• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں بفضلِ خدا کوئی بڑا آئینی بحران سر اُٹھا رہا ہے نہ نظمِ مملکت کو کوئی بڑا خطرہ لاحق ہے۔ وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی بڑی فرض شناسی اور سادگی سے کاروبارِ حکومت چلا رہے ہیں، مگر یوں لگتا ہے کہ قانون سازوں کے ذہن کند ہو چکے ہیں اور سامنے کی چیزیں بھی اُنہیں دکھائی نہیں دے رہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی سے چلتی ہوئی گاڑی کو اچانک بریک سی لگ گئی تھی اور مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے علم بردار بہت بڑی تباہی کی پیشین گوئیاں کر رہے تھے، لیکن مسلم لیگ کی قیادت نے بڑی بردباری کا مظاہرہ کیا اور لندن میں پانچ بڑوں کی میٹنگ میں طے پایا کہ نوازشریف اپنی جماعت کی قیادت کریں گے، جناب شہباز شریف مستقبل کے وزیراعظم ہوں گے اور محترمہ مریم نواز اور جناب حمزہ شہباز ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں گے۔ نئی نسل کے ان دونوں نمائندوں نے اپنی اپنی جگہ حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیئے اور مشکل وقت میں بڑے ثابت قدم رہے ہیں۔ سیاسی اور صحافتی حلقوں میں محترمہ مریم نواز کے لیے تحسین کے جذبات پائے جاتے ہیں کہ وہ ایک جرأت مند اور ذہین خاتون ہیں اور خطرات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ اُن کی سوچ میں ایک جدت اور اُن کے عمل میں استحکام ہے۔ اسی طرح عزیزی حمزہ شہباز کی استقامت اور ایثار کی ایک دنیا قدر دان ہے کہ جب پورا شریف خاندان جلا وطن ہو کر سعودی عرب چلا گیا تھا، تو اُنہوں نے پاکستان میں رہتے ہوئے ہر بلائے ناگہانی کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا اَور اب قومی اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے پنجاب میں نوجوانوں کو منظم کر رہے، جماعت کے کارکنوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے اور اُن کی عزت کرتے ہیں۔ لندن کے ان بنیادی اور دور اندیش فیصلوں سے مفروضوں کے محل زمیں بوس ہو گئے ہیں اور صحت مند رجحانات کو تقویت ملی ہے۔
ہماری سیاسی جماعتیں بالخصوص ہماری حکمران شخصیتیں ناک کے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی جا رہی ہیں کہ ان کا زیادہ تر وقت فروعی باتوں، ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور عدالتوں میں ضائع ہو جاتا ہے اور اُن کے پاس اہم فیصلے اطمینان سے کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ وہ جب قومی اور ملکی مسائل پر غور و خوض کرتے ہیں، تو اُن کے تھکے ہارے ذہن تخلیقی عمل کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ اب ذرا انتخابات 2018ء کے معاملات کا جائزہ لیجئے۔ جناب عمران خاں جو قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت کے قائد اور تمام سیاسی جماعتوں کے ’بت شکن‘ مشہور ہیں، اُنہوں نے ایک روز عالمِ بے خیالی میں فوری انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔ اُنہیں اس امر کا ہوش ہی نہیں تھا کہ انتخابات کو بروقت کرانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری جناب بابر یعقوب کی طرف سے جب وارننگ جاری ہوئی، تو سیاسی جماعتوں کو ہوش آیا کہ وقت پر انتخابات کرانے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی، چنانچہ اسپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق نے تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں کا اجلاس طلب کیا اور حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے دو تین بنیادی فیصلے اتفاقِ رائے سے کیے گئے۔ یہ سارے کام ایمرجنسی میں ہو رہے ہیں۔
اس مرحلے سے خیروخوبی کے ساتھ گزر جانے کے بعد شفاف اور منصفانہ انتخابات کے سلسلے میں ذہن کو بیدار اور مستعد رکھنا ہو گا۔ 5جون 2018ء کو قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہو جائے گی اور قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے نگران حکومتیں مرکز اور صوبوں میں قائم ہوں گی۔ ان کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ 2013ء کے انتخابات ایک ایسے وزیراعظم کی نگرانی میں منعقد ہوئے جو بڑھاپے کی وجہ سے اپنے فرائض مستعدی سے سرانجام نہیں دے سکے۔ جناب آصف زرداری کہتے رہے کہ یہ آراوز (ریٹرننگ آفیسرز) کے انتخابات تھے، مگر عمومی تاثر یہ تھا کہ جنرل کیانی کی ہدایات کے مطابق فوج نے غیر جانبداری کا پورا پورا خیال رکھا۔ اس بار معاملہ اس اعتبار سے بہت حساس اور نازک ہے کہ لاہور کے حلقہ 120کے ضمنی انتخاب میں یہ شکایات میڈیا میں آتی رہیں کہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر سیکورٹی پر مامور فورس جانبداری سے کام لیتی رہی۔ اس حوالے سے تمام اداروں کو وقت سے پہلے سر جوڑ کر بیٹھنا اور شفاف اور منصفانہ انتخابات کا ایک میثاق تیار کرنا اَور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔
وہ مسائل جن کا قومی وجود کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، ان میں قومی معیشت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ پچھلے دنوں اس موضوع پر ایک تنازع اُٹھ کھڑا ہوا۔ آئی ایس پی آر نے ایوانِ صنعت و تجارت کے تعاون سے ’معیشت اور سلامتی‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس سے ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے صنعت کاروں اور کاروباری حلقوں کے نمائندوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس ادا کر کے معیشت کو مضبوط بنائیں اور برآمدات کو فروغ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں کیونکہ مضبوط معیشت ملکی سلامتی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سیمینار کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کی اور یہ تاثر دیا کہ ہماری معیشت بری بھی نہیں تو اچھی بھی نہیں۔ اسی روز وفاقی وزیر جناب احسن اقبال واشنگٹن میں ورلڈ بینک کے نمائندوں سے ملاقات کر رہے تھے اور اُن کی پریس کانفرنس سے اُنہیں خفت اُٹھانا پڑی جس پر اُنہوں نے سخت بیان جاری کیا، تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے بڑے تحمل اور دانش مندی سے جواب دیا اور معاملہ مزید بگڑنے سے بچ گیا، تاہم ملکی معیشت کے بارے میں سنجیدہ حلقے شدید تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ بیرونی قرضوں کا حجم بڑھتا اور زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ سابق سیکرٹری خزانہ جناب ڈاکٹر وقار مسعود نے گزشتہ کالم کے ذریعے خوشخبری دی ہے کہ معیشت کے مبادیات (Fundamentals) بڑی حد تک مستحکم ہیں۔ مینو فیکچرنگ انڈسٹری میں پہلی سہ ماہی میں 11.3فی صد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ اضافہ صرف 2.1فی صد تھا۔ اسی طرح کپاس کی گانٹھوں میں پہلی سہ ماہی میں 37فی صد، چاول اور گنے کی پیداوار میں بالترتیب 7اور 11فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ستمبر 2017ء میں افراطِ زر 3.9فی صد رہا جبکہ گزشتہ ستمبر میں اس کی یہی شرح تھی۔ اس سے قیمتوں میں استحکام آیا ہے۔
انہوں نے اعداد و شمار سے واضح کیا کہ معاشی سرگرمیوں کے بڑھ جانے سے بیروزگاری میں کمی آ رہی ہے اور سرمایہ کاری کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’سیپ‘ نے بھی اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستانی معیشت کو صحت مند قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر وقار مسعود نے اس خوش کن تجزیے کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی نشان دہی کی ہے کہ بجٹ اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیوں کی صورتِ حال نازک ہوتی جا رہی ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کے مضمون کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ پالیسی کی سطح پر خلا پیدا ہوا ہے اور موجودہ وزیرِ خزانہ جناب اسحٰق ڈار مقدمات میں اُلجھائے جانے کی وجہ سے مالیات پر پوری توجہ نہیں دے پا رہے، اس لیے ان کی جگہ ایک قابل اور تجربے کار وزیرِ خزانہ مقرر کیے جائیں جو اقتصادیات کے عملی پہلو اچھی طرح سمجھتے ہوں۔ اگر جہاز کپتان کے بغیر چلتا رہا، تو کوئی بڑا حادثہ بھی پیش آ سکتا ہے۔
حکومت صحافیوں کے جان و مال اور عزت کے تحفظ میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ جرأت منداور نہایت فرض شناس صحافی احمد نورانی پر چھ موٹر سائیکل سواروں کا حملہ ایک خطرناک صورتِ حال کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس بھیانک جرم کے مرتکب ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے اور اس اثنا میں باضمیر صحافی کی کردار کشی بھی شروع ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا عجب عجب ستم ڈھا رہا ہے جس کے سامنے حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ اس بے بسی سے نکلنے اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تخلیقی ذہن سے کام لینا ہوگا ورنہ پوری قوم خوف ناک ایمرجنسی کی زد میں آ جائے گی۔

تازہ ترین