• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کے صدر زی جن پنگ نہ صرف چین بلکہ دنیا کے انتہائی طاقتور رہنما بن کر سامنے آئے ہیں ۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 19 ویں نیشنل کانگریس نے انہیں اگلی مدت کے لئے پارٹی سیکریٹری جنرل اور چین کا صدر منتخب کیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کے معاملات چلانے والی سب سے بااختیار ’’پولٹ بیورو‘‘ (Politburo) کے نئے منتخب ارکان میں کوئی بھی ایسا رہنما نہیں ہے، جو مستقبل میں زی جن پنگ کی جگہ لے سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 64 سالہ زی کافی دنوں چین کی قیادت کرتے رہیں گے ۔ چین کے ثقافتی انقلاب کے بانی اور عظیم رہنما ’’ ماؤزے تنگ ‘‘ کے بعد زی سب سے زیادہ طاقتور رہنما بن کر ابھرے ہیں اور وہ ایسے وقت میں چین کی قیادت کر رہے ہیں ، جب چین غیر معمولی عالمی کردار ادا کرنے کی تیاری کر چکا ہے اور اس کو ہی نئی دنیا تعمیر کرنی ہے ۔ وہ ایک dynamic, thinking اور pragmatic رہنما ہیں۔
18 تا 24 اکتوبر 2017 کو بیجنگ کے عظیم عوامی ہال میں منعقد ہونے والی چینی کمیونسٹ کی 19 ویں کانگریس کے فیصلوں کے بعد مغرب نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ چین میں ایک شخص کا راج قائم ہو چکا ہے ۔ یہ تاثر درست نہیں ہے ۔ کمیونسٹ پارٹی اپنا لیڈر منتخب کرنے کے لئے کئی مراحل سے گزرتی ہے ۔ کمیونسٹ پارٹی میں تقریباً 9 کروڑ ارکان ہیں ۔ وہ مقامی اور صوبائی تنظیموں میں اپنے نمائندے بھیجتے ہیں ۔ یہ تنظیمیں نیشنل کانگریس میں اپنے 2280 مندوب بھیجتی ہیں ۔ یہی مندوب پولٹ بیورو کے ارکان، پارٹی اور حکومتی لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں ۔ یہ انتخاب آنکھیں بند کرکے نہیں کیا جاتا ۔ جو شخص زی جن پنگ کی منزلت حاصل کرتا ہے ، وہ بلا شبہ انتہائی غیر معمولی شخص ہوتا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اوپر سے نیچے تک مباحثے کا ایک نظام وضع کر رکھا ہے ۔ 19 ویں کانگریس کی تیاری ایک سال پہلے 2016 سے شروع ہو گئی تھی ۔ کانگریس ہر پانچ سال بعد منعقد ہوتی ہے ۔ ان پانچ سالوں میں دنیا اور خود چین میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں ؟ چین کے عوام کے سماجی ، معاشی ، سیاسی اور نفسیاتی حالات کیا ہیں ؟ تبدیل شدہ حالات میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کا نیا منشور کیا ہونا چاہئے اور حکومت کو داخلی اور خارجی پالیسیوں میں کیا تبدیلی کرنا چاہئے ۔ ان تمام سوالات پر پارٹی کی نچلی سطح کی تنظیموں سے لے کر اوپر تک تمام تنظیمیں دستاویزات مرتب کرتی ہیں ، جنہیں پارٹی دستاویزات کہا جاتا ہے ۔ یہ دستاویزات حالات کا سائنسی اور جدلیاتی مادیت کے اصولوں کے تحت تجزیہ کرکے مرتب کی جاتی ہیں ۔ کانگریس کے انعقاد سے قبل پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کو یہ دستاویزات موصول ہوتی ہیں ۔ ان کے مطالعے کے بعد پارٹی کا نیا منشور مرتب کیا جاتا ہے تاکہ نئے تقاضوں کے تحت معاملات کو چلایا جا سکے ۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی اوپر سے نیچے تک ہر تنظیم ایک تھنک ٹینک ہے ۔ پارٹی کی حتمی دستاویز اور اس کی روشنی میں تیار کردہ پارٹی کا نیا منشور پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کو سمجھنا کس طرح چاہئے ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی نے زی جن پنگ کی آئیڈیالوجی کو پارٹی کے نئے منشور کا حصہ بنا لیا ہے ۔ یہ آئیڈیالوجی ’’ نئے عہد میں چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم ‘‘ سے متعلق ہے ۔ زی کی آئیڈیالوجی کو پارٹی منشور میں شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی نے زی کے وژن کو قبول کر لیا ہے اور اس لئے انہیں اگلی پانچ سالہ مدت کے لئے اپنا لیڈر منتخب کیا ہے ۔ ماؤزے تنگ کے بعد زی پہلے لیڈر ہیں ، جن کے تصورات کو نام کے ساتھ پارٹی منشور کا حصہ بنایا گیا ہے ۔ اس سے زی جن پنگ کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 19 ویں کانگریس کے فیصلے بہت اہم ہیں ۔ ایک فیصلہ یہ کیا گیا کہ چینی خصوصیات والے سوشلزم کو مضبوط کیا جائے گا اور ’’ سوشلسٹ ماڈرنائزیشن ‘‘ کے تحت چین کی سماجی اور معاشی ترقی کے اہداف حاصل کئے جائیں گے ۔ کانگریس نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ اب چین مزید اور پائیدار عالمی کردار ادا کرے گا ۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے ’’ مارکسزم ‘‘ کا ایک راز پالیا ہے ۔ وہ راز یہ ہے کہ مارکسزم انسانی سماج کی سائنس ہے اور انسانی سماج میں رشتے اور اقدار بدلتی رہتی ہیں ۔ لہذا بدلے ہوئے حالات میں یہ سائنس بھی تبدیل ہوتی ہے ۔ اس تبدیلی کے بھی سائنسی اصول ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک مارکسی اور سوشلسٹ سماج کے تقاضے بھی تبدیل ہوتے ہیں ۔ ہر سماج کی اپنی تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخی خصوصیات ہیں ، جو اسے دوسرے کسی سماج سے منفرد کرتی ہیں ۔ اس راز کو پالینے کی وجہ سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کا تقریباً سات دہائیوں سے اقتدار قائم ہے بلکہ آج چین پوری دنیا کو اپنے اثر میں لینے کے لئے تیار ہے ۔ آج کا چین 1949 کے انقلاب کا تسلسل ہے ۔ دنیا میں کئی نظام ختم ہو گئے لیکن یہ تسلسل نہیں ٹوٹا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی نے انسانی سماج کو جامد تصور نہیں کیا ۔
زی جن پنگ جدید چین کے معمار ہیں اور انہوں نے نئی دنیا کی تشکیل کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی ہے ۔ ماؤزے تنگ کے طاقتور اور مقبول ہونے کے حالات اور اسباب مختلف تھے ۔ تازہ انقلاب کی وجہ سے لوگ جذباتی طور پر ان کے ساتھ تھے اور دنیا صرف دو بلاکس میں تقسیم تھی ۔ اشتراکی اور سرمایہ دارانہ بلاکس کی یہ تقسیم نظریاتی بنیاد پر تھی ۔ اب صورت حال بہت مختلف ہے۔ چینی عوام پہلے والے رومانس میں نہیں ہیں، جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا میں اب معاشی مفادات کا ٹکراؤ انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کر چکا ہے ۔ زی جن پنگ کے وژن کو نہ صرف کمیونسٹ پارٹی نے تسلیم کیا ہے بلکہ جدید چین کی تعمیر اور چین کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار نے چینی عوام میں ایک بار پھر رومانویت پیدا کردی ہے ، جو درمیانی عرصے میں کسی حد تک کم ہو گئی تھی ۔ چین کے ون بیلٹ ون روڈ ( ایک پٹی ایک شاہراہ ) کے تصور نے ساری دنیا کو اپنی طرف راغب کیا ہے ۔ پوری دنیا یہ محسوس کر رہی ہے کہ اسے اس ون بیلٹ ون روڈ کے عظیم ترین عالمی منصوبے سے فائدہ ہو گا ۔ ایشیا ، افریقا ، یورپ، اور لاطینی امریکہ کے اکثر ممالک سے یہ روڈ گزرے گا اور دنیا کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی اسی روڈ سے جڑی ہو گی ۔ اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے چین کو بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ دیگر عالمی طاقتوں کی مخالفت کے ساتھ ساتھ چین کے داخلی مسائل سے بھی نمٹنا ہوگا ۔ زی جن پنگ نے نہ صرف نیا وژن دیا بلکہ انہوں نے چین میں کرپشن کے خاتمے کے لئے ایسے اقدامات کئے ، جو کوئی دوسرا ملک یا حکمراں نہیں کرسکا ۔ کرپشن ثابت ہونے پر وزرا، کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنماؤں اور بیورو کریٹس سمیت سینکڑوں اہم لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔انہوں نے ایک نظریہ ساز کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ایک اچھے منتظم کے طور پر بھی تسلیم کرایا ہے ۔ ان کی دانش اور ان کی صلاحیت کئی آزمائشوں پر پوری اتری ہو گی ، تبھی وہ اس منزل پر پہنچے ہیں ۔ چین جس طرح ایک غیر معمولی عالمی کردار ادا کرنے جا رہا ہے ، اس میں زی جن پنگ جیسے مضبوط رہنما کی نہ صرف چین بلکہ دنیا کو بھی ضرورت ہے ۔
زی جن چنگ کی جدوجہد اور جدید چین کو ایک عالمی طاقت بنانے میں یہ بیانیہ ہے کہ کوئی بھی ملک یا معاشرہ ایک جامد معاشرہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی جامد سائنس اور فلسفہ اس کی تعمیر کر سکتا ہے اس کے لئے آج کی بدلتی ہوئی دنیا کا ادراک ہونا چاہئے۔ اپنے عوام کے سماجی، معاشی، سیاسی اور نفسیاتی حالات کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اپنی داخلہ، خارجہ پالیسی کو ارد گرد کے حالات، خطے کے حالات اورعالمی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے اپنے ملک کے معروضی حالات کا تجزیہ کرنا چاہئے۔ اپنے عوام کو تعلیم، علاج اور لا اینڈ آرڈرمہیا کرنا چاہئئے۔ کوئی معاشرہ competentاور میرٹ، کرپشن سے پاک اور قانون کی بالا دستی پر ہی قائم رہ سکتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی پارٹی میں تحریک ہونی چاہئے۔ ہماری یہاں پارٹی کارکنوں کا تعلق ووٹ دے کر اور الیکشن کے بعد رابطہ ختم ہو جاتا ہے اور فیصلہ صرف ہوا میں معلق لوگوں سے کٹی ہوئی پارلیمان بغیر کسی consensus کے اکژیتی بنیاد پر کرتی ہے۔

تازہ ترین