• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں مجھ سے احباب اکثر یہ پوچھتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں جمہوریت کا کیا بنے گا؟ کہیں مارشل لا تو نہیں لگ جائے گا؟ کیا تین سالوں کیلئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت تو نہیں لائی جا رہی ہے؟ بظاہر اس نوع کے سوالات یا شکوک و شبہات عجیب لگتے ہیں کہ جب ملک میں آئین نافذ العمل ہے اور آئین میں اس نوع کی غیر جمہوری حرکات کیلئے قطعاً کوئی گنجائش بھی نہیں ہے تو پھر آخر اس نوع کے سوالات عوام کے اذہان میں اٹھتے ہی کیوں ہیں؟ لیکن اگر اپنے ماضی کے دریچوں سے جھانکیں تو بات سمجھ آ جاتی ہے کہ یہاں ایک دہائی اگر جمہوریت کا چلن رہا ہے تو اگلی دہائی آمریت کی رات سایہ فگن رہی ہے جس طرح دن اور رات بدلتے ہیں اُسی طرح یہاں جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ بارہا یہاں دن میں ایسا دھندلکا چھایا رہا کہ رات یا شام کا گمان ہونے لگے۔ یہ وہ پس منظر ہے جس کے اندھیرے اجالے میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بارہا یہ بدگمانیاں اتنی بڑھتی ہیں کہ جنہیں عوامی دنگل میں اپنی کامیابی نہیں دکھتی وہ امپائر کی انگلی اٹھانے کے شوق میں تمام آئینی و اخلاقی حدود پامال کر جانے کیلئے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی مائنس ون کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو کبھی NRO کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں اور کبھی ٹیکنو کریٹس کی تین سالہ حکومت کے نظریئے سے دل بہلایا جاتا ہے۔ ایسے ناہنجار بھی ہیں جو اپنی منفی قابلیت کا سکہ جمانے کیلئے خود کو گویا طاقتور اداروں کا ترجمان بنا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ بس جی سیٹی بجنے کی دیر ہے 60ارکان اپنی پارٹی سے ٹوٹنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔
دوسری طرف سابق کھلاڑی کا اپنی کارکردگی کے متعلق یہ حال ہے کہ گویا خدا کا شکر ادا کر رہے ہیں جو انہیں 2013 کے معرکے نے وفاق میں حکومت نہیں دلائی ورنہ جس طرح KP میں ناکام ہوئے ہیں اسی طرح وفاق میں بھی تذلیل کراتے۔ اب انہوں نے نئی یہ چھوڑی ہے کہ خطرناک لندن گیم پلان سامنے آ گیا ہے ن لیگ کے قائد نے جو نئی طاقت حاصل کی ہے اس کے ذریعے این آر او لینے کے لیے وہ طاقتوروں پر دباؤ ڈالیں گے حالانکہ لندن میں ن لیگ کی قیادت نے جو فیصلے کیے ہیں کوئی بھی سیاسی طورپر بالغ شخص اُن میں کجی نہیں نکال سکتا۔
اگر مائنس نواز فارمولا ن لیگی قیادت کے لیے ناقابلِ قبول ہے تو اس میں اچنبھے کی کون سی بات ہے۔ بلاشبہ ہماری طاقتور غلام گردشوں کی یہ ریت ہے کہ جو شخصیت عوام میں ہر دلعزیز ہو جائے اور بیلٹ کے ذریعے اپنی عوامی پاپولیریٹی ثابت کر دے وہی ہمارے دلوں میں کانٹے کی طرح چبھنے یا کھٹکنے لگتی ہے کیونکہ ہماری چاپلوسی تو وہی کرے گا جس کی اپنی حیثیت مصنوعی پروپیگنڈوں سے نمائشی اسلوب میں گھڑی گئی ہو گی۔ لندن میں اگر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی ماورائے آئین اقدام کی حمایت نہیں کی جائے گی تو یہ خوش آئند سوچ ہے یہ ہر جمہوری ذہن کے دل کی آواز ہے اگر وزیراعلیٰ پنجاب نے لندن میں یہ بیان دیا ہے کہ مسلم لیگ کے صدر یا قائد صرف اور صرف نواز شریف ہوں گے تو یہ اُن کی حقائق شناسی ہے۔
ہم عرض کرتے ہیں کہ کسی بھی عدالتی حیلے سے یا جیل یاترا کے ذریعے اگر انہیں عوام سے دور کیا جاتا ہے پھر بھی پارٹی پالیسی واضح ہونی چاہیے کہ قائد تو بہرحال ایک ہی ہے دیگر جو بھی بحیثیت مجبوری اس ذمہ داری پر بیٹھے گا وہ اس کا قائم مقام ہی ہو سکتا ہے۔ قائد کو بھی سوچ لینا چاہیے کہ جس عزیمت کی راہ پر چلنے کا انہوں نے عندیہ ظاہر کیا ہے یہ کانٹوں سے پُر ہے اور اس میں کوئی کہکشاں بھی نہیں ہے وہ اپنے پیاروں کے ساتھ جیل یاترا پر بھجوائے جا سکتے ہیں۔ اس عمر میں انہیں اس کٹھن مشقت کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا ہو گا۔ پیاروں سے یاد آیا کہ یہ بہت اچھا فیصلہ کیا گیا ہے کہ دونوں جواں سال حمزہ صاحب اور مریم صاحبہ پارٹی پالیسی کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کریں گے۔ یہ ذمہ داری شریف برادران خود ادا کرلیں گے۔
مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت بلاشبہ ان دنوں بڑے طوفان اور مخمصے سے گزر رہی ہے ذرا سی بے اعتدالی یا معمولی غلط فیصلہ انہیں تخت سے تختے پر لا سکتا ہے۔ اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ سب پہلے تولیں گے پھر بولیں گے بالخصوص مسلم لیگ کے صدر یا قائد کے لیے جہاں اپنی عوامی ساکھ کے لیے لازم ہو گا کہ وہ حقائق کا بے باک اظہار کریں وہیں عملیت پسندی کا تقاضا ہو گا کہ وہ دیگر حساس تقاضوں کا بھی ادراک رکھیں۔ آبیل مجھے مار کی پالیسی بھی سراسر گھاٹے کا سودا ہے لیکن اگر وہ روایتی رویہ اپنانے کی طرف آتے ہیں تو یہ اُس سے بھی بدتر ایسا خسارہ ہو گا جس کا کوئی مداوا نہیں۔ ن لیگ کے لیے آج کا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی یکجہتی، عوامی پاپولیریٹی اور اصولی سیاست کو قائم دائم رکھتے ہوئے اپنی مدت کم ازکم سینیٹ الیکشن تک ضرور پوری کر لے اس کے چاہے فوری بعد عبوری سیٹ اپ قائم کرواتے ہوئے نئے مینڈیٹ کی خاطر اسمبلیاں تحلیل کر دے یہی آئینی راستہ ہے جس سے بھٹکانے کے لیے بہت سی چالیں چلی جائیں گی، اشتعال دلائے جائیں گے، جھوٹے اور جعلی پروپیگنڈوں کی کالک ملی جائے گی لیکن وہ استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت قدم رہیں عملیت پسندی کے ساتھ ساتھ اخلاقی و اصولی موقف کا اظہار بھی کرتے رہے تو یہ کٹھن دور بھی گزر جائے گا۔ پی پی والے آپ لوگوں کے متعلق جو مرضی بولیں آپ لوگ یکطرفہ طور پر ہی سہی خود کو میثاق جمہوریت کا وارث قرار دیتے ہوئے ضبط سے کام لیں۔
پچھلے کالم کی طرح ہم نے آج کا کالم آزادیٔ اظہار کے حوالے سے تحریر کرنا تھا بالخصوص آزادیٔ صحافت ان دنوں جس قدر دباؤ میں ہے اس کا ادراک ہر اُس شخص کو ہے جو ضمیر فروشی کو گناہِ کبیرہ خیال کرتا ہے جس کا سب سے بڑا ایوارڈ ہماری نظروں میں جناب احمد نورانی کو جاتا ہے یہ وہ ضمیر کا قیدی ہے جس نے جسم پر چوٹیں لگوا لی ہیں لیکن اپنے شعور اور ضمیر پر آنچ نہیں آنے دی ہمیں اُن کے جسمانی ستم و تشدد سے جتنی تکلیف پہنچی ہے اس سے زیادہ تکلیف اس نئے حملے سے محسوس ہوئی ہے جو اُن کے کردار پر کیا جا رہا ہے۔ کئی ایسے بھی محبوب ہوتے ہیں جو پیار کے چاقو سے انگ انگ زخمی کرتے ہیں اور پھر محبت کے نمک سے اُن پر مساج کرتے ہیں۔

تازہ ترین