• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں یہ کالم مراکش کے شہر رباط سے تحریر کررہا ہوں جہاں او آئی سی کی ذیلی تنظیم اسلامک سینٹر فار ڈویلپمنٹ آف ٹریڈ (ICDT) کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں شرکت کیلئے آیا ہوں۔ اسلامی ممالک کے مابین تجارتی فروغ پر منعقدہ تین روزہ سیمینار میں پاکستان کے علاوہ او آئی سی کے دیگر رکن اسلامی ممالک کے مندوبین، اسلامک سینٹر فار ڈویلپمنٹ آف ٹریڈ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر، کمیٹی برائے اکنامک اینڈ کمرشل کوآپریشن (COMCEC) اور اقوام متحدہ اکنامک کمیشن برائے افریقہ جیسے اہم اداروں کے اسپیکرز بھی شریک ہیں۔ سیمینار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف احمد العسمین افتتاحی اجلاس میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر مراکش تشریف لائے ہیں جبکہ سیمینار میں مراکش کی وزیر برائے بیرونی تجارت رقیہ درہام اور ICDT کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر الحسین ہازنی بھی شریک ہیں۔ واضح ہو کہ او آئی سی 57 اسلامی ممالک پر مشتمل نمائندہ تنظیم ہے جس کے ذیلی ادارے اسلامک سینٹر فار ڈویلپمنٹ آف ٹریڈ (ICDT) کا مقصد اسلامی ممالک کے مابین تجارت کو فروغ دینا ہے۔ ادارے کا صدر دفتر مراکش کے شہر کاسابلانکا میں ہے اور یہ ادارہ اسلامی ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے میںانتہائی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ او آئی سی دنیا کا سب سے بڑا بلاک ہے جو دنیا کے ایک چوتھائی رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ او آئی سی کے رکن اسلامی ممالک کی آبادی تقریباً 1.6 ارب ہے جو دنیا کی مجموعی آبادی کا 22 فیصد ہے جبکہ اسلامی ممالک کی جی ڈی پی 18.6 کھرب ڈالر ہے۔
ڈاکٹر یوسف احمد العسمین نے جب سے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ سنبھالا ہے، اُن کی ترجیحات میں شامل ہے کہ اسلامی ممالک کے مابین تجارت میں حائل رکاوٹیں ختم کرکے تجارت کو فروغ دیا جائے۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر یوسف احمد العسمین نے بتایا کہ آج جب دنیا کے کئی مغربی ممالک کی معیشت مندی کا شکار ہے، خلیجی ممالک، ترکی، انڈونیشیا اور ملائیشیا سمیت دیگر اسلامی ممالک کی معیشت تیزی سے گروتھ کررہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کے مابین تجارتی حجم 500 ارب ڈالر سے زائد ہے جو عالمی تجارت کا 20 فیصد ہے جبکہ اس میں اضافے کے وسیع مواقع موجود ہیں، اُمید کی جارہی ہے کہ او آئی سی استنبول اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد کے مطابق 2025ء تک اسلامی ممالک کے مابین تجارت، سرمایہ کاری اور سیاحت کے شعبوں میں 25 فیصد اضافے کا ہدف پورا کیا جاسکے گا لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کے درمیان تجارت میں حائل نان ٹیرف بیریئرز (NTBs) اور نان ٹریڈ میجرز (NTMs) دور کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ سیمینار میں شریک ICDT کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر الحسین ہازنی نے بھی اپنے خطاب میں اسلامی ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کیلئے حائل رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
میں نے اپنی پریذنٹیشن میں بتایا کہ اسلامی ممالک کے درمیان عدم اعتماد، تنازعات، سیاسی اور معاشی عزم کی کمی وہ عوامل ہیں جو اسلامی ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اسلامی ممالک کے مابین تجارتی حجم 500 ارب ڈالر ہے جبکہ اسلامی ممالک کو آنکھیں دکھانے والے اور دبائو ڈال کر اپنی مرضی مسلط کرنے والے ملک امریکہ کے ساتھ اسلامی ممالک کی تجارت 220 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ دنیا کے 49 پسماندہ ممالک میں 22 او آئی سی کے رکن اسلامی ممالک ہیں۔ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان او آئی سی کا انتہائی اہم رکن ہے جبکہ 8 بڑے اسلامی ممالک پر مشتمل D-8 کا بھی سرگرم رکن ہے جس میں ترکی، ایران، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ 21 کروڑ کی آبادی کے سبب پاکستان کی کنزیومر مارکیٹ کا شمار اسلامی ممالک کی بڑی منڈیوں میں کیا جاتا ہے، پاکستان کے اسلامی ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں مگر یہ گرمجوشی تجارتی حوالے سے نظر نہیں آتی لیکن پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اسلامی ممالک کے درمیان معاشی و تجارتی تعلقات میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان کی باہمی تجارت تقریباً 20 ارب ڈالر ہے، پاکستان اسلامی ممالک سے 15 ارب ڈالر کی اشیا امپورٹ اور 5 ارب ڈالر کی اشیا ایکسپورٹ کرتا ہے۔ میں نے شرکاکو بتایا کہ مغربی ممالک کے مقابلے میں اسلامی ممالک کی آبادی میں دگنی رفتار سے اضافے کے باعث اسلامی ممالک میں حلال مصنوعات اور حلال فوڈز کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یومیہ 20 لاکھ سے زائد پیک شدہ مرغیاں برازیل سے درآمد کررہے ہیں جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے لاکھوں ٹن گوشت درآمد کیا جارہا۔ مذکورہ غیر اسلامی ممالک کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی طریقے سے جانور ذبح کرتے ہیں جس پر اسلامی ممالک یقین بھی کرلیتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اسلامی ممالک حلال اشیاپاکستان سے درآمد کریں تاکہ جانوروں کے حلال طریقے سے ذبح ہونے کے معاملے میں کوئی ابہام نہ رہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کچھ سال قبل تک خلیجی ممالک کو افرادی قوت فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا مگر گزشتہ عشرے سے اس میں کمی آتی جارہی ہے اور اب خلیجی ممالک، فلپائن سمیت دیگر غیر اسلامی ممالک سے افرادی قوت حاصل کررہے ہیں، زیادہ اچھا ہو کہ افرادی قوت کو اسلامی ممالک سے پورا کیا جائے۔ میں نے اپنی پریذنٹیشن میں اس بات پر بھی زور دیا کہ او آئی سی کے رکن اسلامی ممالک سیاحت پر سالانہ 156 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کو بے پناہ خوبصورتی سے نوازا ہے، اگر اسلامی ممالک باہمی سیاحت کو فروغ دیں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ تقریر کے اختتام پر جب میں نے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف احمد العسمین سے مصافحہ کیا تو میں نے انہیں پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والا پایا۔ دوران ملاقات انہوں نے میری تقریر اور تجاویز کو بے حد سراہا۔
اسلامی ممالک میں بے تحاشا وسائل اور مواقع پائے جاتے ہیں مگر افسوس کہ ُانہیں صحیح طور پر استعمال نہیں کیا جارہا۔ اسلامی ممالک کے مابین تجارتی حجم کم ہونے کی بڑی وجہ باہمی رابطے اور معلومات کا فقدان ہے جس کے باعث وہ اشیا جو اسلامی ممالک سے درآمد کی جاسکتی ہیں، غیر اسلامی ممالک سے درآمد کی جارہی ہیں۔ اسی طرح اسلامی ممالک کے مابین بزنس مینوں کیلئے ویزوں کے اجرا میں مشکلات اور مختلف اسلامی ممالک کے درمیان بینکنگ چینل کا نہ ہونا بھی تجارتی فروغ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ممالک کے مابین ٹریڈفیئرز اور نمائشوں کا انعقاد کیا جائے اور ویزے کے حصول میں نرمی کرکے بزنس مینوں پر مشتمل تجارتی وفود اسلامی ممالک بھیجے جائیں تاکہ اسلامی ممالک کے مابین تجارت کو فروغ حاصل ہوسکے۔ پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ بڑے اسلامی ممالک کے ساتھ فری ٹریڈ اور ترجیحی تجارتی معاہدوں کو عملی جامہ پہنائے تاکہ ان ممالک کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوسکے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک اس نتیجے پر پہنچے کہ آپس کے تنازعات بھلاکر اور یکجا ہوکر معیشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے جس کیلئے یورپی یونین (EU) کا قیام عمل میں لایا گیا، اس طرح یورپی ممالک کے درمیان سرحدوں کے تصور کا خاتمہ ہوا اور سنگل کرنسی رائج ہوئی جس کے نتیجے میں یورپی ممالک کے مابین تجارت کو فروغ ملا اور یورپ دنیا میں طاقتور خطہ بن کر ابھرا۔ اسلامی ممالک کو بھی چاہئے کہ وہ یورپی یونین کی طرز پر ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھاکر تجارت، سیاحت اور سرمایہ کاری کو فروغ دیں تاکہ اسلامی ممالک کا بلاک بھی یورپی یونین کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔

تازہ ترین