• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین براعظموں تک پھیلی ہوئی عالمِ اسلام کی واحد مملکت ’ سلطنتِ عثمانیہ‘کے خاتمے کے بعد ترکی زبان بولنے والے علاقوں پر مشتمل جغرافیے میں ’ جدید جمہوریہ ترکی‘ کے نام سے 29اکتوبر 1923میں نئی مملکت معرضِ وجود میں آئی ، گزشتہ ہفتےاس کے قیام کی 94ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس نئی مملکت کو اپنے قیام کے ساتھ ہی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اتاترک نے اپنے عوام اور قوم پر بھروسہ کرتے ہوئے نئی مملکت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا اور بہت ہی کم عرصے میں ایک ساتھ کئی انقلابات کو حقیقت کا روپ عطا کیا۔ انہوں نے ملک میں جمہوری نظام کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اصلاحات کی طرف خصوصی توجہ دی اور 1928میں رسم الخط کا انقلاب برپا کرتے ہوئے ترکوں کو جہالت کے اندھیرسے نکال کر تعلیم کی روشنی سے منور کیا اور چھ ماہ کے اندر اندر تعلیم کے شعبے میں معجزہ کردکھایا۔ اسی دوران اتاترک کی نگرانی میں صنعتی، ثقافتی اور معاشی انقلابات کو حقیقت کا روپ عطا کرتے ہوئے عالم ترک کو عالمِ اسلام میں رول ماڈل کی حیثیت دلوانے میں کامیابی حاصل کی ۔ اتاترک کی کامیابیوں کے چرچے ہندستان تک پہنچ چکے تھے اور ہندوستان کے مسلمان بھی اتاترک کی تحریک سے متاثر ہوکراپنی آزادی اور ترقی کےخواب دیکھنے لگے۔ترکی میں اتاترک کا دور کامیابیوں اور کامرانیوں کا دور ہے لیکن بد قسمتی سے اتاترک کے بعد آنے والے رہنماؤں جن میں عصمت انونو پیش پیش ہیں نے ملک کو دوسری جنگ عظیم میں دھکیلنے سے باز رکھنے کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہ دیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انہوں نے ڈنڈے کے زور ( فوج کا سہارا لیتے ہوئے ) پر اپنی حاکمیت قائم رکھی ۔ عصمت انونو نے فوج کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جس طریقے سے استعمال کیا اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اس دوران مذہبِ اسلام سے اپنی دشمنی کو اتاترک کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے ملک میں مذہبی حلقوں کا جینا دوبھر کردیا اور فوج میں مذہبی تعلیم و تربیت پر پابندی عائد کردی ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عصمت انونو نے مجبور ہوکر واحد پارٹی سسٹم ختم کرتے ہوئے دیگر جماعتوں کو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا لیکن فوج کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی کہ 1945کے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کو اپنی بقا کے لئے شکست قبول کرنا پڑی لیکن پچاس کی دہائی کے عام انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی نے اتنے بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی کہ عصمت انونو اور ان کے ساتھیوں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ ڈیمو کریٹ پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم عدنان میندریس نے سب سے پہلے عصمت انونو کے دور میں مقفل کی گئی تمام مساجد کے دروازے عوام کے لئے کھول دئیے اور ترکی زبان میں دی جانے والی اذان کی جگہ عربی زبان میں اذان دینے کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کیاجس پر 27مئی 1960کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جمال گرسل نے عدنان میندریس کی حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے 17ستمبر 1961کو عدنان میندریس اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی پر لٹکادیا ۔ فوجی حکومت کی نگرانی میں1965میں عام انتخابات کرائے گئے جس میں جسٹس پارٹی نے سلیمان دیمرل کی قیادت میں52.6فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے پارلیمینٹ کی 450نشستوں میں سے 240 نشستیں حاصل کر لیں اور پھر 1969میں ہونیوالے عام انتخابات میں بھی سیلمان دیمرل کی جماعت نے 46.55 فیصد ووٹ حاصل کئے اور پارلیمینٹ کی 450نشستوں میں سے 256نشستیں حاصل کرتے ہوئے دوسری بارحکومت بنائی۔ اس دوران فوج نے ایک بار پھر مداخلت کرتے ہوئے صدر دیمرل کی حکومت کو ختم کردیا اور پارلیمنٹ کے اندر ہی سے ایک غیر جانبدار رکن پارلیمنٹ نہات ایردیم کی قیادت میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت قائم کر دی جو اکتوبر 1972تک جاری رہی۔ چودہ اکتوبر1973میں ہونے والے عام انتخابات میں بلنت ایجوت کی قیادت میں بائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی33.29فیصد ووٹ حاصل کرکے پارلیمنٹ کی149نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔ بلنت ایجوت نے اس وقت ترکی کی سیاست پر نمودار ہونے والے نجم الدین ایربکان کی ملی سلامت پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی ۔ ستّر کی دہائی ترکی کی سیاسی تاریخ میں سیاہ ترین باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ترکی کا یہ دس سالہ عرصہ انتشار کا شکار رہا۔ چیف آف جنرل اسٹاف جنرل کنعان ایورن نے 12ستمبر1980ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔جنرل کنعان ایورن نے 6نومبر 1983ء کے عام انتخابات میں صرف نئی سیاسی جماعتوں ہی کو حصہ لینے کی اجازت دی۔ ان عام انتخابات میں ترگت اوزال کی مدر لینڈ پارٹی نے واضح برتری حاصل کی اور نئی حکومت تشکیل دی اور پورے ملک سے مارشل لا ختم کیا۔ترگت اوزال جمہوریہ ترکی کے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے ملک میں آزاد منڈی اقتصادیات اور نج کاری کو متعارف کرایا۔ اسی دور میں ملک میں میڈیا کو آزادی نصیب ہوئی اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے دور کا آغاز ہوا جس سے ملک میں شفافیت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ 9نومبر 1989ء کو جنرل کنعان ایورن اپنی سات سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوگئے اور ان کی جگہ ترگت اوزال نے وزارتِ عظمیٰ چھوڑ کر ملک کی صدارت کے فرائض سنبھال لئے۔ ترگت اوزال کی وفات کے بعد پرانے سیاستدانوں جن پر مارشل لا دور میں پابندی لگادی گئی تھی ترکی کی سیاست میں دوبارہ وارد ہوئے۔ سلیمان دیمرل ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم منتخب کرلئے گئے لیکن ہمیشہ کی طرح انہوں نے اس بار بھی قوم کو مایوس کیا اور ایک بار پھر ملک میں سیاسی اور اقتصادی بحران کی بنیاد رکھ دی اور رہی سہی کسر انہی کی جماعت کی وزیراعظم تانسو چیلر نے پوری کردی۔ ملک میں اب مخلوط حکومتیں قائم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہ بچا تھا جس کا فوج نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور نجم الدین ایربکان کی حکومت کی ایسی ڈوری کھینچی کہ ان کو پھر سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ فوج ہی کے دباؤ میں آئینی عدالت نے نجم الدین ایربکان سمیت پانچ رہنماؤں کو سیکولرازم کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے سیاست میں پانچ سال کیلئے پابندی لگانے اور رفاہ پارٹی کو کالعدم قرار دینے کافیصلہ سنادیا۔ ایربکان ہی کے قریبی ساتھیوں میں سے عبداللہ گل اور رجب طیب ایردوان پر مشتمل ایک گروپ نے چودہ اگست 2001ء میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نام سے ایک الگ جماعت قائم کرلی ۔ رجب طیب ایردوان اور ان کے ساتھیوں نے 3نومبر2002ء کو ہونے والے عام انتخابات سے پندرہ ماہ قبل بھرپور طریقے سے ملک بھر میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ تین نومبر2002ء کو جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اپنے بانی ایردوان کے بغیر انتخاب لڑا اور34فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں کلی اکثریت حاصل کرلی تھی جس پر پارٹی کی نمبر دو شخصیت عبداللہ گل کی قیادت میں حکومت تشکیل دے دی گئی بعد میں حزبِ اختلاف کی ری پبلکن پیپلز پارٹی نے آق کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ایردوان کو پہلے پارلیمنٹ کا رکن اور پھر وزیراعظم بنانے کی راہ ہموار کردی۔ایردوان 15 مارچ 2003ء میں ملک کے نئے وزیراعظم منتخب کرلئے گئے ۔ ایردوان کا اقتدار حاصل کرنے کا سفر کوئی آسان سفر نہ تھا تین بار ان کی حکومت کا تختہ بھی الٹنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کبھی بھی ہمت نہ ہاری انہو ں نے ترکی کو جو تیسرے درجے کا ایک ملک سمجھا جاتا تھا دنیا کی سولہویں اقتصادی قوت ، اور گیارہ ہزار ڈالرآمدنی والا ملک بنا دیا۔ ایردوان ترکی اور دنیا میں واحد شخصیت ہیں جن کی مقبولیت میں اقتدار میں رہنے کے باوجود مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں صدارتی نظام متعارف کرانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ 15جولائی 2016ء کو ان کا تختہ الٹنے کی ایک بار پھر کوشش کی گئی لیکن عوام نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک میں جمہوریت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئےتابندہ بنادیا ہے۔

تازہ ترین