• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں قدرتی موسم قدرے بدلنا شروع ہوا ہے لیکن ایسے لگتا ہے ٹھنڈے موسم کے باوجود سیاسی موسم میں گرما گرمی بڑھتی جائے گی۔ اس وقت اسلام آباد میں جو خاموشی محسوس کی جارہی ہے اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ کہانی ضرور ہے، بس اس کے لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ پاکستان کو مزید عدم استحکام کی صورتحال سے نکالے۔ اس لئے کہ اندرون ملک کے بعد اب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے کہ دنیا دن بدن ترقی کی طرف گامزن ہے اور ہم تنزلی کی طرف۔ سب سے مشکل صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد میں مقیم سفارتی حلقوں میں بھی پاکستان کے حوالے سے معاملات مثبت سے زیادہ منفی انداز میں زیر بحث ہیں۔ اس میں ہمارے بعض اپنوں کا کردار بڑا اہم ہے جو مختلف نجی محفلوں میں اپنے ہی ملک کے خلاف نواز شریف حکومت اور زرداری حکومت کے کرپشن اور دیگر گھپلوں کا تذکرہ کرتے کرتے پاکستان کو مستقبل قریب میں مزید مشکلات سے دو چار کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں سفارتکاروں کی یہ خوبی ہے کہ مختلف مواقع پر اردو زبان جاننے اور سمجھنے کے باوجود یہ تاثر دیتے ہیں کہ انہیں انگریزی یا یورپی زبان اور لہجے میں بات کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا لیکن ہمارے ماہرین اور دیگر اشخاص کوپتہ نہیں کیا کچھ کہہ جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ پچھلے کئی سالوں سے چلتا آرہا ہے۔ ایک زمانے میں بھارتی سفارتخانے میں یہ کچھ ہوتا تھا اور اب اس کا سلسلہ دیگر جگہ پر بھی بڑھتا جارہا ہے، مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ نواز شریف حکومت کی کچھ اقتصادی شعبوں میں بہتری کے اقدامات کے باوجود نجانے کیا کیا قصے کہانیاں سامنے آرہی ہیں، مگر اس سے ہٹ کے اصل ایشو زرداریوں ا ور نواز شریف حکومت دونوں کے ادوار کی کرپشن کے واقعات نے ہر کسی کو پریشان اور متفکر کر رکھا ہے کہ آخر پاکستان میں مکمل اور جامع احتساب کے لئے کیا کچھ مزید کرنا پڑے گا۔ اس وقت تک کے قوانین میں بڑی گنجائش ہے جس کی وجہ سے کرپٹ سے کرپٹ بندہ بھی مکمل قانونی گرفت سے بچ جاتا ہے ۔ ابھی چند روز پہلے ملائیشیا میں کچھ دن گزارے ہیں، وہاں بھی کرپشن کچھ کم نہیں ہے مگر وہاں ادارے موثر بھی ہیں اور انصاف بھی ہے۔ دوسرا یہ کہ وہاں ہر طرح کا بزنس معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ ہوٹل سے لے کر ہر کاروبار چل رہا ہے۔ کرپشن کا وہ درجہ نہیں ہے جو بھارت اور پاکستان میں ہے۔ بھارت تو بہترین میڈیا مارکیٹنگ کے ذریعے اپنی کرپشن اور دوسری خرابیوں کو چھپا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں منفی چیزوں کو اچھالنا معمول بن چکا ہے جس پر ملائیشیا ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک ہر جگہ پر مقیم پاکستانی اس حوالے سے بڑی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا کو بھی قومی سلامتی اور قومی مفاد کے تحت مثبت چیزوں کو زیادہ ہائی لائٹ کرنا چاہئے، جیسا کہ دنیا میں اکثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر جگہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام پر سب ہی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کے خیال میں جلد ہی اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا جاسکا تو عالمی سطح پر پاکستان کو معاشی امور اور قومی سلامتی کے حوالے سے کئی نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ خدا کرے ہم کسی ایسی صورتحال سے دو چار نہ ہوں جس سے پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر نہ تو کوئی سپورٹ کرنے والا ہو اور نہ بات کرنے والا اس کے لئے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی چاہیں تو ان سے کچھ مفید نکات شیئر کئے جاسکتے ہیں۔ بشرطیکہ ان تک رسائی مل سکے، پھر انہیں ان کے والد محترم خاقان عباسی کے ریفرنس سے ملک کو بچانے اور چلانے کے حوالے سے کافی آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ اس کو سننا چاہیں نئے وزیر اعظم کارپوریٹ ورلڈ کے کلچر سے آگاہ ہیں موجودہ صورتحال میں بحران سے نکلنے کے لئے انہیں سیاسی نظام کے کلچر کو بھی بدلنا ہوگا۔ وہ پارٹی کی ترجیحات اور سابق وزیر اعظم کی خواہشات کے برعکس کچھ ایسے اقدامات اور کام کریں جس سے انہیں لوگ یاد کرسکیں اور دوسرا کم از کم وہ تو گارڈ آف آنر کے ساتھ اپنی وزارت عظمیٰ کے دور کا اختتام کرسکیں۔

تازہ ترین