• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جلی کٹی سنانے میں میرے دوست خواجہ آصف سے تو گلی محلے کی طعنے باز بڑی بیبیاں بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اپنے اس فن کا مظاہرہ وہ یونیورسٹی کے زمانے سے پارلیمنٹ اور اب وزارتِ خارجہ میں نہایت طمطراق سے کر رہے ہیں۔ کاش وہ جان سکتے کہ خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا جلی کٹی سنانے، پھبتیاں کسنے اور اُشکل بازی سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ کام سوویت یونین کے رہنما خرو شیف یا پھر زمبابوے کے رہنما رابرٹ مگابے خوب کرتے رہے۔ ان میں سے ایک بڑی سپر پاور کا لیڈر تھا اور دوسرا ایک قومی آزادی کا ہیرو اور مطلق حکمران۔ امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن کے گرم و سرد دورے کے بعد اُنہوں نے واحد سپرپاور کی خطے بارے نئی پالیسی پر جھنجھلاہٹ میں جس بیباکی کا اظہار کیا ہے، شاید ذوالفقار علی بھٹو بھی اس کا تصور نہ کر سکتے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے خارجہ معاملات کی کمیٹی میں اپنے خطابات میں خواجہ صاحب نے ٹلرسن کو شیشہ دکھاتے ہوئے کہا کہ تم 18 برس بعد بھی کابل سے باہر امریکی اڈے میں چھپ چھپا کر افغانستان کے کٹھ پتلی صدر سے ملے اور ایسے وقت میں جب طالبان چالیس، پچاس فیصد افغانستان پر قابض ہو چکے ہیں۔ امریکہ افغان جنگ ہار چکا ہے اور اب امریکی پالیسی جرنیلوں کے ہاتھ چڑھ گئی ہے جو پہلے ہی ہاری ہوئی جنگ کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہے ہیں۔ غالباً ٹلرسن کو اپنے تجربے اور حالتِ زار کے پیشِ نظر خواجہ آصف نے یہ صائب مشورہ بھی دیا کہ بہتر ہوگا کہ امریکہ کی خارجہ و سلامتی کی پالیسی وہاں کے سیاستدان ہی تیار کریں تو امریکہ کے لئے بہتر ہوگا۔ حالانکہ، سنجیدگی سے خواجہ آصف کا کبھی واسطہ نہیں رہا، لیکن اُنہوں نے بالکل بائیں بازو کے تجزیئے مستعار لیتے ہوئے ماضی کی امریکہ نواز پالیسیوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور پاکستان کو امریکہ کے سامنے دُم کے بل کھڑے کرنے کے عزمِ صمیم سے آگاہ کر کے غیرت بریگیڈ سے خوب داد وصول کی۔ اسے کہتے ہیں: پلے نہیں دھیلہ، کرتی میلہ میلہ! مضحکہ خیزی سے ہٹ کر، پاکستانی انتظامیہ نے یک مشت ہو کر امریکی وزیرِ خارجہ سے مذاکرات کئے۔ لیکن یہ مذاکرات دو طرفہ کم اور یکطرفہ زیادہ تھے، جبکہ ہم ’’برابری‘‘ کی بنیاد پر مذاکرات کرنے کی دھن میں مبتلا ہیں۔ امریکی پوزیشن صاف، کھلی اور شاید اتنی ٹھوس اور واضح بھی نہیں۔ جو کہ یہ ہے: حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی یا تو پاکستان کرے یا پھر امریکہ یہ کام پاک سرزمین پہ خود کرے گا۔ 75 مطلوب لوگوں کی فراہمی۔ طالبان کی فوجی فتح کے زعم کو مٹانے میں مدد کہ وہ سرجھکا کر مذاکرات کی میز پہ آ جائیں اور پاکستان اس ضمن میں وہ کرے جو امریکہ کہے۔ یہ کہ پاک امریکہ تعلق اب ٹھوس شرائط پر مبنی ہوگا اور قسط وار۔ جبکہ افغانستان اور خطے میں بھارت کا قائدانہ یا اہم کردار ہوگا۔ بھلے پاکستان کو یہ کیسا ہی لگے۔
ہمارا جواب بظاہر صاف تھا: دہشت گردی کی جنگ میں ہم آپ کے حصہ دار ہیں اور بلامعاوضہ۔ ہماری قربانیوں کا اعتراف کرو اور وہ اظہر من الشمس ہیں۔ قابلِ کارروائی اطلاعات دو، ایکشن ہم کریں گے۔ افغان مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں، سیاسی حل تلاش کریں۔ افغان طالبان کو اب ہمارے ہاں کسی کمین گاہ کی ضرورت نہیں۔ اُن کے آنے جانے کو روکنے کے لئے افغان پناہ گزینوں کی واپسی اور پاک افغان سرحد کی حفاظتی باڑ کی دو طرفہ تعمیر۔ یہ کہ افغانستان میں بھارت کا کسی بھی طرح کا فوجی یا تخریبی کردار قبول نہیں۔ جبکہ بھارت خطے میں عدم استحکام کا ذمہ دار اور افغان مسئلے کے حل کے لئے خطے کے دوسرے ملکوں ایران، چین، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے کردار کی اہمیت۔ اور جو چھوٹا موٹا کام لینا ہے وہ عزت و احترام سے لیں کہ ہماری سُبکی ہوگی تو ہم جو ہو سکتا ہے وہ بھی کر نہیں پائیں گے۔
یہ تو تھا امریکہ اور پاکستان کا موقف۔ لیکن مسئلے ابھی حل طلب ہیں۔ اور اس سے پہلے کہ امریکہ کوئی بڑا دھماکہ کرے، ہمیں سنبھل کر چلنا ہے اور کچھ فیصلے بھی کرنے ہیں۔ اب آنکھ مچولی چلنے والی نہیں، ہم اب امریکہ سے بڑی توقعات رکھیں اور نہ امریکہ کی مشکلات میں اضافہ۔ ہمیں ابھی یہ طے کرنا ہے کہ ہم آخر افغانستان میں چاہتے کیا ہیں؟ کیا ہم افغان طالبان کو پھر سے کابل پر قابض دیکھنا چاہتے ہیں؟ یا پھر اس بپھرے ہوئے جن کو کسی وسیع تر اتفاقِ رائے میں سمو کر ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم امریکہ کو بوریا بستر لپیٹ کر جانے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں اور یہ سوچے بغیر کہ افغانستان کو آخر سنبھالے گا کون؟ ہم تو ایسا کر نہیں سکتے، بھارت میں یہ سکت ہے نہ چین ایک حد سے آگے جانے والا ہے۔ جبکہ خطے کے دیگر ممالک فقط افغانستان کے ساتھ اپنے سرحدی علاقے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ اب جبکہ ہماری 40 سالہ افغان پالیسی کا بے ہنگم ٹرک اُلٹ گیا ہے۔ افغان طالبان کو پر لگ گئے ہیں۔ کابل میں تمام مقتدر گروپ ہمارے خلاف ہیں اور بجائے اس کے کہ افغانستان ہماری سلامتی کی پشت بنتا، وہاں بھارت براجمان ہو چکا ہے اور ہمارے سابقہ سرپرست امریکہ کی سرپرستی میں۔ افغانستان کے راستے بنا ہمیں وسطی ایشیا تک رسائی ملنے سے رہی اور افغان صدر اب سی پیک میں شرکت اور پاکستان کو راہداری دینے کے لئے واہگہ کے راستے دو طرفہ تجارت کے لئے راہداری چاہتے ہیں، جبکہ امریکہ سی پیک کے خلاف بھارت کو جنوبی ایشیا میں ایک متبادل راستے کی تعمیر پر اُکسا رہا ہے۔ امریکہ بحرہند اور بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے توڑ کیلئے بھارت کی ہر طرح کی حربی و تزویراتی مدد کے لئے تیار ہے۔ کھیل بدل گیا ہے اور کھلاڑیوں کا کردار بھی اور ہم ایل بی ڈبلیو ہو کر پویلین پہنچ چکے ہیں۔ اور اب نگاہیں چین پر ہیں یا پھر روس کے ساتھ خیالی پینگیں۔
امریکہ کا مسئلہ افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانا ہے اور کوئی ایسا انتظام کرنا ہے کہ پھر سے یہ بین الاقوامی پہنچ کی دہشت گردی کا مرکز نہ بن پائے۔ امریکہ کو ہماری ضرورت بس اب اتنی ہی ہے۔ البتہ، امریکہ کو یہ پتہ ہے کہ پاکستان اُس کے لئے اس کام میں بہت ضروری ہے جبکہ ایران سے اُس کا ٹکراؤ برقرار ہے اور یہی ہمارا لیوریج بھی ہے۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جتنا عرصہ ممکن ہو اور جس حد تک ہماری اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے ضروری ہو ہم امریکہ کی یہ ضرورت پوری کرتے رہیں۔ افغان طالبان کی فوجی فتح ہمارے قطعی مفاد میں نہیں، نہ ہی افغانستان کے انتشار کا ہمیں کوئی فائدہ ہے۔ واشنگٹن راضی ہوا تو کابل بھی راضی۔ اور افغانستان کو پاکستان اور ایران کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ضرورت بھی اگر پوری کی جائے تو کابل کے حکمرانوں کے دلّی والوں سے جپھوں کی گرمجوشی کم کی جا سکتی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ بھارت سے ہمارے تعلقات کا ہے۔ ہم اسے کشمیر سے جوڑتے ہیں اور اپنی سلامتی کو کشمیر کی شہ رگ میں تلاش کرتے ہیں، جبکہ کشمیری ایک زندہ جاوید قوم بن چکے ہیں اور اپنا مستقبل طے کرنے میں کافی خودمختار بھی۔ اُنہیں ہمارے جہادیوں کی ضرورت ہے نہ بھارت کے پاس اُن کے زخموں کے لئے کوئی مرہم۔ کشمیریوں کے انسانی حقوق کے لئے ہماری آواز بھی تبھی موثر ہو سکتی ہے جب ہماری بُکل سے جہادی برآمد نہ ہوں۔ ہماری زیادہ فکر ہمارا اپنا ملک ہونا چاہیے۔ بھارت کو بھی بحیرۂ عرب یا وسطی ایشیا تک پہنچنے کے لئے پاکستان کی راہداری یا پھر بندرگاہیں بالخصوص گوادر پورٹ چاہیے، جسے چابہار کی جڑواں بہن بننا ہی ہے۔ ہمیں بھی بھارت کی منڈی چاہیے اور بھارت کو بھی وسطی ایشیاتک پہنچ چاہیے۔ بھارت اور چین کے درمیان نئی علاقائی محاذ آرائی کے باوجود، وسیع تر تجارتی تعلقات ہیں اور چین بھارت کو ون روڈ ون بیلٹ کا حصہ بنانے کو بے چین ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ بھارت اپنے تجارتی مفادات کو سب سے اوپر رکھے گا اور ہماری طرح شاید امریکہ کا پٹھو نہ بنے۔ اب بھارت سے ہماری ہمہ طرفہ مقابلہ بازی کا زمانہ بھی لد گیا ہے۔ نہ ہی ہماری سلامتی کو ایٹمی ڈھال کی موجودگی میں اب بھارت سے کوئی بڑا خطرہ ہے، سوائے سرحد پار سے دو طرفہ چھوٹی موٹی جھڑپوںکے۔ بہتر ہوگا کہ امریکہ اور افغانستان سے معاملات اس طرح طے ہوں کہ بھارت کو وہاں ہمارے خلاف فوجی اڈہ نہ ملے۔ ویسے بھی افغانستان میں کس کا فوجی اڈہ چلا ہے؟ جو ہم نے کھا کمایا، بھارت کھا کما لے۔ افغانستان کے بھاڑ میں بھاڑ جھونکنا سب کو مبارک۔ ہم اس سے خود کو محفوظ رکھیں۔ وہ ہمارے دشمنوں سے نمٹیں، ہم اُن کے دشمنوں سے، اسی میں افغانستان اور پاکستان کی بہتری ہے۔
بات خواجہ آصف کی چٹخارے دار سفارت کاری سے چلی تھی اور پہنچی ہے امریکہ اور بھارت کے خطے میں فوجی و معاشی اتحاد پر۔ نئی حقیقتوں کا سامنا، نئی حکمتِ عملی اور مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ پرانی اور گھسی پٹی پالیسی پر اصرار اور وہ بھی پرانے بے ڈھنگے طریقوں سے اور اُس پر مختلف نتائج کے حصول کا اصرار۔ اس پر تو سر پیٹا ہی جا سکتا ہے، دُعائے مغفرت کی کیا ضرورت۔ پرانی تذویراتی خواہشوں اور چھوٹی موٹی چالاکیوں سے کام چلنے والا ہے، نہ ہی خواجہ صاحب کے سفارتی چٹکلے کام آنے والے ہیں۔ جی ہاں! پھر سے سوچنے کا وقت ہے اور اپنے مقام و حیثیت کے پھر سے تعین کی ضرورت۔

تازہ ترین