• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں بھی پاکستان کی طرح حکومت وقت کے خلاف جوابدہی اور احتساب کےعمل کا پہیہ بڑے منظم انداز میں چلنے کو ہے لیکن پہلا بنیادی فرق یہ ہے کہ جمہوریت، قانون اور روایات کی مکمل اور غیرجانبدارانہ پاسداری کا شفاف عمل ہے۔ دوسرے یہ کہ صدر ٹرمپ کے مخالفین کیلئے سخت ردعمل اور گرم مزاجی کی عادت کے باوجود عدالتیں ایسے امور کے بارے میں ان کے ایگزیکٹو آرڈرز کے خلاف اسٹے آرڈرز اور فیصلے دے رہی ہیں جن کا تعلق اقلیتوں کے امور سے ہے مثلاً مسلم ممالک سے امریکہ آنے والوں اور امیگریشن کےبارے میں امور جن کا تعلق و اثر امریکہ کے پیدائشی شہریوں کی واضح اکثریت سے بالکل نہیں۔ مگر نظام چل رہا ہے۔ افراتفری اور عدم استحکام بھی نہیں بلکہ امریکی وزیر خارجہ اور سفارتکار یورپ اور ایشیا میں اپنی عالمی برتری کو مستقبل میں قائم رکھنے کیلئے بھی فرنٹ لائن پر کام کررہے ہیں۔ مختلف ممالک کے درمیان نئے اتحاد قائم کرنے سے لیکر امریکہ میں داخلی سیکورٹی کے انتظامات و مذاکرات تک سب چل رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ اس کے برعکس ہے۔ بات داخلی عدم استحکام اور بحران سے شروع ہوتی ہے اور پھر بیرونی سرحدوں کے پار کے ہمسائے اپنی تاریخی خواہشات پورا کرنے کیلئے خطرات پیدا کرکے جارحیت کے ذریعے پاکستان سے بدلہ لے لیتے ہیں۔مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے، بلوچستان میںمداخلت، سندھ میں منافرت اور پختونومیں پشتونستان کے جذبات کو فروغ دینے والے غیرملکی ہاتھ اس وقت ہی زیادہ سرگرم ہوتے ہیں جب ہمارے اپنے حکمراں، سیاستدان اور نظام چلانےنے والے خود داخلی عدم استحکام پیدا کرنے والے کام کریں۔ میرے بعض کرم فرمائوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب پاکستان میں نوازشریف بمقابلہ عمران خان گرما گرم سیاست و انتشار کا زور ہے میں اپنے کالموں کا سارا زور پاکستان کو لاحق بیرونی خطرات پر صرف کیوں کررہا ہوں؟ عرض یہ ہے کہ اگر امریکی وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان، پاکستان اور بھارت کے بعد بھی کسی کو شبہ ہے کہ پاکستان کو بیرونی خطرات کا سامنا نہیں ہے تو وہ ریکس ٹلرسن، اشرف غنی اور سشما سوراج کے بیانات پڑھ لے اور پھر اپنی رائے پر نظرثانی کرے۔دوسرے یہ کہ بیرون پاکستان آباد پاکستانیوں کو اپنی شناخت کی فکر پاکستانی سیاستدانوں  سے کہیں زیادہ ہے۔ اوروہ پاکستان کے آزاد میڈیا اور غیرممالک کی حکومتی پالیسیوں بارے زیادہ آگاہ ہیں۔ لہٰذا وہ پاکستان کی سالمیت کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو یہ بیرون پاکستان کے پاکستانی سالانہ 10ارب ڈالرز کی رقومات بھی فراہم کرتے ہیں اور بدلے میں کسی انعام کی توقع بھی نہیں رکھتے۔ اس میں وہ لاکھوں ڈالرز کے سالانہ اخراجات بھی شامل نہیں ہیں جو یہ پاکستانی اپنے پسندیدہ حکومتی وزیروں، اپوزیشن رہنمائوں کے امریکہ برطانیہ اور خلیجی ممالک کے دوروں کے دوران ان کیلئے خیرمقدمی اجتماعات، ڈنرز اور ان کو تحفوں کی شاپنگ وغیرہ پر اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔یقین جانئے ہمارے ملک کے سیاستدانوں بالخصوص وزیروں کے غیرملکی دوروں کی آمدنی و اخراجات کی بیلنس شیٹ اکثر اوقات بڑی منافع بخش ثابت ہوتی ہے۔ بعض رہنما بڑے باوقار ہیں اور اس فہرست میں نہیں آتے۔ وزیراعظم شاہد خاقان کا حالیہ دورہ لندن نجی تھا، تو وہ اپنے ٹکٹ پر لندن ،ٹیوب سے اپنے گھر گئے، ان کا یہی وطیرہ ماضی میں وزیر ہونے کے باوجود امریکہ آنے جانے میں بھی قائم رہا ہے۔ ایسے خوشگوار واقعات ذرا کم ہی ہوتے ہیں۔
بیرون ملک امریکہ و برطانیہ وغیرہ میں آباد پاکستانی آزاد امریکی میڈیا، عالمی تناظر اور اپنے منتخب سیاستدانوں سے تعلق کے باعث پاکستان کو لاحق بیرونی خطرات سے بہتر طور پر واقف ہیں اور ایشیا میں بدلتے منظر اور ملکوں کے بنتےبگڑتے اتحاد کی شکل سے بھی بہتر طور پر واقف ہیں۔ بہرحال میں اپنے استدلال پرقائم ہوں کہ داخلی انتشار کے شکار پاکستان کو بیرونی خطرات بھی لاحق ہیں۔ جن پر توجہ اور فوری حکمت عملی کی شدید ضرورت ہے ورنہ سیاستدانوں کے پاس سیاست لڑانے اور اپنی شناخت قائم رکھنے کا موقع بھی خدانخواستہ چھن سکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کا یہ بیان قابل فکر ہے کہ پاکستان کے ساتھ یا پاکستان کے بغیر ہم جنوبی ایشیا میں دہشت گردی ختم کرلیںگے۔ ادھر کابل میں ٹلرسن سے مذاکرات کےبعد دہلی جاکر ان کا استقبال کرنے والے افغان صدر اشرف غنی کا یہ بیان کہ پاکستان بھارت کو افغانستان سے تجارت کیلئے اگر ٹرانزٹ سہولتیں اور راستہ نہیں دے گا تو پاکستان کو سینٹرل ایشیا سے تجارت کیلئے افغانستان بھی یہ سہولتیں نہیں دے گا۔ پھر اس وقت ہم نے اپنا بیشتر انحصار چین پر کررکھا ہے، سی پیک کا منصوبہ امریکہ، بھارت، جاپان اور انکے اتحادیوں کو بالکل پسند نہیں جبکہ ہم اپنی معاشی بہتری کا انحصار اس منصوبے کی تکمیل پر کئے بیٹھے ہیں بقول ایک امریکی کہ پہلے 70 سال پاکستانیوں نے اپنا مکمل انحصار امریکیوں پر کئے رکھا، سارے فوجی معاہدے، خفیہ آپریشن اور اعلانیہ جنگیں امریکہ کے اتحادی بنکر لڑیں اور پابندیاں بھی امریکہ سے ہی لیں اور اب پاکستان نے اپنے تمام ’’انڈے‘‘ چین کی ’’باسکٹ‘‘ میںڈال دیئے ہیں۔ یعنی اب چین پر کلی انحصار کا راستہ اپنالیا ہے۔ جاپان کے پروفیسر برائے عالمی تعلقات یوستی شیماڈاکا کہنا ہے کہ چین اتنا بڑا ملک ہے کہ دیگر اقوام اس کےسامنے ٹھہر نہیں سکتیں لہٰذا دوطرفہ تعلقات میں بھی چھوٹے ملکوں کی بجائے چین کا پلہ بھاری ہے۔
اس تناظر میں امریکی صدر ٹرمپ ایشیائی ممالک کے بارہ روزہ دورے پر نکل رہے ہیں۔ 3 نومبر تا 14 نومبر کے دورے میں وہ جنوبی کوریا، چین، جاپان، فلپائن، ویت نام کا دورہ تو کریں گے لیکن متعدد ایسی کانفرنسوں میں بھی شریک ہوں گے جو امریکی قیادت میں چین کے خلاف گھیرائو اور حصار کو قائم کرنے میں مدد دے۔ وہ اب بھارت کا دورہ کرنے کی بجائے بھارتی وزیراعظم مودی سے منیلا میں ایک کانفرنس کے موقع پر ملاقات کریں گے۔البتہ ان کی بیٹی ایوانکا جلد ہی امریکی وفد کے قائد کے طور پر بھارت کا دورہ کریں گی۔ دراصل چین کے انٹرنیشنلزم نے امریکہ اور یورپ کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ چین کے ون بیلٹ ون روڈ  (O.B.O.R) کے پروگرام نے سری لنکا اور پاکستان کیلئے معاشی ترقی کی جو راہیں  متعین کی ہیں وہ سینٹرل ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں مفادات رکھنے والے ممالک بشمول امریکہ کو قبول نہیں۔چین نے شمالی آسٹریلیا میں ڈرون کی بندرگاہ کا جو ٹھیکہ حاصل کررکھا ہے، وہ بھی قابل تشویش امریکہ کیلئےہے۔ لہٰذا امریکہ اب آسٹریلیا جاپان اور بھارت کے اشتراک سے بحرچین سے بحرہند کے راستے اور پھر وہاںسے افریقہ اور دیگر براعظموں کیلئے تجارت یعنی فری ٹریڈ اور روک ٹوک سے آزاد جہازرانی کی سہولتیں چاہتا ہے۔ جاپان اور چین کی تاریخی دشمنی کو کام میں لاکر اور آسٹریلیا کو افریقہ تک کھلی تجارت اور شپنگ اور بھارت کو مشرق بعید میں بھی بالادستی اور رسائی دیکر امریکہ اس خطے میں اپنی عالمی برتری اور دسترس کے ساتھ ساتھ چین کو دفاعی طور پر حصار میں لینے کی حکمت عملی اختیا رکرنا چاہتا ہے۔ ملائیشیا، فلپائن، ویت نام، برما جیسے ممالک کو بھی اس اسٹریٹجی میں امریکہ نے ثانوی حیثیت دیکر مذکورہ بڑی معیشت اور اثر و نفوذ والے ممالک کو فوقیت دی ہے۔ تائیوان اور جنوبی کوریا بھی امریکی ایجنڈے کے مطابق اس چین مخالف اتحاد کا حصہ ہوں گے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنی اس حکمت عملی کے تناظر میں ہی یہ کہا ہے کہ ’’بھارت امریکہ کا فطری اتحادی ہے۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کے بیانات کو دیکھئے تو یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ چین کے اثر و نفوذ اور دیگر ممالک سے رابطوں اور پروجیکٹس کو روکنے کیلئے بھارت کو بہترین جنگی ساز و سامان فراہم کرنے کیلئے بھارت کو جنوبی ایشیا اور مشرق بعید میں ’’جیوپولٹیکل فٹ پرنٹ‘‘ قائم کرنے میں مکمل مدد کرنے کو بھی تیار ہے۔چین انتہائی خاموشی سے افریقہ کے ممالک میں اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کیلئے متعدد تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل کرچکا ہے، اب اس اثر کو زائل کرنے کیلئے امریکی حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے اور صدر ٹرمپ اسی حکمت عملی کو فروغ دینے اور عمل کرنے کیلئے ایشیائی ممالک کا دورہ کررہے ہیں جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ وہ شمالی کوریا کی ایٹمی سرگرمیوں اور دھمکیوں کے جواب میں یہ دورہ کررہے ہیں۔مختصر یہ کہ جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک اب دو عالمی بلاکس میں منقسم ہوگئے ہیں۔ چین کے بلاک میں مشرق بعید کے بعض ممالک، جنوبی ایشیا میں پاکستان مشرق بعید میں شمالی کوریا وغیرہ شامل ہیں۔جن کے درمیان اپنی بقا و سلامتی کے چیلنج کا چین کی قیادت کوسامنا ہے جبکہ آسٹریلیا، جاپان اور بھارت خطے میں امریکی مفادات کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اگر ان دو بلاکوں میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی تو پھر ہنری کسنجر کی پیشگوئی کے مطابق ایشیا میں جنگ کیلئے موجودہ اسلحہ اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال بھی ہونے کا امکان ہے۔ امید ہے کہ پاکستان کے داخلی انتشار کو صرف سیاسی اکھاڑ پچھاڑ قرار دینے والے دوست ان ابھرتے حقائق پر غور فرمائیں گے۔

تازہ ترین