• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہادر و باہمت بے نظیر بھٹو شہید کے نام پر اقتدار کے سنگھاسن پر جا پہنچنے والےکتنے ’بہادر‘ ہیںاس کا اظہار تو گاہے گاہے کوچہ سیاست میں ہوتا رہا ہے لیکن گزشتہ روزایسی ایک فلم نے تو کھڑکی توڑ رش لیا۔عوام کے پونے چھ ارب روپے لوٹنے کے ملزم شرجیل میمن کی بدحواسی، منتوں اور بوکھلاہٹ کو سینکڑوں عینی شاہدین اور ٹی وی اسکرین کے توسط سے ایک جہاں نے دیکھا۔دلچسپ مرحلہ وہ تھا جب شرجیل صاحب کے سامنے نمبر بڑھانے کی خاطر آئے حواری ضمانت مسترد ہونے کے بعد قانون کے بڑھتے ہوئے قدم دیکھتے ہی نو دو گیارہ ہوگئے۔ ہاں سچے جیالے جیدار تھے، مگر وہ بھی شرجیل صاحب کے گریبان چاک ہونے کا سبب ہی بن بیٹھے۔ کراچی کی عدالتوں میں وکلا کی خود ساختہ روایت یہ ہے کہ وہ ضمانت مسترد ہونے پر بھی ملزم کو احاطہ عدالت سے گرفتار ہونے نہیں دیتے۔ یہاں بھی یہیں روایت چل پڑتی تاہم وکلا کی غالب اکثریت نے اس حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ موقر اخبارات میں چھپی یہ خبر آپ نے پڑھی ہوگی کہ ایک سینئر وکیل نے باقاعدہ خطاب کیا ، اُن کے ارشادات عالیہ تو اتنے جارحانہ تھے کہ ہم یہاں رقم نہیں کرسکتے ، مفہوم کچھ یو ں تھا کہ یہ نام نہاد عوامی رہنما اقتدار میں آکر غریب عوام کے اربوں روپے لوٹتے ہیں اور بزدل اتنے ہیں کہ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں تو ان کی بدحواسیاں قابل دید ہوتی ہیں۔ ایسے لٹیرے قوم کی رہنمائی کیا کریں گے۔ اگلے روز یہ طالب علم سٹی کورٹ گیا۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے انتخابات چونکہ قریب ہیں اس لئے جگہ جگہ وکلا کی ٹولیاں موجود تھیں۔موضوع مگر انتخابات سے زیادہ شرجیل صاحب کے چہرے کی اُڑتی ہوائیاں ہی تھیں۔بے باک کالم نگار حسن مجتبیٰ نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ’’ یہ کہانی بھی ہے کہ بلائول بھٹو کی ایک فرمائش پوری نہ کرنے پر شرجیل کو پھنسایا گیا ہے‘‘ جبکہ ایک خبر کے مطابق سابق وزیر اطلاعات کا کہنا یہ ہےکہ اُ نہیں قربانی کا بکر ا بنایا گیا ہے۔وجوہات جو بھی ہوں ، عوام بہر کیف سامنے کے منظر سے خوب محظوظ ہوئے ۔
گزشتہ روز جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے فرمایا کہ انتخابات سے پہلے احتساب کا عمل مکمل کیا جائے لیکن یہ انتخابات کے التوا کا جواز نہ ٹھہرے۔ مختلف شعبوں کے صاحب الرائے اصحاب میں جناب سراج الحق صاحب کی تجویز سے اتفاق پایا جاتاہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ احتساب کے بغیر اگر انتخابات ہو گئے تو وہ حکمران طبقات پھر آجائیں گے جن میں کوئی چھوٹا چور ہے، کوئی بڑا چور ہے اور کوئی مرغی چور ...(مرغی چور کی اصطلاح سیاسی جماعتوں کےاُن چھوٹے عہدیداروں کیلئے استعمال ہوتی ہے جو بچاکھچا کھا کر مست رہتے ہیں )
خیر ان دنوں تمام حلقوں میں یہ خیال راسخ ہوچکا ہے کہ موجودہ احتسابی نظام اتنا طاقتور ہے کہ وہ بے لاگ احتساب کے تمام جوہر رکھتا ہے۔ یہ حلقے اس کے لئے میاں نواز شریف صاحب کی مثال دیتے ہیں، جن کے پورے خاندان کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کردیا گیا ہے۔ مگر ایسے حلقوں کی غالب اکثریت پاکستانی سیاست کے بعض جانے پہچانے لٹیروں کی آزاد دنیا میں مے وماہ تاباں سے جب بے باکی دیکھتے ہیں تو شفافیت کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ گویا احتسابی عمل کےحوالےسے بعض حلقے لعن طعن کرتے ہیں، کوئی خاموش رہتا ہے اور کوئی جھوم اُٹھتا ہے۔
محتسب کی خیر، اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا، ساقی کا، مے کا، خم کا، پیمانے کا نام
کہا جاتا ہے کہ زرداری صاحب نے وقت پر انتقال اقتدار کیا اب اس طرح کا دوسرا مرحلہ بھی کامیابی سے مکمل ہونے پر جمہوریت کو تقویت ملے گی۔ سوال مگر یہ ہے کہ کون سی جمہوریت کو تقویت ملے گی یہ واضح نہیں! کیونکہ جمہوریت تو اکثریت کا نام ہے اور ان دو ادوار میں تو غربت، بھوک اور بیماری کی وجہ سے اکثریت کے لئے زندگی ہی بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔گویا بقول فیض صاحب
زندگی کیا ہے کسی مفلس کی قبا ہے جس میں 
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
گزشتہ روزقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کی ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا کہ دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں پاکستانیوں نے ساڑھے 8کھرب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کمیٹی کو ایف آئی اے حکام نےبتایا کہ ایف آئی اے کراچی 2015میں یواے ای میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنیوالے تین پاکستانیوں کی انکوائر ی کر رہی ہے ۔آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ تین افرادساڑھے 8کھرب روپے ملک سے باہر لے گئے اور غریب ملک کا یہ پیسہ جمہوری دور میں ہی باہر گیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جب ابن الوقت جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو وہ عوام کو بھول جاتی ہیں،لیکن جب ایسی جماعتوں کو بے آبرو ہوکر ایوان اقتدار سےنکال باہر کیاجاتاہے، تو وہ چاہتی ہیں کہ عوام اُن کیلئے سڑکوں پر آکر لاٹھیاں کھائیں....سچ یہ ہے کہ سیاستدانوں کے لاٹ کے لاٹ نے ہر نازک موقع پر خود کو نااہل ہی ثابت کیا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ملک آج ایک بار پھر غیر یقینی کی صورت حال سے دو چار ہے۔بعض حلقے سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ سوال مگر یہاں یہ پیدا ہوتا ہے ان کے ’داخلے‘ کے لئے یہ راستہ کون ہموار کرتا ہے۔ کیا آج یہ تاثر عام نہیں ہے کہ جہاں تحریک انصاف کسی کی بی ٹیم ہے تو پیپلز پارٹی نے بھی متعدد امور پر ڈیل کر رکھی ہے۔ یہ عام طورپر کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کی مخالفت اور بی بی کے مقدمہ قتل کے فیصلے پر خاموشی کے عوض پیپلز پارتی کے ’بڑوں‘ کی بڑی مرادیں پوری ہو گئی ہیں۔
آج جہاں ٹیکنو کریٹ حکومت کی بات ہورہی ہے تو وہاں یہ سوال بھی برسرعام ہے کہ کیا نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں سمیت متعدد دیگر امور بروقت پایہ تکمیل تک پہنچ پائیں گے۔ خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہوسکے تو اس کا دوش کس کو دیا جائے گا.....ایک ہنگامہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کو یہ شک ہوا ہے کہ ان سے کام لینے والے اپنا کام لے چکے۔ اسی لئے وہ صبح شام کہتے پھرتے ہیں کہ نئے این آر او کے خلاف سڑکوں پر آئیں گے۔ دوسری طرف سنجیدہ حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ طاقتور حلقے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے سنجیدہ امیدواروں میں شمار نہیں کرتے، بنا بریں میاں صاحب کے جاننے کی صورت میں شہباز شریف بہتر انتخاب ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں دیگر صورتوں پر غور ہوگا جو بہر صورت سیاسی صورتیں نہ ہوں گی۔ باالفاظ دیگر اقتدار پرست سیاستدانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا یا ہونے جارہا ہے یہ ان کی کارستانیوں ہی کا نتیجہ ہے۔حیران کن امر مگر پھر بھی یہ ہے کہ انہیں جمہورت کی نہیں ،صرف اپنی فکر ہے ،حالانکہ فیض صاحب تنبیہ کرر ہے ہیں۔
پاپوش کی کیا فکر ہے، دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

تازہ ترین