• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے تعلقات کے بارے میں

اس موضوع پر میرا پچھلا کالم اس بات پر ختم ہوا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھے اس بات پر رضامند کیا کہ میں محترمہ اور ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کروں‘ میں نے پچھلے کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ کچھ دنوں کے بعد میری 70 کلفٹن میں میر مرتضیٰ بھٹو کی طرف سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد کھڑے کھڑے ملاقات ہوئی تھی اور میں نے اپنا منشا ظاہر کیا مگر اس وقت ان کو اپنے پارٹی کے رہنمائوں کے ساتھ کہیں جانا تھا لہذا انہوں نے اس دن مجھ سے اکیلے میں ملاقات کرنے سے معذرت کی، وہ دوسرے دن بھی سارا دن مشغول تھے لہٰذا انہوں نے دوسرے دن بھی ملاقات سے معذرت کی اور میں فی الحال حیدرآباد واپس آگیا مگر اس کے بعد میں تین سے چار بار میر مرتضیٰ بھٹو سے ملاقات کے لئے کراچی آیا، وہاں میں نے ایک دو بار70 کلفٹن ٹیلی فون کرکے میر مرتضیٰ بھٹو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جبکہ ایک دو بار میں 70 کلفٹن گیا مگر اس کے باوجود نہ میری میر مرتضیٰ بھٹو سے ملاقات ممکن ہوسکی نہ بات چیت ہوسکی، اس طرح میں اس مشن کو مکمل نہیں کرسکا، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ 70 کلفٹن کے کچھ عناصر میر مرتضیٰ بھٹو سے میری ملاقات کرانا نہیں چاہتے، مجھے محسوس ہوا کہ شاید کچھ حلقوں کو یہ علم ہوگیا کہ میں میر مرتضیٰ سے کیوں ملاقات کرنا چاہتا ہوں اور یہ حلقے نہیں چاہتے تھے کہ میر مرتضیٰ اور بے نظیر بھٹو کے درمیان دوریاں ختم ہوں۔ اس مرحلے پر میں یہ بات بھی رقم کرتا چلوں کہ اس موضوع پر یہ کالم لکھنے سے پہلے کراچی میں ایک دوست کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا، وہ حج کرکے آئے تھے اور میں ان کو مبارکباد دینے کے لئے گیا تھا‘ میری وہاں موجودگی کے دوران دو صاحب ہمارے اس دوست کے لئے گفٹ لے کر آئے اور ان کو حج کی سعادت حاصل کرنے پر مبارکباد بھی دی اور وہ تحفے بھی دیئے جو وہ ان کے لئے لائے تھے، اس مرحلے پر میری اپنے دوست سے پہلے ہی محترمہ اور میر مرتضیٰ بھٹو کے درمیان تعلقات کے بارے میں بات ہورہی تھی‘ ان دونوں اصحاب کی موجودگی میں بھی میں نے اپنی بات جاری رکھی، اس دوران میرے دوست نے ان دونوں اصحاب کا مجھ سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں اصحاب میر مرتضیٰ بھٹو کی پارٹی کے انتہائی وفادار کارکن ہیں، اس مرحلے پر ان دونوں اصحاب میںسے ایک صاحب بولے کہ اس وقت ہماری ڈیوٹیاں 70 کلفٹن پر ہیں، اپنا تعارف کرانے کے بعد وہ صاحب بولنے لگے کہ میر مرتضیٰ بھٹو بے نظیر بھٹو سے اس وقت شدید ناراض ہوئے تھے جب1988 ء کے انتخابات کے بعد انہوں نے جنرلوں کی شرائط پر وزیر اعظم بننا قبول کیا لہٰذا ان کا کہنا تھا کہ محترمہ سے میر مرتضیٰ بھٹو کی ناراضی بلاوجہ نہیں تھی، اس ایشو پر میرے پاس بھی کچھ اہم معلومات تھیں جو میں نے ان سے شیئر کیں، ایک بار میری لاہور میں پنجاب کی ایک اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی، ان کے پی پی رہنمائوں سے بھی تعلقات تھے تو اسٹیبلشمنٹ سے بھی قریبی تعلقات تھے، جنرل ضیا کے بہاولپور کے قریب ایک ہوائی حادثے میں انتقال کے بعد پاکستان میں فوج کے قائم مقام چیف آف اسٹاف جنرل اسلم بیگ ہوئے، پنجاب کی اس اہم شخصیت نے بتایا کہ ان کے آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل حمید گل کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن وہ جنرل حمید گل سے ملاقات کرنے کے لئے جی ایچ کیو راولپنڈی گئے، اس وقت جنرل حمید گل کو جنرل اسلم بیگ نے بلایا تھا لہٰذا جنرل حمید گل ان کو ساتھ لیکر جنرل اسلم بیگ کے آفس آئے جہاں انہوں نے پنجاب کی اس شخصیت کو ویٹنگ روم میں بیٹھنے کے لئے کہا اور خود جنرل اسلم بیگ سے ملنے کے لئے ان کے آفس میں چلے گئے، اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر غلام اسحاق خان تھے، اس شخصیت نے بتایا کہ وہ وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ غلام اسحاق خان آئے اور اس وقت وہ کانپ رہے تھے کہ پتہ نہیں انہیں جنرلوں نے کیوں طلب کیا ہے، ویٹنگ روم میں کچھ دیر بیٹھنے کے بعد انہیں جنرلوں نے اپنے ہاں بلایا، اس شخصیت نے بتایا کہ کوئی آدھے گھنٹے کے بعد غلام اسحاق خان جنرل اسلم بیگ کے آفس سے باہر آئے اور اس وقت بہت خوش نظر آرہے تھے، اس شخصیت نے بتایا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ جنرلوں نے غلام اسحاق خان کو کہا کہ وہ ملک کے قائم مقام صدر کے طور پر حلف اٹھائیں اور قائم مقام صدر کی حیثیت سے جو بھی اقدام اٹھائیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات کی روشنی میں اٹھائیں، اس شخصیت نے بتایا کہ اس مرحلے پر انہیں اندر سے جنرل حمید گل کا پیغام آیا کہ وہ ابھی آدھے پونے گھنٹے تک وہیں انتظار کریں، اس کے بعد ملاقات کرتے ہیں، اس شخصیت نے بتایا کہ وہ وہیں بیٹھے ہوئے تھے تو آدھے گھنٹے کے بعد پیپلز پارٹی کی سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو اندر داخل ہوئیں اور فوری طو رپر جنرل اسلم بیگ سے ملاقات کے لئے ان کے آفس میں چلی گئیں، کوئی آدھے گھنٹے کے بعد وہ اس آفس سے باہر نکلیں اور باہر کار میں بیٹھ کر اپنی رہائش کی طرف چلی گئیں، اس شخصیت نے بتایا کہ بعد میں جنرل حمید گل سے معلوم ہوا کہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لئے ان کے سامنے کچھ شرائط رکھی گئیں اور انہوں نے کہا کہ میں اپنی پارٹی سے مشورہ کرکے اپنے ردعمل سے آگاہ کروں گی۔ اس مرحلے پر میں بھی اسلام آباد آیا ہوا تھا اور اپنے اخبار کی طرف سے قومی اسمبلی کی کارروائی کی کوریج کرنے کے لئے اور خاص طور پر اس بات کی رپورٹنگ کرنے کے لئے وہاں آیا تھا کہ پی پی حکومت بنا رہی ہے یا نہیں، اس مرحلے پر میری پی پی کے چند انتہائی اہم رہنمائوں سے اس سلسلے میں بات چیت ہوئی، ان کے مطابق محترمہ کے سامنے جنرلوں کی طرف سے جو شرائط رکھی گئیں ان میں خاص طور پر یہ باتیں تھیں کہ خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات کی روشنی میں وضع کی جائے گی اور شاید یہ بھی کہا گیا کہ وزیر خزانہ جی ایچ کیو کی طرف سے نامزد کئے گئے شخص کو بنایا جائے اور اسی کے مشورے سے نئے سال کا بجٹ تیار کیا جائے، پی پی کے ان رہنمائوں نے بتایا کہ محترمہ نے جی ایچ کیو سے آنے کے بعد پارٹی کے سینئر رہنمائوں کا اجلاس بلایا اور اس اجلاس میں انہوں نے جنرلوں کی طرف سے پیش کی گئی شرائط سنائیں، ان پی پی رہنمائوں نے بتایا کہ اجلاس میں شرکت کرنے والے پی پی کے سینئر رہنمائوں کی اکثریت اس رائے کی تھی کہ کافی عرصے سے ملک بھر کے پی پی رہنمائوں اور کارکنوں نے بڑی مصیبتوں کا سامنا کیا ہے جبکہ شرائط اتنی اہم نہیں لہٰذا ان شرائط کو تسلیم کرکے حکومت بنائی جائے تاکہ پی پی کے رہنما کچھ وقت کے لئے سکھ کا سانس لے سکیں، ان پی پی رہنمائوں کے مطابق اجلاس کافی دیر تک جاری رہنےکے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ چلو ہم یہ شرائط مان لیتے ہیں مگر جنرلوں کو بھی ہماری ایک شرط ماننا پڑے گی، ان کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاء کے دور حکومت میں سارے ملک میں اور خاص طور پر پنجاب میں بڑی تعداد میں پی پی رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا اور تشدد کیا گیا جبکہ پنجاب کے کچھ پی پی رہنما اور کارکن ابھی تک شاہی قلعہ لاہور کے ٹارچر سیل میں مقید ہیں تو آئین میں جنرل ضیاء کی طرف سے داخل کی گئی ایک شق کے تحت ان سب کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

تازہ ترین