• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی میں مشرف اور پیپلز پارٹی اورن لیگ کی حکومتوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کیے ہوں یا نہ کیے ہوں کم از کم انھیں کچھ سہولیات تو فراہم کر رکھی تھیں جن میں ایک اہم سہولت بیرون ملک سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پرسنل بیگج کے ذریعے یا پھر ٹرانسفر آف ریزیڈنس کے ذریعے یا پھر گفٹ اسکیم کے ذریعے پاکستان لانے کی سہولت حاصل تھی ، اس سہولت سے نہ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو فائدہ ہورہا تھا بلکہ حکومت پاکستان کو بھی ڈیوٹی کی مدمیں بہت بڑی رقم حاصل ہورہی تھی ، پاکستان کیلئے سب سے اہم بات یہ تھی کہ سالانہ ساٹھ ہزار سے زائد غیر ملکی معیاری گاڑیوں کی پاکستان درآمد پر پاکستان سے ایک روپیہ بھی باہر نہیں جارہا تھا بیرون ملک مقیم پاکستانی یہ استعمال شدہ گاڑیاں اپنی بیرون ملک کمائی گئی رقم سے خرید کرپاکستان روانہ کیا کرتے تھے جسکے بعدسالانہ اوسطاََ ساٹھ ہزار گاڑیوں کی پاکستان آمد پر حکومت پاکستان کی جانب سے ان گاڑیوں پر بھاری ڈیوٹیاں عائد کی جاتی تھیں جس سے ستر ارب روپے سے زائد کا ریونیو حاصل ہوتا تھا ،جبکہ تیسری اہم بات یہ تھی کہ پاکستان میں مقامی سطح پر اسمبل کی جانیوالی غیر معیاری گاڑیوں کی کمپنیاں بھی بیرون ملک سے آنیوالی معیاری گاڑیوں کی بدولت اپنی گاڑیوں کے معیار میں بہتری کرنے پر مجبور ہوگئی تھیں ۔بیرون ملک سے آنے والی ہائبرڈ گاڑیوں کی بدولت پاکستان میں نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں کمی ہونا شروع ہوئی بلکہ ملک میں پیٹرول کے استعمال میں بھی کمی آئی ، کیونکہ یہ گاڑیاں ایک لیٹر پیٹرول میں کم سے کم بیس کلومیٹر کا سفر باآسانی طے کرلیتی ہیںاور ماحول پر بھی کم اثرات پڑتے ہیں ۔ ماضی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک ہزار سی سی تک کی ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی معاف کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ایک ہزار سی سی تک کی کوئی ہائبرڈ گاڑی آج تک تیار ہی نہیں ہوئی لہٰذا کسٹم ڈیوٹی ختم کرنے کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ سکا۔بیرون ملک سے استعمال شدہ گاڑی پاکستان لانے کی اس سہولت کیخلاف ایک مافیا ہمیشہ موجود رہا ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانی سالانہ ستر ارب روپے ان گاڑیوں کی ڈیوٹیوں کی مد میں حکومتی خزانے میں جمع کراتے ہیں یہ ہی پاکستانی حکومت اور اپوزیشن میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کی آواز کو دنیا بھر میں بلند کرتے ہیں ، یہ ہی پاکستانی اپوزیشن یا جلاوطنی کے دوران اپنے سیاسی رہنمائوں کو میزبانی کا شرف بخشتے ہیں لیکن جب حکمراں حکومت میں آتے ہیں تو بیرون ملک مقیم ان پاکستانیوں کی اہمیت ان کیلئے نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے ،آج اس وقت حکومت وقت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے ایک اور اہم مسئلہ کھڑا کردیا ہے ، یعنی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ہونیوالے ایک ایس آر او کے ذریعے بیرون ملک سے آنی والی استعمال شدہ گاڑیوں پر ایسی پابندیا ں بیک جنبش قلم عائد کردی ہیں کہ ان پاکستانیوں کے اربوں روپے سمندر برد ہونے کے نزدیک پہنچ گئے ہیں ،ہمارے ملک میں سب سے بڑی خرابی پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ، جاپانی حکومت گزشتہ کئی سالوںسے ملک میں سیلز ٹیکس کو آٹھ فیصد سے بڑھا کر دس فیصد کرنا چاہ رہی ہے لیکن عوام کی مخالفت کے باعث ٹیکس بڑھانے سے قاصر ہے ، جبکہ دوسری جانب اپنے ملک میں دیکھتے ہیں کہ آج حکومت نے ٹیکس یا ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا تو کل سے یہ فیصلہ ایک ایس آر او کے ذریعے نافذ کردیا جاتا ہے اور عوام کو ہونے والے اربوں روپے کے نقصان کی کوئی پروا نہیں کی جاتی ۔ بیس اکتوبر کو ایک ایس آر او کے ذریعے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو اوورسیز پاکستانی بیرون ملک سے اپنے استعمال کیلئے گاڑی پاکستان لانا چاہتے ہیں انھیں بینک کا سرٹیفکیٹ بھی دینا ہوگا کہ انھوں نے بیرون ملک سے گاڑی کی ڈیوٹی کی مد میں ڈالر بھی پاکستان بھیجے ہیں یا ڈیوٹی کی رقم کے برابر ڈالر بینک سے تبدیل کرائے ہیں ،بصورت دیگر گاڑیاں کلیئر نہیں کی جائیں گی ،اس حوالے سے ہمارے جو بھی پالیسی میکر ہیں ان کیلئے عرض ہے کہ بیرون ملک مقیم ستر لاکھ پاکستانیوں میں سے صرف ساٹھ ہزار پاکستانی ذاتی استعمال کیلئے یا پھر گفٹ اسکیم کے تحت یا پرسنل بیگج کے تحت استعمال شدہ گاڑیا ں پاکستان روانہ کرتے ہیں ، یعنی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی صرف ایک فیصد تعداد استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان روانہ کرتی ہے ، جس میں اکثریت ایسی ہوتی ہے کہ وہ گاڑیوں کی قیمت خود ادا کرتے ہیں جبکہ گاڑیوں کی ڈیوٹی پاکستان میں انکے اہل خانہ کی ذمہ داری ہوتی ہےیا پھر اکثر پاکستانی بیرون ملک سے بینکوں کے ذریعے جو رقم پاکستان روانہ کرتے ہیں وہ پاکستانی روپے میں ہی ان کے پاکستانی اکائونٹ میں پہنچتی ہے اور اگر رقم ہی روپوں کی صورت میں بینک میں موجود ہے تو وہ پھر کس طرح اسے ڈالر میں تبدیل کرائیں گے ،غرض بہت سارے مسائل پیدا ہوگئے ہیں ،جبکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے ایک دن پہلے قانون میں ترمیم کا فیصلہ کیا اور اگلے دن سے اس نئے قانون کو نافذ بھی کردیا جس سے وہ ہزاروں گاڑیاں جو گزشتہ دومہینے کے پروسس کے ذریعے پاکستان پہنچنے والی تھیں ان پر بھی نیا قانون نافذ ہوگیا۔ حکومتی مالیاتی پالیسیوںمیں اسی عدم تسلسل کے باعث پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہوپاتی ،اصولاََ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر حکومت کوئی نئی مالیاتی پالیسی لانا چاہے یا پرانی پالیسی میں تبدیلی کرنا چاہے تو اسے کم سے کم درآمد کنندگان کو تین ماہ کا وقت دینا چاہیے کہ تین ماہ کے اندر پرانی شپمنٹ کو نمٹالیں ۔ ایک دن کے نوٹس پر پالیسی لاگو کردینا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کے مترادف ہوگا ،اسوقت پاکستان میں بھی استعمال شدہ گاڑیوں کی خریدو فروخت سے متعلق تنظیمیں حکومتی پالیسیوں کیخلاف احتجاج کرتی نظر آرہی ہیں جن میں آٹومیٹو ٹریڈرز اینڈ امپورٹرس ایسوسی ایشن شامل ہے جبکہ آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر نے گزشتہ روز سیکرٹری کامرس سے بھی ملاقات کرکے اس مسئلے پر بات چیت کی ہے جس میں سیکرٹری کامرس نےکہا ہے کہ حکومت نہ صرف گاڑیوں بلکہ مشینوں سمیت کسی بھی طرح کی امپورٹ پر ڈالرز میں ڈیوٹی حاصل کرنے کی خواہاں ہے تاہم اس حوالے سے پالیسی پر مزید کام کیا جارہا ہے تاکہ کسی بھی طرح کے مسائل سے بچا جاسکے، اس حوالے سے ایسوسی ایشن کے صدرکا کہنا ہے کہ حکومت نے پانچ سالہ آٹو پالیسی گزشتہ سال ہی جاری کی ہے اور صرف ایک سال بعد اس میں تبدیلی سے بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور اگر لوگوں کا پیسہ برباد ہوا تو لوگ سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے پر بھی مجبور ہوجائیں گے جسکی ذمہ دار حکومت ہی ہوگی۔

تازہ ترین