• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت سے قارئین ہاشم مسعود اسلم کے نام سے واقف نہ ہوں گے۔ یہ کہانی ہے ایک نوعمر لڑکے کی۔ والدین کا اکلوتا بیٹا، دو بہنوں کا اکلوتا بھائی جس کی پرورش محبت بھرے ماحول میں ہوئی۔ والدین کی بے لوث محبت نے اُسے انسان دوستی اور رحم دلی کا سبق دیا۔ ایچی سن کالج میں تعلیم کے بعد بہت سے ہم جماعت بیرونِ ملک سدھار گئے مگر ماں باپ کے پاس اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کو دور بھیجنے کا حوصلہ نہ تھا۔ وہ خوش دلی سے راولپنڈی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔
4 دسمبر کی وہ صبح ایک عام دن کی طرح طلوع ہوئی۔ بیس سالہ ہاشم کے لئے ایک نئی اُمید اور اُمنگ لئے۔ وہ صبح کالج گیا اور پھر دسمبر کی نرم دھوپ میں کالج سے واپس آیا۔ دوپہر کے وقت نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے اُسی مسجد میں چلا گیا جس کے درودیوار سے وہ پوری طرح آشنا تھا۔ اطاعت ِالٰہی کے تقدس میں رچا بسا ماحول اُسے روحانی سکون عطا کررہا تھا اور تحفظ کا احساس بھی۔
یہ 2009ء کا ذکر ہے۔ اسی بدقسمت سال کے شروع میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا۔ پھر دہشت گردوں نے سوات پر اپنا تسلط جمایا۔ عوام بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ خوف کی فضا میں ملک کے اہلِ علم، قوم کو یہ تلقین کرتے کہ ہمیں اپنے روٹھے بچوں کو منانے کا جتن کرنا چاہئے۔ اسلام آباد میں افواہ پھیلی کہ طالبان نے مارگلہ کی پہاڑیوں میں مورچے بنا لئے ہیں۔ اِس پُرآشوب ماحول میں آپریشن ’’راہِ راست‘‘ نے حالات بدل دیئے۔ بطور سیکرٹری کابینہ، میں سوات کے لوگوں کی دوبارہ آبادکاری کے مراحل سے منسلک رہا۔ اپنے دفتر کی کھڑکی سے مارگلہ کی پہاڑیوں کی طرف دیکھتے ہوئے اِس بات پر غور کر رہا تھا کہ ہم کسی فتنے کے تدارک کی پیش بندی کیوں نہیں کرتے۔
سہ پہر کے دوران کیڈٹ کالج حسن ابدال کے پرانے ہم جماعتوں کے فون آنا شروع ہوئے۔ ہم سب نے بارہ، تیرہ سال کی عمر میں کیڈٹ کالج حسن ابدال سے تعلیم شروع کی تھی۔ اُن میں مسعود اسلم بھی شامل تھا۔ شروع کے دنوں میں ہم دونوں کو ایک ہی ہال کمرے میں رہنے کا موقع ملا۔ بہت جلد یہ تعلق باہمی احترام میں تبدیل ہو گیا۔ کلاس میں بھی ہم دونوں کی پوزیشن آگے پیچھے ہوا کرتی تھی۔ ایسا بھی ہوا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ساہیوال جاتے ہوئے میں جہلم اسٹیشن پر ٹرین سے اُترا اور مسعود اسلم کا مہمان رہا۔
اُسے فوج میں کمیشن ملا اور تعلیم مکمل ہونے پر میں سول سروس کا رُکن بنا۔ برسوں بعد ایک دفعہ پھر جہلم میں اُس کے پاس چند گھنٹے ٹھہرا، مگر اُس وقت وہ ایک میجر جنرل کی حیثیت میں چھائونی کا سربراہ تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچ کر اُس نے گیارھویں کور کی کمان سنبھالی۔ سوات کا آپریشن ’’راہِ راست‘‘ اُسی کی زیرنگرانی مکمل ہوا تھا۔
وہ شام پرانے دوستوں اور ہم جماعتوں پر بہت بھاری تھی۔ پتا چلا کہ مسعود اسلم کا اکلوتا بیٹا ہاشم، سانحہ پریڈ لین مسجد میں شہید ہو چکا ہے۔ دہشت گردوں کے حملے میں مسجد کے نمازی نشانہ تھے۔ یہ بات ہتھوڑے کی طرح ذہن پر ضرب لگا رہی تھی کہ اسلام کے نام پر جمعہ کی نماز کے دوران معصوم نمازیوں پر یہ حملہ کس ذہنیت کا عکاس ہے۔ آہستہ آہستہ تفصیلات ملنا شروع ہوئیں۔ کل پانچ دہشت گرد اِس خودکش حملے میں ملوث تھے۔ اُنہوں نے ہینڈ گرنیڈ بھی استعمال کئے اور بندوقوں سے گولیاں بھی چلائیں۔ چھت نیچے آ گری، چالیس نمازی شہید ہوئے اور 80 زخمی۔
اسلام آباد سے راولپنڈی، سفر کے دوران مسعود اسلم کے ساتھ گزارا ہوا بچپن یاد آتا رہا۔ ملاقات ہوئی تو وہ صبر و استقامت سے کھڑا، تعزیت کے لئے آنے والوں سے گلے مل رہا تھا۔ ہاشم کی آخری رسُومات ادا کی جانی تھیں۔ وہ مجھے اپنے ساتھ گھر کے اندرون اُس کمرے میں لے گیا جہاں ہاشم کا جسدِ خاکی رکھا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اُس نے ہاشم کے چہرے پر پیار سے ہاتھ پھیرا، مگر آنکھ سے ایک آنسو نہ گرا۔ ہاشم کی ماں، دُوسری عورتوں کے ساتھ بہت حوصلے سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ آفرین ہے اُن دونوں پر جو اِس موقع پر رنج و الم کے طوفان کو ضبط کئے، حوصلے اور استقامت کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ میری دانست میں ایک باپ کے لئے اس سے بڑا سانحہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے بیٹے کے جنازے کو کندھا دے۔ اِس مرحلے پر بھی اُس کے قدم نہ ڈگمگائے۔ اُس نے کہا ’’ہم روز جن بچوں کو دفن کرتے ہیں وہ بھی تو میرے لئے ہاشم کی طرح ہیں۔‘‘
آج 2017ء ہے۔ اِس سانحے کو آٹھ سال گزر چکے ہیں۔ 2دسمبر کو ہاشم کی برسی ہو گی۔ وہ اِس واقعہ کا اکیلا شہید نہیں تھا۔ اُس کے ساتھ چالیس اور معصوم بھی شہادت کا رُتبہ پا گئے۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ آج بھی لوگ شہید ہو رہے ہیں، کبھی فرقہ واریت کی آگ ہمیں جلا دیتی ہے اور کبھی نفرت کے رویے۔ سوچتا ہوں کہ یہ قربانیاں کب تک جاری رہیں گی؟ کبھی ہم نے اِس مسئلے کو وسیع تر تناظر میں دیکھا ہے۔ پاکستان ایسا تو نہ تھا۔ ہمیں یہ زہریلے نظریات کہاں سے ملے؟ گولی کا جواب گولی سے دیا جا سکتا ہے، مگر ذہنوں میں پیدا ہونے والا سرطان نظر نہیں آتا۔ کب پورا پاکستان متفق ہو کر اِس زہر کا تریاق تلاش کرے گا؟
پچھلے ہفتے میں مسعود اسلم کے گھر گیا تھا۔ یہ گھر 2009ء کے بعد تعمیر ہوا۔ مرحوم بیٹے کی یاد میں گھر کا نام دارُالہاشم رکھا۔ ہاشم کی تصویریں گھر کی سب دیواروں پر نظر آرہی تھیں۔ میں ایک تصویر کے پاس کھڑا اُس کی مسکراتی ہوئی آنکھیں دیکھ رہا تھا۔ مجھے اُس کی معصوم آنکھوں میں ایک سوال نظر آیا۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ میرے قاتل انسانیت سے عاری درندے تھے۔ کیا اُنہیں کوئی احترامِ انسانیت کی تعلیم دے کر انسان بنا رہا ہے؟ بدقسمتی سے میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ پیارے ہاشم، دہشت گردی، انتہا پسندی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اُس کا تدارک صرف سوچ بدلنے سے ممکن ہے، مگر ہم اِس کا ادراک نہیں رکھتے۔ برسوں پہلے ہم نے اپنے تئیں امریکی کندھوں پر چڑھ کر دین کی خدمت کی۔ تلخ حقیقت بعد میں آشکار ہوئی کہ ہم اپنے مستقبل کے راستوں پر کانٹے بچھا رہے تھے۔ پھر کوچۂ سیاست کے ایک خطے میں خرابی دور کرنے کے لئے حکمت کے کیمیا گروں نے لسانی تنظیم کا نسخہ دریافت کیا۔ شفا تو کیا نصیب ہونا تھی اُس دوا کے مضر اثرات آج تک قوم کے لئے مرضِ لادوا بنے ہوئے ہیں۔
اِس سے انکار نہیں کہ سیاسی قیادت نے اِس ملک کو اچھی حکمرانی نہیں دی۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے قائدین دُوربینی کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ حکمرانی کی کم مائیگی اُنہیں ہمہ وقتی بقا کی جنگ میں مصروف رکھتی ہے۔ مگر ہمارے مسائل کا حل آئے دن کی سیاسی چاندماری سے نہیں ہو گا۔ گروہی مفادات کا ٹکرائو اُفق پر ایک نئے طوفان کے طلوع کی خبر دے رہا ہے۔ ہمارے کیمیا گر، اس دفعہ، فرقہ بندی کے خمیر سے اِک نیا کشتۂ نایاب تیار کر رہے ہیں۔ پیارے ہاشم، تیری مسکراتی آنکھوں کے سوال کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ ہماری بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ علاج کے لئے جو دوا انتخاب کی، اُس میں نئے آزار کے جرثومے پہلے سے موجود پائے۔ یہی دُعا ہے کہ تیری شہادت کے صدقے، اللہ اِس ملک پر رحم فرمائے۔

تازہ ترین