• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ لوگوں کے بارے میں آپ عمر بھر رائے قائم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ دراصل ایسے لوگوں نے اپنی شخصیت کے اردگرد ایسے علامتی حصار قائم کئے ہوتے ہیں کہ اُن تک پہنچنے کے لئے کئی رکاوٹوں کو عبور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عقل ان دیواروں پر سر پٹخ پٹخ کر رستہ بنانے کی کوشش میں زخمی ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔ امرتا پریتم بھی ایک ایسا ہی کردار ہے جسے حقیقی سے زیادہ افسانوی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ اس کے اُس ظاہر کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو اس کی شاعری، ناولوں، ڈراموں اور ذات کے براہِ راست اظہار میں منعکس ہے مگر اس کے شعر کا پس منظر کیا ہے، ناول کی بنیاد کیا ہے، ڈرامے میں کون سی حقیقت ہے، اس طرف دھیان جانے کو تیار ہی نہیں۔ ترقی یافتہ زمانے کی دوڑ بھی ظاہری سطح سے نیچے اترنے کا وقت نہیں دیتی سو جو نظر آیا اسی پر اکتفا کر لیا۔ امرتا کو لوگ دو تین حوالوں سے جانتے ہیں اور اسی کا چرچا کرتے ہیں۔ مثلاً ساحر سے اس کا عشق، ناپسندیدہ شخص سے شادی اور امروز سے عجیب محبت کی داستان۔ اس کی شاعری کا حوالہ دینا ہو تو ’’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ سے بات آگے نہیں بڑھتی حالانکہ اس نے اپنی شاعری میں شعریت کا جو حسن بکھیرا ہے، زمانے میں بکھری بے انصافیوں پر جو بین کئے ہیں اور انسان کی تقسیم کا جو نوحہ لکھا ہے اُسے سمجھ کر اپنانے کی ضرورت ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ محبت اور اکلاپے کی بجائے طبقات میں بٹی زندگی نے اُسے اظہار کی طرف مبذول کیا۔ اپنے والد کے مسلمان دوست کے لئے الگ رکھے گئے برتنوں نے ذہن سے پہلا شکوہ کیا کہ ایک جیسی شکل و صورت اور ذہانت والے لوگوں میں یہ تفریق کیوں؟ جسے دوست کہا جائے، دوست مانا جائے اس کے وجود سے تعصب کا کیا رشتہ؟ مگر گھر سے باہر بھی تو یہی عالم تھا۔ دونوں اطراف ایک سی آگ اور ایک سے شکوک موجود تھے۔ دل، دماغ بلکہ پورا وجود اس میں جکڑا گیا تو اس نے محبت کے گھنے درخت تلے پناہ لینی شروع کر دی۔ پہلے تخیل کا جہاں بسایا جہاں زندگی اس کے تصورات کی طرح حسین اور مثالی تھی مگر بندہ ہر وقت خیالی دنیا میں کہاں رہ سکتا ہے۔ کسی نہ کسی تلخ حقیقت کے تھپڑ کی آواز اُسے مادی دنیا میں کھینچ کر درد سے دوچار کر دیتی ہے۔ پھر اُسے ایک جادوگر سے محبت ہو گئی جو محبت کی نظمیں لکھتا اور محبت کے دشمنوں کو للکارتا تھا۔ اسے دونوں نے متاثر کیا۔ وہ اس کی چھائوں میں بیٹھ گئی۔ ابھی سستانے لگی تھی کہ محبت کا پیڑ اپنا سایہ سمیٹ کر کسی اور سمت گم ہو گیا۔ وہ اسے ڈھونڈتی وہاں پہنچی مگر پیڑ نے اپنے اردگرد باڑ تعمیر کر لی تھی۔ وہ نامراد لوٹی اور ایک ایسی زندگی جینے پر مجبور ہوئی جو اسے سخت ناپسند تھی۔ وقت نے ایک اور کروٹ لی اور اس کے حال کو امروز کی کرنوں سے روشن کر دیا۔ عمروں کا فرق حائل ہوا نہ فکر کے زاویے دیوار بنے۔ یک جان دو قالب ہو گئے۔ مرتے دم تک اس حسین رفاقت سے شادمان رہی۔ امرتا پر یہ حقیقت بھی کھلی کہ امروز اس کا ہم نفس تھا جو سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتا تھا اور بن کہے اس کے دل کا معاملہ جان جاتا تھا مگر وقت کے چکر کو کون ٹال پایا ہے۔ یہ گزر جاتا ہے۔ امرتا کے پاس بھی وقت کا کوئی مداوا نہ تھا۔ اسے جانا پڑا مگر وہ اپنے محبوب کو مایوس کر کے جانا نہیں چاہتی تھی اس لئے اس نے اسے ’’میں تینوں فیر مِلاں گی‘‘ (میں تجھے پھر ملوں گی) کی آس دلائی اور چلی گئی۔ امروز کے زندگی میں آنے کے بعد بھی اس نے اپنے نام کو تبدیل کرنا مناسب نہ سمجھا بلکہ پریتم کا لفظ امروز کی ذات پر کندہ کر دیا کیوں کہ یہ اسی پر سجتا تھا۔ ویسے بھی نام بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل مسئلہ تو احساس کا ہے۔ امروز اس کے احساس کا ساتھی تھا اور آج بھی ہے۔
اُسے پنجاب سے گہری محبت تھی۔ وہ اس کی فصلوں، موسموں، رنگوں اور دریائوں کے ساتھ بڑی ہوئی تھی۔ وہ اس کے ہمراز تھے، دوست تھے مگر وقت نے اس کے دریائوں میں اُسی جیسے لوگوں کا لہو بھر کے زمین کو زہریلا کر دیا۔ نفرت کے کالے ناگ اُس کے اردگرد رقص کرنے لگے تو وہ خوف کے قلعے میں چھپ کر بیٹھ گئی اور ’’پنجاب دی کہانی‘‘ لکھنے لگی۔ اُس نے تقسیم کو تسلیم کر لیا مگر نفرت کو لاگو نہ کر سکی۔ تمام عمر اپنے سماج میں تعصب کی دیواریں گرانے کے لئے کوشاں رہی۔ لوگوں کی زندگیوں اور سوچ کو بدلنے کے لئے لفظوں کے علاوہ سیاسی پلیٹ فارم پر بھی سفر کیا۔ ابھی امرتا کی فکر کا اصل چہرہ دنیاوی نقابوں میں چھپا ہوا ہے لیکن کبھی نہ کبھی وقت کی تیز ہوا یہ نقاب اتار پھینکے گی تو دنیا پر اس کی سوچ واضح ہو گی کہ وہ کتنی بڑی انسان تھی جس کا ایمان محبت تھا، جس کا شعور انسانیت کے گن گاتا تھا اور دل اجتماعی خیر کا داعی تھا۔ اُس نے اپنا سفرِ زندگی عزم و ہمت کی قلم سے لکھا اور کبھی کسی دنیاوی جبر سے خوفزدہ ہو کر سچ سے ناطہ نہ توڑا۔ جس کو درست سمجھا اس پر عمل کیا اور ساری عمر اپنے کہے کا پاس رکھا۔ اپنے اصولوں کا پہرہ دیا۔ کئی دفعہ حالات و واقعات کی بساط پر رونما ہونے والی ناخوشگوار صورت حال نے اس کے رستے میں کانٹوں کے پل تعمیر کر کے اسے اپنے مقصدِ حیات اور نقطۂ نظر سے دور کرنے کی کوشش کی مگر وہ مسلسل آگے بڑھتی رہی حتیٰ کہ اس کا نقطۂ نظر اور مقصدِ حیات بدلنے والوں کو اپنی رائے اور راستے بدلنے پڑے۔ پھر وہ خود ایک مکتب فکر بن گئی۔ اس کی شخصیت کی جامعیت کسی جامعہ سے کم نہیں۔ ابھی لوگوں نے اُسے جانا ہی کب ہے۔ جب جان جائیں گے تو اُس سے محبت کو لازم کر لیں گے۔
گوجرانوالہ اور لاہور میں اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی بسر کرنے والی امرتا لاہور ریڈیو سے اپنی آواز کا جادو جگاتی رہی۔ یہ بھی اظہار کا ایک وسیلہ تھا۔ اس نے بڑے درد سہے۔ 7 سال کی عمر میں ماں کی موت کا دکھ، 16 سال کی عمر میں بے جوڑ شادی کا رنج سہنے والی 28 سال کی عمر میں جب وہ سرزمین چھوڑنے پر مجبور ہوئی جس سے اس کا خمیر اٹھا تھا، اس کے تن کا ڈھانچہ تعمیر کیا گیا تھا تو اس پر قیامت گزر گئی۔ جدائی کی گھڑی اتنی کرب ناک تھی کہ زندگی بھر مڑ کر دیکھنے کا حوصلہ نہ ہوا کیوں کہ دوبارہ آ کر واپس جانا مشکل تھا۔ اس کی زندگی میں اور کئی حیرتیں پنہاں تھیں۔ 31کا ہندسہ اس کی زندگی اور موت سے جڑا ہوا تھا۔ وہ 31اگست 1919ء کو اس دنیا میں آئی اور 31اکتوبر 2005ء کو اس دنیا کو خدا حافظ کہا۔ اس کی برسی پر پنجابی زبان و ادب کے علمبردار نامور ادیب اور دانشور فخر زمان نے عالمی کانفرنس کا اہتمام کر کے لاہور اور پنجاب سے جڑی اس کی یادوں اور فکر کو تازہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ حیرت ہے اتنی بڑی شاعرہ، ناول نگار، ڈرامہ نگار اور انسانیت کی علمبردار کے لئے اُس ملک میں سالگرہ اور برسی پر کوئی تقریب منعقد نہیں ہوئی جس کے لئے اُس نے ہجرت کی تھی۔

تازہ ترین