• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلمانوں سے آٹھ سو سالوں پر محیط اقتدار چھیننے کے بعد ہسپانوی قوم دنیا میں ایک بڑی طاقت بن کر اُبھری۔ دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی امریکہ سمیت دنیاکے بہت سے حصے ہسپانیہ کے زیر تسلط آگئے۔ بیسویں صدی کی شروعات تک بیشتر ہسپانوی حکمران، عالم، دانشور اور عوام نے مسلمان حکمرانوں کی نشانیوں اور باقیات کا احترام نہیں کیا، وہ ایک طویل عرصے تک سائنس اور سماجیات، فلسفے، فنون، ریاضی اور فن ِ تعمیر کے شعبوں میں مسلمانوں کی لازوال کامیابیوں میں اپنی دلچسپی ظاہر کرنے سے کتراتے رہے۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں نپولین ہسپانویوں پر چڑھائی کرتا غرناطہ پہنچ گیا جہاں وہ اسلامی دور کی عظیم الشان یاد گار عمارت الحمرا کو تباہ کرنا چاہتا تھا، لیکن ہسپانویوں نے یورپی قوتوں کی مدد سے نپولین جیسے سورما کو شکست فاش سے دوچار کیا اور پھر انہیں مسلمانوں کی ان شاندار نشانیوں کی اہمیت کا خیال آیا۔ یوں 1870میں الحمرا کو قو می ورثے کا درجہ دے دیا گیا اور اب جدید اسپین میں یہ ایک اہم عمارت سمجھی جاتی ہے۔
سوچتا ہوں کہ اگر نپولین الحمرا کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو آج اِس کا نام تاریخ کے سیاہ ترین اوراق میں درج ہوتا اور اس کے برعکس اِس کو تعمیر کرنے والے مسلمان حکمران آج بھی بدستور اپنی تخلیقی اور تعمیری اصناف، علمیت اور نفاست کے حوالے سے ہی جانے جاتے۔ تاج محل سے متعلق اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ کے حالیہ بیان نے الحمرا سے متعلق نپولین کے ناکام عزائم کی یاد تازہ کردی ۔
اگر یوگی ادتیا ناتھ جی اپنا بیان مغل شہنشاہوں کو حملہ آور اور غیرمقامی قرار دینے تک محدود رکھتے تو شاید یہ معاملہ ایک معمول کی بحث تک ہی محدود رہتا۔ لیکن تاج محل کو ’’غیر ہندوستانی‘‘ قرار دینے کا مطلب تاج محل اور ہندوستان دونوں کے ساتھ سراسر نا انصافی اور زیادتی ہے۔ ایسا کہہ کر وہ اپنے دیس میں بسنے والے کروڑوں مسلمان شہریوں کو بھی ہندوستانی ماننے سے انکار کررہے ہیں۔ اگر وہ یہ سب کچھ سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں تووہ ہندوستان میں موجود کون کون سے تاریخی ورثوں کو غیر ہندوستانی قرار دیتے رہیں گے۔ نئی دہلی میں سنساب بھون یعنی بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت کے بارے میں کسی نے پہلے ہی یاد دلادیا ہے کہ وہ بھی انگریزوں کی بنائی ہوئی ہے لہٰذا اس عمارت کا بھی بھارت کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں، اس کے بنانے والے بھی غیر ہندواور غیر مقامی تھے ۔
شمالی ہندوستان کے کم و بیش تمام بڑے شہروں کو آپس میں جوڑنے والی عظیم الشان شاہ راہ جی ٹی کا موجودہ روٹ اور شکل دراصل شیر شاہ سوری کا کارنامہ ہے۔ ہم پاکستانی مسلمان ہو کر بھی مانتے ہیں کہ جی ٹی روڈ کی بنیاد چندرا گپتا موریا نے رکھی تھی، تب اِس سڑک پر آمد و رفت ٹیکشا سلا (موجودہ ٹیکسلا) اور پاٹلی پترا (موجودہ پٹنہ) کے درمیان محدود تھی ۔ لیکن اس شاہ راہ کو شمال مغرب میں ٹیکسلا سے کابل تک اور شمال مشرق میں پٹنہ سے کولکتہ تک وسعت دیکر اس کے خدوخال درست کرنے کاسارا کام شیر شاہ سوری کے دور میں ہوا ۔ شیر شاہ سوری نے غیرملکی ہونے کے باوجود ہندوستان کو ہی اپنا گھر سمجھ کر مغلوں کو ہندوستان سے مار بھگانے کی کوشش بھی کی تھی۔ راولپنڈی کا روہتاس فورٹ شیر شاہ کی اِسی کوشش کی نشانی ہے۔ اس کے بعد انگریز اس شاہ راہ کو موجود ہ روٹ اور شکل میں لے آئے ۔ تو کیا یوگی جی اس شاہ راہ سے متعلق بھی یہی رائے رکھتے ہیں؟
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انسانی ہجرت ہر سمت میں رواں رہتی ہے۔ جہاں یورپ، وسطی ایشیا اور ایران سے ہندوستان ہجرت ہوتی رہی، وہیں تاریخ میں ہندوستان سےشمال کی جانب مختلف جہانوں میں ہجرت اور حملوں کے آثار واضح طور پر موجود ہیں۔ خود چندرا گپتا موریا اپنے آبائی علاقے پاٹلی پترا میں پیدا ہوکر افغانستان تک جا پہنچے اور پھر ان کے پوتے کے ذریعے ہندوستان میں جنم لینے والا بدھ مت مذہب افغانستان، چین اور وسطی اشیا سے ہوتا ہوا مشرق بعید تک جا پہنچا لیکن افغانستان سے لیکر جاپان تک کسی حکمران نے گوتم بدھ کے کسی مجسمے کو دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ ہمارا نہیں، ہندوستان سے یہاں لایا گیا ہے۔ افغانستان کے بیشتر حصوں میں ہندومت کو ماننے والے موجود تھے لیکن اسلام کی آمد تک افغانوں نے کبھی ان ہندوستانی مذاہب اور عبادت گاہوں کو ہندوستانی قرار دیکر رد نہیں کیا!
تاج محل ہندوستان کے ہر حکمران کا نور نظر رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں عمارت کو ہوائی حملوں سے بچانے کے لئے انگریزوں نے اس کے گنبد اور میناروں کو شہتیروں کے جال سے چھپا دیا تھا۔ اس کے بعد کانگریس کے منتخب حکمرانوں نے تاج محل کو 1965اور 1971کی جنگوں کے دوران بھی اسی انداز میں محفوظ کردیا۔ ادتیا ناتھ جی کو شاید خبر بھی نہ ہو کہ ان کی پارٹی کے انتہائی سینئر رہ نما اور بھارت کے سابق وزیراعظم جناب اٹل بہاری واجپائی نے سال 2001میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران تاج محل کو کسی بھی ممکنہ حملے سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسے ہی خاص انتظامات کئے تھے۔ یہاں تو ادتیا ناتھ جی کے خیالات واجپائی جی کی پالیسیوں سے بھی متصادم ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔
نئی دلّی میں بی جے پی کے مرکزی ترجمان جناب سدیش ورما سے رابطہ کیا تو انہوں نے یوگی ادتیا ناتھ جی کے بیان پر جاری بحث میں پڑنے سے صاف انکار کردیا۔ البتہ اصرار کرنے پر بمشکل کہا کہ سیاسی رہ نمائوں کے خیالات پارٹی پالیسی سے مطابقت رکھ بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ ان کاکہنا ہے کہ سیاست دانوں کے انفرادی خیالات پر مباحثوں کی گنجائش ہے۔ بی جے پی ہر معاملے میں مباحثوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ انہوں نے مانا کہ، ’’تاج محل ایک تاریخی ورثہ ہے۔ ہندوستان میں یہ عمارت سیاحوں کی دلچسپی کا بڑا مرکز ہے اور عملاً حکومت نے اس کی دیکھ بھال پر کوئی کسرنہیں چھوڑی ہے۔‘‘
اِدھر تاج محل کا معاملہ نمٹ نہیں پایا کہ ادھرریاست کرناٹکا میں ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش پر طے شدہ سرکاری جشن پر اعتراضات اٹھا ئے گئے ہیں۔ بی جے پی کے ایک ایم ایل اے اشوتھ نارائن نے ٹیپو سلطان کو قاتل قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ انہوں نے ہزاروں ہندوئوں کو زبردستی مسلمان ہونے پر مجبور کیا تھا۔جشن کا اہتمام ریاست میں قائم کانگریس حکومت نے کیا ہے جب کہ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندو جاگرن اور بی جے پی نے اس جشن اور اس سے جڑی تقریبات کیخلاف آواز اٹھائی ہے۔ ریاست سے منتخب یونین منسٹر اننتھ کمار ہیگڑے تقریب میں شرکت سے پہلے ہی معذرت کرچکے ہیں ۔
کانگریس کے ترجمان میم افضل کہتے ہیں کہ معاملہ تاج محل کا ہو، لَو جہاد(Love Jehad)کا ہو یا ٹیپو سلطان کے جشن کا، بی جے پی اقلیتوں کے خلاف نفرت بھڑکا کر ہندوستانی ووٹ کو یک طرفہ بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوئوں کی اکثریت سیکولر دیش بھگتیوں پر مشتمل ہے اور یہ اکثریت بی جے پی کے ان منصوبوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ ان کا خیال ہے کہ کانگریس نے بھارت کو اقتصادی قوت بنایا، ملک میں سیکولر روایات مضبوط کیں، عوام کی اکثریت کو تعلیم سے آراستہ کیا۔ جب کہ بی جے پی یہ سب کچھ تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
بات ہسپانیہ میں مسلمانوں کے تاریخی ورثے کے تحفظ سے شروع ہوئی تھی۔ گزشتہ برس اسپین کے شہر قرطبہ میں انتہائی جدید طرز پر ایک پل تعمیر کیا گیا ہے ۔ اسپین کی حکومت کی تجویز پر اس پل کا نام ابی فرناس برج رکھا گیا ہے۔ یہ سال 861کی بات ہے جب اس شہر کے ایک دانا نے بازوئوں میں پرندوں جیسے پر باندھ کر ایک مینارسے چھلانگ لگائی، کچھ دیر وہ شہر کے اوپر اڑتا دکھائی دیا اور پھر زمین پر آن گرا۔ آج مشرق سے لیکر مغرب تک ہوابازی کے ماہرین نے اس واقعہ کو انسانی تاریخ کی پہلی پرواز مان لیا ہے۔ عباس ابی فرناس اسی دیوانے کانام تھا۔ آج ہر ہسپانوی کو معلوم ہے کہ ان کی آبائی سرزمین پر یہ تاریخ ساز تجربہ کرنے والا شخص ایک غیرمقامی تھا اور مسلمان بھی۔

تازہ ترین