• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پندرہ برس قبل جب ترکی میں پہلی بار اسلام پسند رہنما نجم الدین ایربکان کی قیادت میں حکومت تشکیل دی گئی تو انہوں نے سب سے پہلے اسلامی ترقی پذیر ممالک پر مشتمل اقتصادی اتحاد کو قائم کرنے کے لئے یورپی یونین کی طرز پر ڈی ایٹ تنظیم کے قیام کی بنیاد رکھی۔ مرحوم وزیراعظم نجم الدین ایربکان نے 22 اکتوبر 1996ء میں ان ممالک کے ماہرین اور وزراء پر مشتمل کئی ایک اجلاس منعقد کیے جن کے بعد15جون 1997ء کو استنبول میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں ڈی ایٹ کو سرکاری یا رسمی طور پر ایک تنظیم کا روپ دے دیا گیا۔ اس تنظیم یا ادارے کے تحت چھ اصولوں کو وضع کیا گیا۔ یہ چھ اصول کچھ یوں تھے۔1۔ جنگ کی بجائے امن 2۔ دہرے معیار کی جگہ عدل و انصاف 3۔استعماریت کی جگہ منصفانہ نظام 4۔ جھڑپوں کی جگہ مذاکرات، 5۔برتری کی بجائے مساوات 6۔ دباؤ اور پریشر کی جگہ انسانی حقوق اور ڈیموکریسی۔ ان چھ اصولوں کو وضع کرنے کی اصلی وجہ بیسویں صدی میں جاری رہنے والی جھڑپوں، استعماریت اور عدم انصاف کو ختم کرتے ہوئے برابری کی سطح پر تعاون کو فروغ دینا تھا۔ علاوہ ازیں قدرتی وسائل ، گنجان آبادی اور اپنے اپنے علاقے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اہم مقام حاصل کرنے والے ان ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے نئے موقع پیدا کرنا اور اس مقصد کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانا اور منصوبوں کو مشترکہ طور پر عملی جامہ پہنانا تھا ۔ اس اجلاس میں ڈی ایٹ ممالک کے سربراہی اجلاس کو ہر دو سال بعد منعقد کرنے کافیصلہ بھی کیا گیا۔ 15جون 1997ء کو منعقد ہونے والے پہلے سربراہی اجلاس میں ان آٹھ ممالک کے درمیان مختلف امور اور شعبوں کو جن میں ان ممالک کو مہارت حاصل تھی میں تقسیم کر دیا گیا ۔ اس طرح صنعت و صحت کا شعبہ ترکی کو، تجارتی شعبہ مصر کو، دیہاتی ترقیاتی امور بنگلہ دیش کو، انسانی وسائل انڈونیشیا کو، ٹیلی کمیونی کیشن اور ٹیکنالوجی ایران کو، فنانس ، بینکاری اور نجکاری ملائیشیا کو، توانائی کا شعبہ نائیجریا کو اور زراعت کا شعبہ پاکستان کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈی ایٹ تنظیم کے تحت ہر دو سال بعد حکومتی اور مملکتی سربراہان کا اجلاس منعقد کیا جاتا ہے۔
ڈی ایٹ ممالک کی تنظیم جو کہ آٹھ ممالک ترکی (آبادی 77 ملین) ، پاکستان ( آبادی 180 ملین) ، ایران ( آبادی 67 ملین) انڈو نیشیا( آبادی 232 ملین) ، ملائیشیا( آبادی 26 ملین) ، مصر ( آبادی 83 ملین) ، بنگلہ دیش ( آبادی 135 ملین) اور نائیجریا (آبادی 150ملین) پر مشتمل ہے کی کل آبادی ایک ہزار ملین یعنی ایک سو ارب کے لگ بھگ ہےاور اس طرح یہ آبادی پوری دنیا کی آبادی کا بیس فیصد بنتا ہےاور یہ آبادی یا ممالک دنیا کے وسائل کے چالیس فیصد سے زائد کے مالک ہیں۔ ڈی ایٹ ممالک میں صرف تین اقدار مشترک ہیں۔ترقی پذیری ، مذہب اسلام اور گنجان آبادی ۔ ان ممالک کی اقتصادی منڈیوں کا حجم ایک ٹریلین ڈالر کے قریب ہے۔ دنیا کے مختلف بر اعظموں میں واقع یہ ممالک اپنے اپنے خطوں میں تو اہمیت رکھتے ہیں لیکن عالمی اقتصادی فیصلہ سازی میں ان کا کردار زیادہ نمایاں نہیں ہے اور ابھی تک یہ ادارہ مرحوم نجم الدین ایربکان کی توقعات پر پورا نہیں اترا ہے تاہم اب مرحوم نجم الدین ایربکان ہی کے قریبی ساتھی اور ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان نے اس تنظیم کو فعال بنانے کے لئے تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان ڈالر کی بجائے اپنی اپنی کرنسی میں تجارت کو فروغ دینے کی تجویز پیش کی ہے جسے تمام رکن ممالک نے قبول تو کرلیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کب شروع کیا جائے گا اس بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ اپنی اپنی کرنسی میں تجارت کرنے کے عمل کو ’’ کرنسی سوئپ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ترکی اور پاکستان کے ساتھ پہلے ہی سے کرنسی سوئپ پر معاہدہ طے پاچکا ہے اور ایران اور ترکی کے درمیان بھی اس بارے میں معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں جبکہ دیگر رکن ممالک کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈی ایٹ ممالک کے درمیان ثقافت ، صنعت اور توانائی میں تعاون کے معاملے میں کافی حد تک پیش رفت دیکھی گئی ہے لیکن ابھی تک کئی ایک شعبوں میں تعاون جن میں ، زراعت اورتحفظ خوراک ، بینکاری ،تجارت، نقل وحمل اور سیاحت شامل ہیں میں تعاون کو فروغ دینے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان، ترکی کے ڈی ایٹ صدر کے اختیارات سنبھالنے سےقبل تنظیم کا صدر تھا اور اس نے یہ اختیارات نومبر 2012ء میں اسلام آباد میں آٹھویں سربراہی اجلاس میں سنبھالے تھے اور اب اس نے یہ اختیارات ترکی کو منتقل کردئیے ہیں۔ استنبول میں گزشتہ ہفتے 20 اکتوبر بروز جمعہ منعقد ہونے والے نویں سربراہی اجلاس کی افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمدآصف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے گروپ ڈی ایٹ کی مشترکہ کوششوں سے تنظیم کو اپنے اہداف کے جلد حصول میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ گروپ نے رکن ملکوں کے درمیان تاجروں کیلئے ویزہ کے اجرا کے طریقہ کار میں سہولتوں اورکسٹم ڈیوٹی میں کمی کے معاہدے سمیت اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ترکی کے وزیرخارجہ مولؤد چاوش اولو نے اپنے افتتاحی کلمات میں اس بات پر زوردیاکہ ایسے وقت میں جب گروپ کے رکن ممالک کو کئی عالمی مسائل کاسامنا ہے، ان ملکوں کے درمیان تعاون کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے،انہوں نے رکن ملکوں میں موجود مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے توانائی کے شعبے میں تعاون پر بھی زوردیا۔
ڈی ایٹ سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت تیزی سے بحالی کی جانب گامزن ہے، تنظیم کے اہداف کے حصول میں پاکستان نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ڈی ایٹ رکن ممالک کی ترقی میں معاون ثابت ہوگی جب کہ سربراہ اجلاس میں ڈی ایٹ کا چارٹر اور گلوبل وژن کی منظوری دی گئی ہے۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ترقی پذیر 8ممالک (ڈی ایٹ) کی تنظیم کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے منصوبوں پر عملدرآمد پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’ڈی ایٹ میں بہت زیادہ مواقع اور وسائل پائے جاتے ہیں اس لئے مجموعی صلاحیت کو عملی جامہ پہنانے اور اپنے اجتماعی وسائل سے بھرپور استفادہ کے لئے ہر سطح پر اور ہر میدان میں ہمارے درمیان تعاون اور اشتراک کار کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان نے دن رات محنت کرتے ہوئے دہشت گردی کا قلع قمع کیا ہے جس سے اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے اورسیکورٹی کو بھی بہتر بنانے کا موقع ملا ہے۔‘‘
اس موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا دُنیا کو پانچ ممالک کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ ڈی ایٹ ممالک تنظیم جو آج اپنی بیسویں سالگرہ منا رہی ہے، یہ عالمی امن، خوشحالی اور استحکام کے لئے خدمات جاری رکھے گی۔ ہمیں ڈی ایٹ کے تحت تمام شعبوں میں تعاون کو مزید مضبوط کرنے اور توسیع دینے سے خوف محسوس نہیں کرنا چاہیےبلکہ مزید قدم اٹھاتے ہوئے اسے جی ٹوئنٹی سطح پر لیا جاسکتا ہے۔‘‘ صدر ایردوان نے روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والےظلم و ستم کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں عملی طور پر اقدامات اٹھانا ہوں گے اور بنگلہ دیش پر سارا بوجھ ڈالنے سے گریز کرنا ہوگا۔‘‘ ایردوان نے کہا کہ ’’ عالمی سطح پر ایک طبقہ جان بوجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو کو دہشتگردی سے نتھی کر رہا ہےاور ان ہی ممالک کی حمایت اور پشت پناہی سے بوکو حرام، داعش، فیتو اور الشباب جیسی دہشتگرد تنظیمیں معرضِ وجود میں آئی ہیں اور انہی دہشت گرد تنظیموں کے قتل ِ عام کو اسلامی فوبیا کا روپ دیتے ہوئے پیش کیا جا رہا ہے۔‘‘ ڈی ایٹ سربراہی اجلاس استنبول اعلامیے سے اپنے اختتام کر پہنچا۔ استنبول اعلامیے میں تنظیم کو فعال بنانے 2017ء لائحہ عمل کی منظوری دی گئی۔ اسی دوران اجلاس میں شریک رہنمائوں نے استنبول کی مشہور جامع مسجد ’’سلطان احمد یا بلیو ماسک ‘‘ میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ اگلے روز وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے ترکی کی جانب سے پاکستان کو فروخت کرنے کے آخری مرحلے میں موجود T-129-Atak ہیلی کاپٹر کی تجرباتی پرواز بھی کی۔پاکستان جلد ہی ترکی سے بڑی تعداد میں اپنے دفاع مقصد کے لئے ان ہیلی کاپٹروں کو خریدنے والا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اس کی خریداری کے بارے میں مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔

تازہ ترین