• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتے ورلڈ STROKEڈے منایا گیا STROKE کو آپ فالج کا حملہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ویسے تو ہمارا پورا معاشرہ اور حکومت فالج زدہ ہے جہاں ہر محکمے اور ہر سطح پر کرپشن کا بازار گرم ہو اور معاشرہ خاموش رہے تو اس کو ہم فالج زدہ معاشرہ ہی کہیں گے ۔روزانہ کا اخبار اٹھا کر دیکھیں کوئی چینل لگا کر دیکھیں ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے ۔اب تو بعض خواتین بیوروکریٹ اور مختلف محکموں میں کام کرنے والی خواتین بھی اس میدان میں مردوں سے آگے نظر آ رہی ہیں ۔ خیر اس پر پھرکبھی بات کریں گے کرپشن اوپر سے نیچے آتی ہے اور پیسہ نیچے سے اوپر جاتا ہے سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے بیماریاں ہیں ،اولاد نہیں زندگی اورموت کے درمیان فاصلہ کم ہو چکا ہے مگر لوٹ مار کا بازار گرم ہے آتے ہیں اصل موضوع کی طرف ہم نے پچھلے ہفتے بتایا تھا کہ بچے اسپتالوں کے باہرپیدا ہو رہے ہیں اس پر محکمہ صحت کے پی آر او نے جس طرح محکمے کا دفاع کیا اس پر ہمیں حیرت ہوئی کہ انہیں تو وکیل ہونا چاہئے تھا ہمارا ان کو مشورہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعدآپ محکمہ صحت کے وکیل /میڈیا کے مشیربن جائیے گا ۔میڈیا کچھ کہتا رہا مگر آپ اپنے دلائل دیتے رہے ا سٹروک یعنی فالج ایک ایسا مرض ہے جس کے بعد انسان نہ زندوں میں رہتا ہے اور نہ مردوں میں، زندگی کی ساری مصروفیت صرف چند منٹ میں ختم ہو جاتی ہیں اور انسان آسمان سے زمین پر آ جاتا ہے ۔فالج کے حملے کے بعد ابتدائی تیس منٹ انتہائی اہم ہوتے ہیں جو مریض کی آئندہ کی صحت اور زندگی کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔دس منٹ میں ڈاکٹر کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ یہ مریض اسٹروک کا ہے د ل کا نہیں۔
ہیلتھ کی سہولتوں کی باتیں کرنے والی حکومت سے عرض ہے کہ پورے پاکستان میں صرف دو سونیورو فزیشنز یعنی ماہر اعصاب و پٹھہ ہیں جن میں پنجاب میں صرف 50کے قریب ہیں بارہ کروڑ کے صوبے میں 50نیوروفزیشنز ہیں اور باقی 150کو آپ صوبہ سندھ ، کے پی کے، بلوچستان، گلگت، ا سکردو اور آزاد کشمیر میں تقسیم کرلیں۔ گلگت اور ا سکردو میں ایک بھی نیوروفزیشن نہیں۔ دوسری طرف فالج کے مرض میں شدت سے اضافہ ہو رہا ہے ہر سال ہزار وںنئے مریض سامنے آ رہے ہیں ۔
ابھی حال ہی میں ایک عزیز دوست بلال ظفر کی والدہ محترمہ وکٹوریہ اسپتال بہاولپور میں فالج کے اٹیک کی وجہ سے داخل ہوئیں ،وہاں کے حالات جو انہوں نے بیان کئے سن کر بہت دکھ اور افسوس ہوا وہاں کوئی سمجھ دار اور مناسب ڈاکٹر نہیں مل سکا اور کچھ عرصے بعد وہ بے چاری اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔اس دکھ اور تکلیف کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کے ساتھ یہ واقعہ بیت چکا ہو۔
ہمارے ملک میں اس وقت جس قسم کا گھی اور کھانے پینے کی اشیا فروخت ہو رہی ہیں وہ اسٹروک کا باعث بن رہی ہیں ۔ورزش نہ ہونے کے برابر ہے چھوٹے شہروں کو تو چھوڑیئے بڑے شہروں میں بھی آپ کو نیوروفزیشنز نہیں ملتے ۔نیوروسرجن ڈماغ کی سرجری کرتے ہیں اور نیوروفزیشن ادویات اور ورزش کے ذریعے علاج کرتے ہیں اس میں اعصاب و پٹھہ، فالج اور کئی دیگر بیماریاں شامل ہیں ۔اب اس فیلڈکی ایک اور برانچ انٹرونیشنل نیورولوجی میں پاکستان کے پہلے ڈاکٹر آئے ہیں جو معروف نیوروسرجن پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد مرحوم کے صاحبزادے ہیں ڈاکٹر قاسم بشیر پاکستان کے پہلے انٹرونیشنل نیورولوجسٹ ہیں ۔سوال یہ ہے کہ 22کروڑ کی آبادی کےلئے صرف دو سو نیوروفزیشنز ہیں چھوٹے میاں صاحب کبھی آپ نے سوچا ہے کہ پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں جب کسی کو ا سٹروک ہوتا ہو گا تو وہ بے چارہ کیا کرتا ہو گا ؟
لاہور کی دو کروڑ آبادی کے لئے صرف سات ماہر اعصاب و پٹھہ ہیں، ان سات ڈاکٹروں پر مریضوں کا جو دبائو ہے وہ ناقابل بیان ہے یہ ڈاکٹرز صبح سے دوپہر تک اپنے سرکاری اسپتالوں میں غریب مریضوں کے علاج وارڈ کے رائونڈ اور آئوٹ ڈور میں مصروف رہتے ہیں اور رات گئے اسٹروک وغیرہ کے پرائیویٹ مریضوں کو دیکھتے رہتے ہیں ۔دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے آج تک شعبہ صحت میں کوئی ایسا ٹیکنوکریٹ نہیں آیا جو شعبہ صحت کی ترجیحات کا تعین کر سکے اور اس کا قبلہ درست کر سکے۔
حکومت پنجاب نے 2012میں پنجاب سیلز ٹیکس کے حوالے سے ایک نیا ٹیکس متعارف کرایا تھا یہ ٹیکس مختلف خدمات کے حصول پر لگایا گیا تھا بعدازاں اس ٹیکس کو پلاسٹک سرجنز پر بھی لگا دیا گیا اس کی شرح 16فیصد ہے پلاسٹک سرجن جو کہ بنیادی طور پر ڈاکٹرز ہوتے ہیں اور پھر کسی ایک فیلڈ میں مہارت حاصل کرتے ہیں جس طرح جنرل سرجن، کارڈیک سرجن، آرتھوپیڈک سرجن، پیڈیاٹرک جنرل سرجن ای این ٹی سرجن وغیرہ ۔
پلاسٹک سرجن آگ ،پانی اور تیزاب سے جل جانے والے لوگوں کی سرجری کرتے ہیں اور ان کا رول اس وقت بھی شروع ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی حادثے میں زخمی ہو جائے اور اس کی ہڈی ٹوٹ کر جلد میں گھس جائے۔ یہاں پر آرتھو پیڈک سرجن اور پلاسٹک سرجن دونوں کام کرتے ہیں لیکن کتنی دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ پلاسٹک سرجن اگر پرائیویٹ طور پر ایسا کیس کرے گا تو اس کو 16فیصد سیل ٹیکس دینا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ پلاسٹک سرجن یہ ٹیکس مریض سے وصول کرے گا اور حکومت کے خزانے میں جمع کرا دے گا یعنی مریضوں سے ٹیکس وصول کرو اور حکومت کو دو۔ آیئے کچھ تلخ حقائق بیان کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال نو ہزار بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جن کے پیدائشی طور پر ہونٹ اور تالو کٹے ہوتے ہیں جن کی سرجری پلاسٹک سرجن کرتا ہے اور جن بچوں کے ہونٹ اور تالو کٹے ہوئے ہوں ان کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں صرف 140پلاسٹک سرجنز ہیں اور سرکاری اسپتالوں میں سالانہ صرف دو ہزار ہونٹ اور تالو کٹے بچوں کی سرجری ہوتی ہے اور باقی سات ہزار بچے یا تو پرائیویٹ طور پر سرجری کراتے ہیں ، اگر وہ افورڈ کرتے ہوں یا پھر زندگی بھر اسی طرح رہتے ہیں۔اب جو مریض بچہ جس کی سرجری سرکاری اسپتال میں نہیں ہوسکتی وہ جیسے تیسے کرکے پرائیویٹ طور پر جب سرجری کرائے گا اس کو 16فیصد سیل ٹیکس بھی دینا پڑے گا۔
بجائے اس کے حکومت ہونٹ تالو کٹے، تیزاب ، پانی ،بجلی اور آگ سے جل جانے والوں کو علاج معالجےکی سہولتیں دیتی ان کے لئے مزید سینٹرز بنائے جاتے یا پھر پرائیویٹ سیکٹر میں سہولتیںفراہم کرتی، ایسے بچوں اور زخمیوں کے علاج کے اخراجات برداشت کرتی، حکومت سرکاری اسپتالوں میں صرف دو ہزار بچوں کو علاج کی سہولیات فراہم کررہی ہے جبکہ تیزاب گردی ، بجلی اور آگ سے جل جانے کے واقعات بھی روزانہ ہو رہے ہیں۔اب پیدا ہونے والا یہ سوچ کر دنیا میں آئے کہ اگر اس کا ہونٹ اور تالو کٹا ہوا ہے اور اس کے والدین افورڈ نہیں کرسکتے تو پھر وہ پیدا ہونے سے انکار کردے ، پھر اس کے ساتھ کوئی حادثہ بھی پیش آسکتا ہے۔پاکستان میں سالانہ 9لاکھ افراد آگ ، پانی ،بجلی اور تیزاب سے جل جاتے ہیں ۔
اب پنجاب ریونیو اتھارٹی پچھلے کچھ دنوں سے پلاسٹک سرجنوں کے خلاف بہت متحرک ہوگئی ہے اور پلاسٹک سرجنوں کومختلف طریقوں سے پریشان کیا جا رہا ہے اب اس تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں، آپ پلاسٹک سرجنز پر ٹیکس لگا رہے ہیںجبکہ ہارٹ سرجن، جنرل سرجن، ای این ٹی سرجن اور دیگر شعبوں کے ڈاکٹروں کو کچھ نہیں کہہ رہےحالانکہ ہارٹ اور آرتھوپیڈک سرجنز اس وقت سب سے زیادہ کمارہے ہیں۔ پھر پلاسٹک سرجنز کو بیوٹی پارلر/ سیلون والوں کے ساتھ منسلک کرنا بھی زیادتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان اور بھارت میں منہ کا سرطان وبائی صورت اختیار کر گیا ہے اور سائوتھ ایشیا میں پاکستان اور بھارت اس سرطان میں پہلے نمبرپر ہیں، منہ کے اس سرطان کی سرجری بھی پلاسٹک سرجن کرتے ہیں۔
پاکستان دنیا کا چوتھا ملک ہے جہاں ہونٹ /تالو کٹے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے نمبر پر چین، دوسرے پر بھارت، تیسرے پر انڈونیشیا اور پانچویں نمبر پر امریکہ ہے۔

تازہ ترین