• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو اخبارات میں ایک جملہ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ’’دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ اس پر یاروں نے لطیفے بنا لئے کہ دہشت گردی کی اجازت آپ سے مانگتا کون ہے؟ کیا درخواست لے کر کوئی آتا ہے کہ مجھے دہشت گردی کرنے دی جائے؟ آپ اجازت نہیں دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے، اور اگر میں غلط ہوں مجھے درست کردیجئے گا، کہ یہ ترجمہ ہی غلط ہوا ہے۔ Terrorism will not be allowed کا مطلب جو میں سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ دہشت گردی نہیں کرنے دی جائے گی۔ اس میں اجازت دینے نہ دینے کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ ترجمہ غلط ہوا اور لطیفے بن گئے۔ وہی بات کہ الفاظ کا نہیں، مفہوم کا ترجمہ کیا جانا چاہئے ۔
اخبارات میں اب صورتحال مختلف ہو گئی ہے۔ اس لئے نہیں کہ ترجمے اچھے ہونے لگے ہیں، بلکہ اس لئے کہ اب خبر آتی ہی اردو میں ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی اور غیر ملکی سب خبریں انگریزی میں آتی تھیں، اور ان کا ترجمہ کرنا پڑتا تھا۔ ایک اخبار میں ایک سب ایڈیٹر تھے، ایک بار ان کا ترجمہ چیک کیا، پھر دوسرا تیسرا اور پانچ چھ مزید۔ اصل خبر کچھ اور تھی، ترجمہ کچھ اور تھا، بالکل الٹ۔ مدیر کو بتایا۔ سمجھدار آدمی تھے، اسی وقت ان صاحب کو فارغ کردیا۔ کافی عرصے بعد اردو بازار میں ایک پبلشر کے یہاں نظر آئے۔ میں نے پوچھا آج کل کیا کررہے ہیں؟ بڑے فخر سے انہوں نے بتایا، ایم اے پولیٹکل سائنس کی کتابوں کا ترجمہ کررہا ہوں۔ اس دن پتہ چلا ملک میں سیاست کا اتنا برا حال کیوں ہے۔
یوم ترجمہ کی اس تقریب کے منتظمین کا اصرار ہے کہ ترجمے کے ان مسائل کا کوئی حل بھی پیش کیا جائے۔ حل ہر مسئلہ کا ممکن ہے، مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔ یہاں محنت میں آپ اخراجات کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ ایک بار کمال احمد رضوی سے ملاقات ہوئی۔ ان کا ایک انٹرویو کیا تھا اپنے اخبار کے لئے۔ باتوں باتوں میں ان کی ایک کتاب کا ذکر آیا۔ برسہابرس پہلے کی بات ہے انہوں نے ڈیل کارنیگی کی کتاب How to win friends and influence people کا ترجمہ کیا تھا ، نام رکھا تھا ’’میٹھے بول میں جادو ہے۔‘‘ کمال نے کمال کا ترجمہ کیا تھا۔ ڈالر کو بھی روپے میں بدل دیا تھا۔ پرانی باتیں یاد کرتے ہوئے کہنے لگے، بیروزگار تھا، ایک پبلشر کے پاس گیا۔ اس نے کہا ترجمہ کرو، بارہ آنے فی صفحہ ملیں گے ۔ انہوں نے کہا نہیں ڈیڑھ روپے دو۔ پبلشر نہیں مانا۔ اُس وقت بھی تنک مزاج تو رہے ہوں گے، جوانی بھی تھی، واپس آگئے۔ کہنے لگے شام کو بھوک بہت شدید ہوگئی، پبلشر کے پاس گیا، اس سے کہا ایک روپیہ فی صفحہ دوگے۔ وہ راضی ہوگیا، اور انہوں نے چند دن میں اس کتاب کا اور بعد میں ڈیل کارنیگی کی کئی دوسری کتابوں کا ترجمہ کردیا۔ یہی مسئلہ ہے۔ اگر میں نشاندہی کرپایا ہوں تو۔ ترجمہ کا معقول معاوضہ دیا جائے۔آدمی کچھ محنت کرکے علم کے لئے کام کرے، صرف چند روپے کمانے کے لئے نہیں۔ مگر اسے پیٹ بھی تو بھرنا ہے۔
مگر بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ اچھے ترجمے، اور اچھی کتاب کے لئے بھی، ایک ایڈیٹر درکار ہوتا ہے۔ دنیا میں کہیں یہ نہیں ہوتا کہ کسی نے کوئی کتاب لکھ دی اور وہ چھپ گئی۔ ایڈیٹر ضرور اس کتاب کو ایڈٹ کرے گا، اس کی زبان درست کرے گا، اس کی ترتیب بھی بہتر کرے گا۔ ہمارے یہاں اس جنس کا نام و نشان کہیں نہیں پایا جاتا۔ میں اس مسئلہ کی بات نہیں کر رہا کہ اخبارات میں ایڈیٹر کا ادارہ ختم ہو گیا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ جو بھی کاپی لکھی جائے، وہ ایک ایڈیٹر یا سب ایڈیٹر کی نظر سے ضرور گزرے، جو اسے اچھی طرح پڑھے، اصلاح کرے، اور جہاں کہیں جھول ہوں، زبان کے یا بیان کے انہیں دور کرے۔ اس کام کے لئے ایک زیادہ پڑھا لکھا آدمی چاہیے ، جو سستا نہیں مل سکتا۔ عام کاروباری پبلشر پیسے خرچ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اردو اخبارات میں ترجمہ شدہ، یا رپورٹر کی کاپی پڑھنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ کبھی نہیں تھا۔اب آہستہ آہستہ انگریزی اخبارات سے بھی ختم ہو رہا ہے، جہاں اب سے پچپن برس پہلے بھی ہر خبر، ہر اسٹوری لازماً شروع سے آخر تک پڑھی جاتی تھی، ایڈیٹر کا لکھا ہوا اداریہ بھی۔
حکومت نے اتنے سارے ادارے بنائے ہوئے ہیں، ایک آدھ ادارہ اچھے ترجمے کے لئے بھی بنادے، یا انہی اداروں سے کچھ معقول کام لے لے، جن میں اچھی کتابوں کا اچھا ترجمہ لازمی ہو۔ اگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی تو خطرہ یہ ہے دوسری زبانوں میں شائع ہو نے والی اچھی کتابیں اردو میں ملنے کا سلسلہ کم ہوتے ہوتے ختم ہوجائے گا۔ ایک تجویز یہ ہے کہ جس زبان میں بھی ترجمے ہورہے ہوں، انہیں اپنا دامن وسیع کرنا چاہئے۔ دوسری زبانوں کے وہ الفاظ لئے جا سکتے ہیں جو آسان ہوں اور مطلب بھی آسانی سے سمجھ میں آتا ہو۔ اس کے لئے بہ ہر حال کام تو کرنا پڑے گا۔ محمد حسین آزاد نے لکھا : ’’اکثر معانی ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں انہی کی زبان میں کہیں تو ایک لفظ میں ادا ہو جاتے ہیں، ترجمہ کریں تو ایک فقرہ بنتا ہے، پھر بھی وہ مزہ آتا ہے نہ مطلب کا حق ادا ہوتا ہے۔ اس صورت میں گویا قانون ِ زبان اور آئین ِ بیان مجبور کرتا ہے کہ یہاں وہی لفظ بولنا چاہئے، دوسرا لفظ بولنا جائز نہیں۔‘‘
چلتے چلتے ایک درخواست۔ براہ کرم پروف ریڈنگ پر بھی توجہ دی جائے۔ بیرون ملک چھپی ہوئی انگریزی کتابوں میں ڈھونڈے سے بھی کوئی غلطی کبھی کبھی ہی نظر آتی ہے، ہمارے یہاں ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں۔ مجھے آج تک اردو کی کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جس میں غلطی نہ ہو، قران شریف کے ترجمے مستثنیٰ ہیں ۔ شبلی نعمانی کی سیرت پر کتاب لے لی۔ خوبصورت چھپی ہوئی ہے، رنگ برنگی۔ پہلے ہی صفحے پر ’ الحمد للہ‘ غلط لکھا ہوا ہے۔ پاکستان نے جب بم دھماکہ کیا تو اردو کے ایک اخبار نے سرخی جمائی،’الحمد اللہ‘ پاکستان نے بم دھماکہ کر دیا۔ کیا قوم ہے اللہ کا شکر بھی ٹھیک سے ادا نہیں کرسکتی۔ صبح شام قرآن شریف پڑھتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے الحمد للہ کیسے لکھا ہوا ہے۔ اس میں الحمد کی دال کے بعد الف نہیں آتا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس طرف بھی توجہ دیں، اچھا ترجمہ اگر ہو بھی گیالیکن پروف ریڈنگ ایسی ہوئی تو ۔۔۔ کیا عرض کروں۔
(ترجمہ کے عالمی دن کے حوالے سے انجمن مترجمین کراچی کی تقریب میں پڑھا گیا)

تازہ ترین