز شریف، سہرا شہباز شریف کے سر بندھ چکاہے۔پرویز خٹک نے اقتدار سنبھالتے ہی شہباز شریف کو اپنا کامل مثالی نمونہ بتایا، یقیناً کوئی وجہ تھی۔
ازراہ تفنن، چند دن پہلے دیر کی یونیورسٹی میںقائد تحریک انصاف حسب معمول بے شمار ڈینگیں بڑھکیں مارتے، زبردست انکشاف فرما گئے۔ ہمیںKPمیں صرف دو سال اقتدار ملا۔پرفار م نہ کرنے کی وجہ خاصی مضحکہ خیزبتائی۔’’دو سال دھرنے اور پاناما کی نذر ہو گئے‘‘،باقی جو بچا کالے چور لے گئے۔ پولیس کا نظام تو ہمیشہ سےKP میں بہتر تھا، بار بار ذکرسے کیا فائدہ۔آگے بتائیں، اس سے آگے ٹائیں ٹائیں فش ۔دلیل کیا دی ،’’ایک سال دھرنوں نے ضائع کیا اور ایک سال پانامہ نے، باقی دو سال نا تجربہ کاری اور نالائقی کی نذر ہو گئیـــ‘‘۔عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار سال، ایک سال کم بخت دھرنوں کی نذر، قسمت پھوٹے دوسرا سال پاناما لے اڑا۔خواتین و حضرات! خانصاحب سے چار سالہ کارکردگی کا حساب مانگ کرخود شرمسار ہوں نہ خانصاحب کو کریں۔ سوچوں میں غرقاب ، دھرنوں کی بات تو سمجھ آتی ہے کہ چند ہفتے پرویز خٹک کنٹینرپرناچتے پائے گئے، مگر پانامہ کیس دوران تو یکسوئی سے صوبے میںنحیف تن اور مضبوط من حاضر رکھا۔ آج جب کارکردگی آشکار ہوئی تو، نامہ اعمال خالی۔ وقت حساب آیا توآئیں بائیںشائیں، ہی ہی ہی ، ہاہاہا۔پرویز خٹک کے چار سالہ کام پر وقت تقسیم کیا تودو سال نہیں نکل پا رہے۔ اس طرح تو پھرشہباز شریف اپنے چار سالہ دور میں آٹھ سال کا کام کر گئے۔پچھلے چند مہینوں میں میانوالی، ملتان، گجرات، جلال پور جٹاں، ساہیوال، راولپنڈی، دیہات کھیتوں کھلیانوں طرف کئی بار رُخ رہا۔شہری ترقی، صنعتی انفراسٹرکچر، زراعت و معدنیات ہر جگہ ، ہر شعبے میں بے شمار کامیابیوں کے جھنڈے گڑے ملے۔ عوامی ٹرانسپورٹ، بجلی کارخانے، نئے اسپتال، نئی سیکورٹی فورسز،سیف سٹی، شہر خاموشاں، زرعی منصوبے نہ جانے کیا کیا، سب اپنی مثال آپ۔ صحت، تعلیم، میرٹ، شہری تعمیر و ترقی اور صفائی ستھرائی، دیہی علاقوں تک زرعی سہولتوں میں نمایاںفرق و اضافہ،شہباز شریف کا طرہ امتیاز رہا۔ کریڈٹ دینا ہو گا کہ جب بھی اقتدار ملا ، مسلم لیگ کی سیاست کو چار چاند لگائے،بام عروج تک پہنچایا، ساکھ عزت بڑھائی۔کیا یہ ثبوت کافی نہیں کہ 2013کا الیکشن شہباز شریف نے اپنی کارکردگی بنابمع عمران خان کی احمقانہ سیاست بدولت، تحریک انصا ف کے منہ سے چھن کر مسلم لیگ (ن ) کی گود میں ڈالا۔بلاشبہ پنجاب کوترقیاتی عروج دیا اور سازشی سیاست سے نبرد آزما بھی ہیں۔ کارکردگی، سو بٹا سو، شاباش شہباز شریف۔

تازہ ترین