• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے پیارے دوست محمد احمد نورانی پر حملہ کرنے والے کون تھے، کہاں سے آئے تھے اور کس نے انہیں یہ کام سونپا تھا۔ تاہم ان کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ چھ نوجوان تھے، تین موٹر سائیکلوں پر سوار تھے، بہت غصے میں تھے، آہنی راڈوں اور مکوں سے مسلح تھے، حملے کرتے ہوئے غلیظ گالیاں دے رہے تھے، ان کا ٹارگٹ صرف احمد کا سر تھا جس کا مقصد یقیناً صرف دماغ کو کچلنا تھا تاکہ وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو جائیں اور سوچنے اور سمجھنے کی طاقت سے محروم ہو کر دنیا کے سامنے ایک مثال بن جائیں، وہ کافی دیر اپنے ٹارگٹ کی کار کا پیچھا کرتے رہے، انہوں نے دن دیہاڑے ایک مصروف شاہراہ پر انسانیت سوز حملہ کیا، ان کی موٹرسائیکلوں پر نمبر پلیٹیں نہیں تھیں، انہوں نے اپنا مشن بڑی کامیابی سے مکمل کیا اور جائے واردات سے بغیر کسی روک رکاوٹ کے فرار ہوگئے، نہ صرف وہ بلکہ وہ لوگ بھی جنہوں نے ان کو یہ کام سونپا تھا بہت خوش ہوئے ہوں گے کہ انہوں نے پیچھے اپنا کوئی کھرا نہیں چھوڑا اور واردات کے ایک ہفتے بعد بھی ان مجرموں کا کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ احمد اب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کرم سے بڑی تیزی سے صحت مند ہو رہے ہیں ،ڈاکٹروں کی رائے ان کے بارے میں حوصلہ افزا ہے، باوجود اس کے کہ وہ بہت کرب میں ہیں انہوں نے کسی کو حملے کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا اور یہ کام ریاستی اداروں پر چھوڑا ہے کہ وہ مجرموں کو تلاش کریں، ان کی جرات اور حوصلہ کسی طرح بھی اس حملے سے متاثر نہیں ہوا ،نہ ہی ان کی قومی امور پر رائے میں کوئی تبدیلی آئی ہے، ان کی دلی خواہش ہے کہ حملہ آوروں کو پکڑا جائے اور انہیں ان کے جرم کے مطابق سزا دی جائے، وہ قانون کی حکمرانی اور انصاف چاہتے ہیں اور انہیں آج بھی اس بات کا بڑا دکھ ہے کہ ان پر حملے کی وجہ سے پاکستان کا نام دنیا میں بہت بدنام ہوا اور ایسا کرنے والوں نے اپنے ملک کی عزت کا نہیں سوچا۔
آخر کب تک نا معلوم حملہ آور نامعلوم رہیں گے ان کے بارے میں معلوم کرنا ہماری تمام ریاستی ایجنسیوں اور اداروں کی اولین ذمہ داری ہے ورنہ پاکستان کی حالت ایک جنگل سے مختلف نہیں ہوگی۔ ہمیں مکمل اعتماد اور یقین ہے کہ ہماری ایجنسیوں میں اتنی قابلیت اور اہلیت ہے کہ وہ ان نامعلوم افراد کا چہرہ پورے پاکستان کے سامنے لاسکتی ہیں۔ صرف پولیس پر ہی یہ کام چھوڑنا نا مناسب ہوگا اور نامعلوم افراد کو نامعلوم رہنے کے طرف ہی ایک قدم ہوگا۔ ہماری ایجنسیوں کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اعتراف پوری دنیا کو ہے کہ وہ مشکل سے مشکل کام بھی کر لیتی ہیں۔ دہشتگردی کو بڑی حد تک ختم کرنا کوئی آسان کام تو نہیں تھا جس کو انہوں نے بڑی کامیابی سے کیا ہے۔ احمد پر حملہ ان سب کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ اپنے کمالات دکھائیں اور چھ مجرموں کو بلاتاخیر انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں۔ بدقسمتی سے بہت سارے کیسسز میں نامعلوم افراد نامعلوم ہی رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان نامعلوم افراد کے حوصلے اور بڑھتے ہیں اور وہ مختلف شہریوں کا مختلف الزامات کی بنا پر جینا دوبھر کرتے رہتے ہیں۔ یقیناً یہ نامعلوم افراد پاکستان کی ریاست سے زیادہ طاقتور نہیں ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے سے بے شمار لوگوں نے احمد سےاظہار یکجہتی کیا ہے جن میں بہت سے وفاقی وزراء اور سیاستدان شامل ہیں۔ پاکستان آرمی کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی انہیں پھولوں کا گلدستہ بھجوایا اور ٹیلی فون پر بات بھی کی جس میں انہوں نے یقین دلایا کہ ان کا ادارہ ہر قسم کی مدد دینے کو تیار ہے تاکہ مجرم پکڑے جائیں۔ یقیناً احمد کو نیک خواہشات اور خیر سگالی کی بھی ضرورت ہے مگر اس سے بڑھ کر تمام اہل اقتدار کو چاہئے کہ ان پر ہونے والے ظلم کی داد رسی کرنے کیلئے مجرموں کو پکڑیں اور انہیں سزا دلوائیں۔ اس گھنائونے جرم کی تفتیش کیلئے ایک جے آئی ٹی بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جس کو ایک ڈیڑھ ہفتہ دیا جائے جس میں وہ اپنی رپورٹ مکمل کرے اور حملہ آوروں کو گرفتار کرے۔ ہماری ایجنسیاں بہت ہائی ٹیک ہوگئی ہیں جن کیلئے یہ کام مشکل نہیں ہے۔ کچھ لوگ اور پولیس افسران تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ایک ایس ایچ او کو ہی مکمل فری ہینڈ دے دیا جائے تو وہ اپنی ایک ٹیم بنا کر چند دنوں میں ہی کامیاب ہوسکتا ہے ۔
احمد نورانی ایک سچا ،ایماندار ،باکردار ،ذہین اور پرمغزصحافی ہے باقی تمام انسانوں کی طرح اس میں بھی کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں مگر یہ ایسی نہیں ہیں جس سے کسی کا دل دکھے، جس میں منافقت ہو، جس میں دغا بازی ہو، جس میں کسی کو نقصان پہنچانا مقصود ہو اور جس میں کسی کی توہین کا پہلو ہو۔ مختلف قومی معاملات پر وہ واضح رائے رکھتا ہے جس سے اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے لیکن اسے دلائل سے قائل کرنا پڑتا ہے۔ یہ ’’فیملی مین‘‘ ہے جس نے ہمیشہ اپنی خواہشات کو پیچھے رکھا اور اپنے فیملی ممبرز کی تعلیم اور تربیت کو آگے۔ اس کے بارے میں غلیظ پروپیگنڈا کرنا کہ فلاں کے ساتھ اس کا آفیئر ہے جس کے بھائیوں نے اس پر گزشتہ جمعہ کو حملہ کیا گھٹیا الزام اور بے غیرتی ہے ۔ جو بھی احمد کو پچھلے کئی سالوں سے بڑے قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ وہ اس طرح کا نہیں ہے۔اس طرح کی گندگی پھیلا نے کا مقصد اصل حملہ آوروں پر سے توجہ ہٹانا تھا جس میں کامیابی ہونا ممکن نہیں ہے بلکہ اکثر لوگ تو ایسی غلاظت پھیلانے والوں پر ہی ’’توئے توئے‘‘ کر رہے ہیں کہ کرائے کے لوگ کس حد تک گر سکتے ہیں۔ احمد پر حملے کے فوراً بعد یہ بھی افواء بھی پھیلائی گئی کہ یہ کام انٹیلی جنس بیورو کا ہے۔ اس کا مقصد بھی یہ تھا کہ اس حملے کا ملبہ کسی اور پڑ جائے۔ یہ گمراہ کن بات بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی تاکہ مجرموں کے چہرے آشکار نہ ہوسکیں۔ جب جیو کے رپورٹر ولی خان بابر قتل ہوئے تو اس وقت بھی یہ بات پھیلائی گئی کہ ان کا بھی کسی حملہ آور کی بہن سے تعلق کا مسئلہ تھا مگر بعد میں پتہ چلا کہ اس آدمی کی تو سرے سے کوئی بہن ہی نہیں ہے۔ ہمارے دوست عمر چیمہ اور حامد میر پر حملوں کے بعد بھی ایسی ہی من گھڑت باتیں کی گئیں ۔ ہمیں یاد ہے کہ جب سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی پرویز مشرف کے دور میں اپنے گھر میں نظر بند تھے تو اس وقت بھی اس طرح کی افواہیں پھیلائی گئیں مگر آج تک کوئی ایک بھی سامنے نہیں آیا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ ان افراد پر ظلم کے پہاڑ اس کی وجہ سے ٹوٹے۔ ایسے تکلیف دہ لمحات میں بیچاری نامعلوم لڑکیوں کو بیچ میں لانے سے ان افراد کی ذہنی پستگی ظاہر ہوتی ہے۔ پچھلے واقعات تو گزر گئے اب تو احمد کے بارے میں جس نے بھی یہ لکھ کر دعویٰ کیا ہے کہ ایک لڑکی کے بھائی نے ان کو مارا پیٹا اس کو چاہئے کہ وہ اس خاتون کو سامنے لائے۔ اس سے تو نامعلوم افراد ایک دم معلوم ہو جائیں گے اور ایک گھنائونا کیس بھی فوراً حل ہو جائے گا۔

تازہ ترین