• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں جب لاہور میں 1973میں نیشنل سینٹر میں کام کر رہی تھی ایک دفعہ ابن انشا آئے تو واپس کراچی جا کر کالم لکھا ’’لاہور سات دن اور آٹھ میلوں کیلئے مشہور تھا، کشورنے سچ کر دکھایا ہے۔‘‘ اب یہی مقولہ اپنی دوست فوزیہ سعید پر صادق آتا ہے۔ یہ خاتون جب سے لوک ورثہ میں آئی ہے اس ادارے کو ایسے پہیے لگائے ہیں کہ ہر روز کچھ نہ کچھ ایسا ہو رہا ہوتا ہے کہ دل خود ہی کھنچا جاتا ہے۔ ادارے کی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں کو اس نے بالی جٹی آڈیٹوریم ’’سارنگا آڈیٹوریم‘‘ ریشماں اور فیض آڈیٹوریم کے نام دے کر اپنے اسٹاف کو ساتھ ملا کر خود اینٹیں اٹھا کر دیواریں کھڑی کیں۔ کنسرٹ، موسیقی، ڈانس، لوک موسیقی اور لوک رقص، کھانے کے علاوہ کچھ ہنرمندوں کیلئے ہٹ بنا دیئے ہیں۔ وہ وہیں رہتے ہیں، کوئی مٹی کے روغنی برتن بنا رہا ہے، کوئی سندھی اور بلوچی ٹوپی بنا رہا ہے، کوئی کھڈی پر کام کر رہا ہے، لطف کی بات یہ ہے کہ ان سب کاموں کیلئے وہ سرکار کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ جنون کے عالم میں اپنے دفتر کا فرنیچر، اسٹیشنری، کراکری، سب کچھ تو لوک روایتوں کو سامنے رکھ کر ایک جٹی کی طرح کام کر رہی ہے۔ جس زمانے میں سرکار اور پارٹیوں کے لوگ وفاداریاں تبدیل کر رہے اور اس کی وضاحتیں بھی پیش کر رہے ہیں، نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا، انقلابیوں جیسے حبیب جالب، احمد فراز اور فیض صاحب کیلئے نہ صرف تقاریب بلکہ لوک ورثے کی لائبریری کو ڈیجیٹل بھی کر لیا ہے۔ ہر ہفتہ ایک منڈوا لگواتی ہے۔ دن، رات کسی پرانے فنکار کو یاد کرنے محفلیں برپا کرتی رہتی ہے۔
یوں تو اکیڈمی آف لیٹرز میں لسانیات کے ماہر ڈاکٹر بوگھیو نے چارج سنبھالا، بس پھر کیا تھا۔ نوجوانوں کو خاص کر ادب کی جانب رغبت دلانے کیلئے لیکچرز اور ورک شاپس کا اہتمام کیا۔ اب ساری توجّہ پاکستان کے یہ صوبائی ادارے یعنی کے پی، آزاد کشمیر اور پنجاب کے علاوہ سندھ میں اکیڈمی کی شاخیں قائم کرنے اور وہاں کے ادیبوں کی کتابیں شائع کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ ہم سے دور مگر اسپتال کے نزدیک اس ادارے میں اب باقاعدہ ٹی ہائوس بھی ہے جہاں حلقۂ ارباب ذوق کے علاوہ دیگر ادارے تقاریب منعقد کرتے ہیں اور مہینے میں ایک دفعہ ایک ادیب کے ساتھ تفصیلی شام منائی جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جس زمانے میں ایک اشاعتی ادارے کے مالک نیاز بھائی زندہ تھے، ہم سب کی کتابوں کے آنے کا انتظار کرتے تھے، خوب کھانا کھلا کر پھر کتابوں پر گفتگو اس دن کا معمول ہوتا تھا۔ میں نے جب لاہور چھوڑا تو اصغر ندیم سیّد نے اس شام کی مجلسی زندگی کوقائم رکھا۔ اب انتظار صاحب کے جانے کے بعد بس ایک شام نیّر علی دادا کی گیلری میں اور کبھی ایرج کے گھر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اب ایک اور نیا ادارہ جسے ریڈنگز کہتے ہیں، وہاں سلیم الرحمان، زاہد ڈار، اکرام اللہ اور محمودالحسن اکثر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب بھی لاہور جائو وہاں کا چکر لگانا ضروری ہوتا ہے۔
نیشنل بک فائونڈیشن میں انعام الحق جاوید نے یہ اضافہ اور بہت بڑا اضافہ کیا ہے کہ جہاں جہاں کراچی سے لاہور تک چائے خانے ہیں، وہاں کتابوں کا ایک شیلف کھلوا دیا ہے۔ یہ الگ بات کہ وہاں ادب کی کتابیں دوسرے موضوعات سےکم ہیں۔ سالانہ ادبی میلہ الگ کہ اس میں عالمی سطح پر ادیب اور پڑھنے والے دونوں بلائے جاتے ہیں۔ اکیڈمی کی طرح ماہانہ خبرنامہ بھی شائع ہوتا ہے مگر اکیڈمی جیسی منفرد کتابیں جیسے انتظار حسین نمبر، سارک ممالک کے افسانے، ڈرامہ اور افسانہ لکھنے کی گائیڈ شائع کی ہیں، وہ بات نہیں۔
خبرنامہ اور ماہنامہ سائنس میگزین ،اردو ادب کے اہم نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے بھی خوبصورتی اور علمیت کے ساتھ نکالنے کے علاوہ سائنس دانوں کے مشاورتی اجلاس اور ضروری کتابیں بھی شائع کرنی شروع کی ہیں۔ ایک اہم نقاد کس طرح اردو سائنس بورڈ میں روح پھونک رہا ہے، پڑھ کر اور سن کر اچھا لگتا ہے۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ایک اکیلا شخص اپنے آپ میں انجمن بنا، کچھ نہ کچھ حیران کن مجلہ پیش کر دیتا ہے۔ اس دفعہ تو کمال ہو گیا کہ اردو افسانے کے 130 سالوں کے نمائندہ افسانوں کو ہزار صفحے کے مجلے کی شکل میں پیش کر کے ہر جانب سے داد وصول کر رہا ہے۔ یہ شخص ادب کا ذوق تو ہمیشہ سے رکھتا تھا مگر اب سنا ہے شعر بھی کہنے لگا ہے۔ اسکا نام ہے ممتاز احمد شیخ جو کہ گورنمنٹ کالج کے اولڈ راوینز کی جانب سے ہمیشہ کچھ نیا پیش کر رہا ہے۔
ایک اور عجیب و غریب، قابل ستائش اور مسلسل کام ڈاکٹر آصف فرخی کر رہا ہے۔ مضامین اردو، انگریزی میں لکھتا ہے، تنقید اور افسانہ اس کی محبت اور پھر شہر زاد جیسا رسالہ نکالتا ہے کہ نئے لکھنے والوں سے بھی ملاقات کرواتا ہے۔ اپنے آپ میں انجمن تو مبین مرزا بھی ہیں کہ ماہ نامہ وہ بھی وقت پر الحمرا کی طرح شائع کرتے ہیں اور حسن کار کی داد پاتے ہیں۔ ایک اور شخص جو میری عمر کا ہے اور الاقربا کے نام سے سہ ماہی ادبی، تاریخی اور تحقیقی مقالات کے علاوہ آخری صفحے پر ٹوٹکے بھی شائع کرتے ہیں۔ یوں تو اظہر جاوید کے بیٹے سنان جاوید بھی مقدور بھر کوشش کر کے رسالے کو باقاعدگی بالکل ’’بیاض‘‘ کی طرح تواتر اور خلوص کے ساتھ نکال رہے ہیں۔ سنا ہے افتخار عارف اردو، چینی ڈکشنری بنانے میں مصروف ہیں۔ اب آخر میں ضروری بات کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری سنگت رسالہ اور ہر ماہ بلوچستان کے فراموش کردہ ادیبوں اور سیاست دانوں پر ’’عشاق کے قافلے‘‘ کے نام سے کتابیں شائع کر رہے ہیں، یہ اکیلا بھی انجمن ہے۔

تازہ ترین