• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج بھی نہیں۔ پھر کبھی میں آپ کو اس شخص کا قصہ ضرور سنائوں گا جو بضد تھا کہ وہ گم ہوگیا ہے یا گم کردیا گیا ہے۔ آج میں آپ سے اپنی لاعلمی کا ذکر کروں گا۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ اس لاعلمی میں مبتلا میں اکیلا نہیں ہوں۔ لاعلمی کی بھول بھلیوں میں آپ بھی میری طرح بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ آپ کو چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ناہی ماتھے پر بل ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت ہے بات سمجھنے کی۔ ٹھیک ہے کہ آپ عاقل اور بالغ ہیں۔ سیانے ہیں۔ پڑھے لکھے ہیں۔ کاروباری ذہن رکھتے ہیں۔ کامیاب بزنس مین ہیں۔ اعلیٰ افسر ہیں۔ پھر بھی ایک لحاظ سے آپ لاعلم ہیں۔ بہتر ہے کہ میں ایک دو مثالیں دوں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ بات سمجھ میں آجائے گی۔ اگر آپ میری طرح افلاطون ہیں اور بدقسمتی سے کسی تنازع میں پھنس جاتے ہیں اور میری طرح عدالتوں میں اپنا مقدمہ خود لڑتے ہیں، تب آپ کو میری طرح منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اس غلط فہمی میں مت رہئے گا کہ آپ نے انگریزی میں ایم اے کیا ہے اور کسی کالج یا یونیورسٹی میں انگریزی پڑھاتے ہیں اور آپ انگریزی میں لکھی ہوئی مشکل سے مشکل کتاب پڑھ سکتے اور سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام کی دو بنیادی کتابیں پاکستان پینل کوڈ Pakistan Penal Code اور کرمنل پروسیجر کوڈ Pakistan Criminal Procedure Code کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ میں آپ کی ایک اور غلط فہمی دور کردوں۔ عدالتی نظام کی دونوں کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ میں لنگڑے گھوڑے پر بھی شرط لگانے کو تیار ہوں کہ آپ اگر اردو میں ایم اے ہیں اور کسی کالج یا یونیورسٹی میں اردو پڑھاتے ہیں ۔ آپ پاکستان کے عدالتی نظام کی دو بنیادی کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہونے کے باوجود مفہوم سمجھ نہیں سکتے۔ پاکستان کے عدالتی نظام کی دو بنیادی کتابیں کرمنل پروسیجر کوڈ اور پینل کوڈ کو سمجھنے کے لئے آپ کے پاس ایل ایل بی کی ڈگری ہونی چاہئے۔ ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ کسی کالج یا یونیورسٹی میں انگریزی نہیں پڑھاتے، آپ اردو نہیں پڑھاتے، آپ تاریخ نہیں پڑھاتے، آپ جغرافیہ نہیں پڑھاتے، آپ سماجی علوم نہیں پڑھاتے، آپ فزکس نہیں پڑھاتے، آپ کیمسٹری نہیں پڑھاتے، آپ پاکستان کے عدالتی نظام کی دو بنیادی کتابیں پڑھا سکتے ہیں، پڑھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں، تب آپ وکیل کہلاتے ہیں۔
مفت کے تنازع میں پھنس جانے کے بعد ہم اپنا مقدمہ خود لڑتے ہیں اور منہ کی کھاتے ہیں۔ منہ کی کھانے کے بعد ہم ایک وکیل کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ پیشہ ورانہ زندگی میں لازمی طور پر درجہ بندی ہوتی ہے بلکہ ہو جاتی ہے۔ جیسے اچھے ڈاکٹر، درمیانے درجے کے ڈاکٹر اور بخشے ہوئے ڈاکٹر جن سے رجوع کرنے کے بعد مریض اللہ سے رجوع کرتا ہے۔ اس طرح انجینئرز میں درجہ بندی ہوتی ہے۔ یہی درجہ بندی ٹیچرز میں نظر آتی ہے۔ اسی درجہ بندی کا اطلاق فنکاروں پر ہوتا ہے۔ گانے والے اس درجہ بندی سے مستثنیٰ نہیں ہوتے۔ بات کی تہہ تک پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ ہم آدمی بذات خود درجہ بندی میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم میں سے کچھ بہت اچھے ہوتے ہیں۔ کچھ اچھے ہوتے ہیں۔ کچھ، کچھ کچھ اچھے ہوتے ہیں۔ کچھ اچھے نہیں ہوتے۔ مفت کے تنازع میں پڑ جانے کے بعد ہم اپنے آپ کو پڑھا لکھا طرم خان سمجھ کر عدالت میں اپنا بچائو خود کرنے کی غلطی کرتے ہیں۔ اور منہ کی کھاتے ہیں۔ نتیجاً کھسیانی بلی بن کر کسی وکیل سے رجوع کرتے ہیں۔ اپنی جیب کے مطابق مقدمہ لڑنے کیلئے وکیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ یونیورسٹیوں سے حاصل کی ہوئی ڈگریاں ہمارے کام نہیں آتیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام کی بنیادی کتابیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔
خدا بھلا کرے پچاسیوں ٹیلی وژن چینلز کا۔ آپ کوئی چینل کھولیں۔ ایک نوعیت اور ایک فارمیٹ کے پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ایک خاتون یا مرد اینکر پرسن کے سامنے چار پانچ سیاستدان بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ سب مل کر، ایک ساتھ، معہ اینکر پرسن کے چیختے چلاتے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ کس بات پر ایک دوسرے پر لفظوں اور جملوں کی بوچھاڑ کررہے ہیں۔ مگر آہستہ آہستہ لگاتار سترہ برس سے سیاستدانوں کا معہ اینکر پرسن کے چیخنا چلانا سن کر اور ان کی ردھم بازی سے بھرپور پروگرام دیکھ کر ہماری سمجھ میں آنے لگا ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں اور کیوں کہتے ہیں۔ ایک اعتراف کردوں کہ ان کے شور شرابے سے بھرپور پروگرام دیکھ کر ہم نے ان سے کافی سیکھا ہے۔فہم و فراست کے علاوہ ان کے پروگراموں میں بڑی آگاہی ہوتی ہے۔ ان کے پروگراموں سے ہم نے اخذ کیا ہے کہ پاکستان میں ایسا قانون بھی رائج ہے جس کے بارے میں عام چور، اچکے، ٹھگ، چار سو بیس اور ڈاکے ڈالنے والے کچھ نہیں جانتے۔ وہ نہیں جانتے کہ قانون کے لمبے ہاتھ ان کو اگر دبوچ لیں تو پھر اس حیرت انگیز قانون کی رو سے آپ قانون کے لمبے ہاتھ چھوٹے کرسکتے ہیں بلکہ قانون کے ہاتھوں سے صاف نکل جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس حیرت انگیز قانون سےسیاستدان اور بڑی بڑی اسامیوں پر براجمان افسران خوب اچھی طرح واقف ہیں۔
حیرت انگیز قانون کی رو سے اگر کوئی چور اچکا پکڑے جانے کے بعد فوراً اعتراف جرم کرلے اور لوٹی ہوئی دولت کا کچھ حصہ واپس کردے، تو پھر ایسے مجرم کو ملازمت سے فارغ کرنے کے علاوہ اور کوئی سزا نہیں دی جائیگی۔ یہ ایک بڑا ہی فلسفیانہ قانون ہے۔ اور ایک واقعہ سے متاثر ہوکر بنایا گیا ہے۔ ایک شخص کو چرا کر روٹی کھانے کی عادت تھی۔ وہ جب بھی پکڑا گیا، چرائی ہوئی روٹی کھانے کے بعد پکڑا گیا۔ وہ صاف مکر جاتا۔ ایک مرتبہ وہ چور عین اس وقت پکڑا گیا جب وہ چرائی ہوئی تقریباً تمام روٹی کھا چکا تھا اور اس کے ہاتھ میں چرائی ہوئی روٹی کا آخری نوالہ تھا۔ دھر لیا گیا۔ اس نے فوراً اعتراف کرلیا کہ اس نے چرائی ہوئی روٹی کھائی تھی۔ چرائی ہوئی روٹی کا آخری نوالہ منہ میں ڈالنے کے بجائے اس نے آخری نوالہ قانون نافذ کرنے والوں کو دے دیا اور قانون نافذ کرنیوالوں نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کہانی سے متاثر ہوکر پلی بار گیننگ Plea Bargaining کا قانون بنایا گیا ہے۔ اگر آپ میری طرح چور اور ٹھگ ہیں تو پھر پکڑے جانے کے بعد اس انوکھے قانون سے آپ بھی بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

تازہ ترین