• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی جائزوں کے مطابق پنجاب میں ووٹرز کی اکثریت مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کی حامی ہے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی پہلے اور اس کے بعد ایم کیو ایم کی حمایت نظر آتی ہے۔ ملک بھر میں تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم، اے این پی، جماعتِ اسلامی، جے یو آئی اور دیگر جماعتوں پر ووٹرز کتنا اعتماد کرتے ہیں۔ اس کا فیصلہ 2018ء کے انتخابات میں ہوگا۔
پاکستان میں اولین ووٹ بنک قیامِ پاکستان کے تقریباََ بیس سال بعد مشرقی اور مغربی پاکستان میں وجود میں آئے۔ یہ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے ووٹ بنک تھے۔ 70ء اور 80ء کی دہائی میں بھٹو ووٹ پاکستان کی سیاست میں موثر کردار ادا کرتا رہا۔ 1977ء میں پاکستان نیشنل الائنس (PNA) اور 80ء کی دہائی میں اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) بنائے گئے۔ ان انتخابی اتحادوں کا مقصد بھٹو ووٹ کا ملکر مقابلہ کرنا تھا۔ تاہم انتخابات کے بعد ان اتحادوں میں پھوٹ پڑگئی تھی۔ 90ء کی دہائی سے پاکستان میں ایک نیا ووٹ بنک وجود میں آیاہے۔ اس کا نام نواز شریف ووٹ بنک ہے۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں اصل مقابلہ نواز ووٹ اور نواز مخالف ووٹ میں ہوگا۔
ایک مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد کارکردگی کو نہیں بلکہ وابستگی کو اہمیت دیتی ہے۔اس وابستگی کا پاس رکھتے ہوئے امیدوار کی جانب سے قانون پر عمل درآمد نہ کرنے، کرپشن یا غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوٹ ہونے، حتی کہ خود اپنے حلقہ انتخاب سے طویل عرصہ لاتعلقی کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس وابستگی کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں کم شرح خواندگی اور صدیوں سے زرعی معاشرے کی بعض خصوصیات بھی شامل ہیں۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ پارٹی میں موروثی لیڈرشپ اور ملک میں موروثی حکمرانی لوگوں کے ایک بڑے طبقے کے لئے نہ صرف قابل قبول بلکہ بہت پسندیدہ ہے۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی کے کئی ممالک میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد خاندانی سیاست دانوں اور حکمرانوں کو پسند کرتی ہے۔ یہ سوچ صرف بادشاہتوں والے ممالک میں ہی نہیں بلکہ جمہوری ملکوں میں بھی عام ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کا لقب رکھنے والے ملک بھارت میں عوام نے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اور پھر ان کے نواسے راجیو گاندھی کو بہت خوشی کے ساتھ حق حکمرانی دیا۔ بھارت میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت اب راجیو گاندھی کی بیوہ اور اولاد کے ہاتھوں میں ہے۔ کیا انڈیا کی اس قدیم ترین سیاسی جماعت میں موجود انتہائی تجربہ کار اور باصلاحیت سیاست دانوں میں کوئی اس قابل نہیں کہ کانگریس کی قیادت سنبھال سکے؟ یقیناََ کئی سیاست دان یہ منصب زیادہ اچھی طرح سنبھال سکتے ہیں لیکن انہیں بھارت کے ووٹرز میں وہ پذیرائی نہ مل سکے گی جو نہرو خاندان کو ملتی ہے۔ پاکستان میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں انتہائی قابل اور بہت باصلاحیت افراد موجود ہیں لیکن پارٹی قیادت کے لئے پارٹی کے حامیوں کا پہلا انتخاب بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور ان کے بعد ان کا بیٹا بلاول بھٹوہے۔ بنگلہ دیش ہو یا سری لنکا یا مشرق وسطی کا بظاہر ایک جمہوری ملک شام ہر جگہ عوام کا ایک بڑا طبقہ اپنے عمل سے سیاست میں موروثی یا خاندانی بالادستی کا حامی نظر آتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کے مختلف انداز اور ادوار کی اسٹڈیز سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں موروثی لیڈرشپ والی جماعتیں زیادہ مستحکم اور مقبول رہیں۔ غیر موروثی لیڈرشپ والی جماعتیں یا تو مقبول نہ ہوسکیں یا اپنی مقبولیت کو زیادہ عرصہ برقرار نہ رکھ سکیں۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی کی قائم کردہ جماعت اسلامی، ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی تحریک استقلال اس کی واضح مثالیں ہیں۔
تین بار پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف کی سیاسی جانشینی پارٹی کے سینئر رہنمائوں، ورکرز اور حامی ووٹرز کی نظر میں شریف خاندان کا اندرونی معاملہ ہے۔
گزشتہ چند روز سے بعض حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں تبدیلی کی باتیں کی جارہی تھیں۔ کسی کا خیال تھا کہ ان مشکل حالات میں پارٹی کی قیادت میاں نواز شریف کے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو سنبھال لینی چاہیے۔ بعض حلقے میاں نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز کو پارٹی قائد کا کردار ادا کرتے دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا انتہائی مضبوط انتخابی حلقہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے عوامی حمایت کے حصول میں میاں شہباز شریف کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ لاہور، راولپنڈی، ملتان میں میٹرو بس ہو، لاہور میں اورنج ٹرین ہو، تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور انتظامی معاملات کی بہتری سمیت کئی شعبوں میں حکومت پنجاب نے دوسرے صوبوں سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ میاں شہباز شریف نے عوام کی خدمت کے لئے کثیر پہلوی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ ان کی اچھی کارکردگی کا ذکر صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون پاکستان بھی ہورہا ہے۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے حکومتی امور براہ راست تو نہیں سنبھالے لیکن سیاسی معاملات میں ان کی بھرپور شمولیت کی پارٹی کارکنان میں خوب پذیرائی ہوئی ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ خاندان اور پارٹی ہر جگہ میاں نواز شریف کو احترام کے ساتھ اولیت دی جارہی ہے۔ بالفاظ دیگر پارٹی کے اہم اراکین میں میاں نواز شریف کی قیادت پر اتفاق ہے۔ وووٹرز کی جانب سے میاں نواز شریف کو ملنے والی حمایت اور پارٹی کے غیر مشروط اظہارِ وفاداری کو پاکستانی عوام کی بہتری، اداروں کے درمیان بہتر تعلقات، ملکی ترقی اور استحکام کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔
پاکستان میں کچھ عرصہ سے ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کی باتیں بھی پھیلائی جارہی ہیں۔ حکومت سازی کیلئے آئین میں واضح طریقہ کار درج ہے۔ آئینی طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت کس طرح قائم کی جاسکتی ہے؟
اس وقت پاکستان کو داخلی اور بیرونی سطح پر کئی بڑے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ 9/11 کے بعد طویل وقت اور اربوں ڈالر کے اخراجات کے باوجود امریکہ افغانستان میں مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرپایا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں۔ اس جنگ میں پاکستانی افواج کی کامیابیاں ملٹری تاریخ میں بے مثال ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعاون اور تعلقات کو فروغ دینے کے بجائے امریکہ افغانستان میں بھارت کو اپنا ساتھی بنارہا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لئے کئی خطرناک مضمرات رکھتی ہے۔ چین کے صدر ژی جن پنگ کے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) وژن کے تحت پاکستان میں اقتصادی راہداری (CPEC)ی تعمیر بھی بھارت اور چند دیگر ممالک کو سخت ناپسند ہے۔ سی پیک کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے بھارت مختلف طریقوں سے پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔ اس وقت پاکستان کو درپیش مختلف چیلنجز کا تقاضاہے کہ پاکستان میں ریاست کے تمام اداروں میں باہمی اعتماد اور تعاون ہو۔ پاکستان کی مسلح افواج کو عوام کی بھرپور تائید حاصل ہے، تاہم ان حالات میں سیاستدانوں کی باہمی رنجشیں اور کھینچاتانی قوم کے لئے فکرمندی کا سبب ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان کی دونوں بڑی جماعتوں میں لیڈر شپ شریف اور بھٹو کے ہاتھوں میں ہی رہے گی۔ ووٹرز اور پارٹی کارکنان نے ان دونوں جماعتوں کے لیڈروں پر جو اعتماد کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ دونوں جماعتیں پاکستان میں اداروں کے درمیان بہتر تعلقات، ملکی ترقی و استحکام اور سماجی بہتری کے لئے اپنے اپنے کردار کی بہتر ادائی پر توجہ دیں۔

تازہ ترین