بلوچستان کے در و دیوار پر جو سبق لکھا ہے وہ ہمیں ستر برس بعد بھی یاد نہیں ہوا۔ ہم خود کو دھوکہ دینے چلے ہیں۔ سیاست دان ہوں یا اسٹیبلشمنٹ دونوں نے مسئلہ حل کرنے کا جو پیمانہ رکھ چھوڑا ہے وہ شکایات، تحفظات، ناراضیوں اور نفرتوں سے لبریز ہوچکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو جو کام کرنا ہے وہ کر رہی ہے البتہ اس میں غلطیوں کے احتمال کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مگر اس معاملے پر سیاسی قیادت کی سرد مہری اور لاتعلقی ایک بے امن بلوچستان کی تصویر پیش کر رہی ہے۔ معاملہ اتنا سادہ ہے نہیں جتنا پیش کیا جا رہا ہے۔ دشمن کی چال اور اپنوں کی بے اعتنائی اسے مزید پیچیدہ کرتی چلی جارہی ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ بھارت، امریکہ، اسرائیل ہی نہیں ایک برادر اسلامی ملک بھی بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں اپنی توانائیاں جھونک چکا ہے اور ہم مصلحتاً خاموش ہیں۔ ہم فکرو خیال اور دل و دماغ کی جنگ ہتھیار سے جیتنے نکلے ہیں۔ ہر سیاست دان نے ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد بنا رکھی ہے۔ ہر کوئی وسیع و عریض بلوچستان پر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے جب بحث تعمیری کے بجائے تخریبی رخ اختیار کر لے تو گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس قوم کو تقسیم کرنے کا فارمولا دشمن کے ہاتھ لگ چکا ہے۔
تقسیم در تقسیم فارمولے کے تحت دشمن نے حالات، مقام، وقت اور واقعات کا انتخاب اپنی مرضی سے کیا ہے اور ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے۔ مذہب کی بنیاد پر نفرت کے بیج بوئے تو کہیں فرقہ واریت کو ہوا دی، جہاں موقع ملا لسانیت کی آگ جلائی، پے درپے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان کی جذباتی قوم کو فرقوں، برادریوں، قبائل اور سرداری نظام کے جال میں پھنسا دیا اور اسی بنیاد پر انتہا پسندی، شدت پسندی کو فروغ دیا۔ نفرتوں کے یہ تن آور درخت آج ہمارے سامنے پہاڑ بنے کھڑے ہیں۔ پارا چنار ہو یا گلگت بلتستان، کراچی سے خیبر تک دشمن نے وہ وہ گل کھلائے کہ رہے اللہ کا نام، دشمن اپنے عزائم میں مسلسل ناکامی اور بار بار شکست کھانے کے بعد آج شکست کے اپنے آخری میدان بلوچستان میں گھات لگائے بیٹھا ہے وہ پیارا بلوچستان جو پاکستان کی ترقی و خوش حالی کی شہ رگ بننے جارہا ہے جس کی مٹی تلے ہیرے جواہرات، سونا، تیل و گیس اور معدنیات کے ان گنت خزانے ہیں، تو مٹی کے اوپر پھلوں پھولوں سے لدے سرسبزو شاداب باغات۔ یہ وہی بلوچستان ہے جہاں ہمارے قائد محمد علی جناحؒ زندگی کی آخری ساعتیں پرسکون گزارنے تشریف لے گئے تھے مگر زندگی نے وفا نہ کی۔ یہ وہی راحت افزا مقامات سے سجا بلوچستان ہے جسے ہم نے نفرتوں کے بیج بو کر بنجر کر دیا۔ اپنے پرائے ہوگئے، دوست دشمن بن گئے، پاک سر زمین سے محبت کرنے والے باغی کہلائے۔ اس سر زمین پاک کو کس کی نظر کھا گئی، یہاں نفرت کیوں چھا گئی، یہ وہ درد ہے جو کبھی دل سے جاتا نہیں ایک صبح روشن طلوع ہوتی ہے تو دوسری خون آشام کیوں؟ میرا اس سر زمین سے بڑا عجیب رومانس چل رہا ہے۔ میں جب بھی پاکستان کے دل بلوچستان اور بلوچستان کی جان کوئٹہ جاتا ہوں تو ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے عاشق اور معشوق کی ملاقات۔ میرا یہ رومانس اکثر اتار چڑھائو کا شکار رہتا ہے جیسے کہ دنیاوی عشق۔ ایک دن ہم عہدو پیمان کرتے ہیں تو اگلی ملاقات میں گلے شکوے۔ 22اکتوبر بروز اتوار کی شام سے کچھ ایسی ہی ملاقاتوں کا سلسلہ ترجمان حکومت بلوچستان سے شروع ہوکر وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری وفاقی وزیر سیفران جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی، سینئر سیاست دان میر حاصل بزنجو، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ، بلوچستان اسمبلی میں جے یو آئی (ف) کے رہنما سینئر سیاست دان مولانا عبدالواسع، صوبائی وزراء و اراکین اسمبلی، صدر پریس کلب کوئٹہ رضاء الرحمن، شہزادہ ذوالفقار، قومی و مقامی اخبارات و جرائد کے مدیران، سینئر صحافیوں اور میڈیا کارکنان پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ کسی ایک شخصیت کی رائے اور نام لئے بغیر میں ان ملاقاتوں کے تناظر میں بلوچستان میں دیرپا امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا اگر دیانت دارانہ تجزیہ کروں تو سچ یہ ہے کہ حالات اتنے اچھے نہیں جتنے اچھے ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ اب بھی بلوچستان کے لئے ہمیں بہت کچھ قربان کرنا ہوگا۔ اپنی انا، خود فریبی، خوش فہمی کی قربانی دینا ہوگی، اپنے جذبوں کی سچائی ثابت کرنا ہوگی، اپنی توانائیاں، اپنا خلوص، اپنی بے لوث محبتیں بلوچستان کے عوام پر بلاتفریق نچھاور کرنا ہوں گی۔ یہ سچ ہے کہ دشمن نے بلوچستان میں نفرتوں کے ایسے ’’ہائی برڈبیج‘‘ بو دیئے ہیں کہ ان کو دلوں کی جڑوں سے نکالتے نکالتے ہمیں بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا۔ کسی شخص، ادارے، جماعت، برادری، قبیلے کی دل آزاری سے بالا تر سوچ کے ساتھ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ابھی منزل بہت دور ہے۔ اگر حوصلے بلند، جذبے سچے، نیت نیک ہو تو سنگلاخ پہاڑوں کے سینے بھی چیرے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ جہاں پیار عشق و محبت کا رشتہ ہو وہاں شکوے شکایتیں توقعات سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ناراضی سے صلح تک کا سفر بڑا کرب ناک ہوتا ہے یہ وہی وقت ہے جہاں محبت کو تا ابد پانے یا کھونے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ بلوچستان کے درودیوار آج پاکستان کے حکمرانوں مقتدر حلقوں، سیاست دانوں اور عوام سے سوال کرتے ہیں اور توقعات بھی رکھتے ہیں کہ آخر ہمیں ہمارا حق کیوں نہیں دیا جارہا ہم پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے، پسماندگی ہمارا مقدر کیوں ہے۔ ہماری اتنی کڑی نگرانی کس لئے؟ کیا بلوچستان میں رہنے والا ہر شخص مشکوک ہے، بلوچستان کے وسائل سے حصہ کیا ان کا حق نہیں؟ کیا ہماری حب الوطنی کو ہمیشہ شک کی نظر سے ہی دیکھا جائے گا؟ ادارے ہمیں آزادی سے کام کرنے کا موقع کیوں نہیں دیتے، دشمن کے ساتھ لڑنے کے لئے ہمارے کاندھوں کو استعمال کیوں نہیں کرتے۔ یقین جانئے کوئٹہ میں تین دن بڑے کربناک گزرے۔ ہر محفل، ہر گفتگو میں یہی سوالات اٹھائے گئے۔ جواب ندارد، دکھ سے لکھ رہا ہوں ہماری ان ملاقاتوں میں دکھ کے سواکچھ نہ تھا۔ سوالات تھے، شکایتیں تھیں، شکوے تھے اور ہم۔ آپ کو بلوچستان میں بسنے والے بلوچوں، پشتونوں، برادریوں، قبائل کا پنجاب اور سندھ کے مدیران اخبارات و جرائد سے محبت وخلوص اور چاہت واپنائیت کے جذبات بیان کروں تو الفاظ کم پڑ جائیں۔ ہم سب ان کے گرویدہ ہیں۔ ملک دشمن عناصر کو کسی طور چُھوٹ حاصل نہیں ہونی چاہئے۔ مادر وطن کا دشمن خواہ وہ پنجابی، سندھی ہو یا بلوچ اور پشتون اس سے پہلے کہ وہ میری زمین کو لہو رنگ کرے اسے زمین میں گاڑ دیں مگر بلوچستان میں جو بلوچ اور پشتون میں دیکھ کر آرہا ہوں انہیں راستے کا پتھر سمجھنے کے بجائے سر کا تاج بنانے کی ضرورت ہے۔ غم و الم کی یہ داستان ابھی جاری ہے۔