• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن ایک بار پھر پاکستانی سیاست کا مرکز دکھائی دے رہا ہے۔ ویسے تو ماضی میں اکثر بڑے فیصلے لندن میں ہوتے رہے ہیں۔ میثاق جمہوریت نے بھی برطانیہ میں ہی جنم لیا تھا مگر اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے فیصلے ملک سے باہر کیوں ہوتے ہیں؟ اور ان فیصلوں میں بیرونی طاقتیں کیوں حائل ہوتی ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر ذی شعور اور دردمند پاکستانی کے دماغ میں اٹھ رہا ہے۔ کیا ہم سیاسی طور پر اتنے بانجھ ہوچکے ہیں کہ ہمیں اپنے قومی مسائل کے حل کے لئے دوسروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔ اگر پاکستان کو ایک باوقار اور خودمختار ملک کے طور پر ابھرنا ہے تو ہمیں خودانحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا۔ بہرکیف مسلم لیگ(ن) کے لندن میں اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مائنس نوازشریف فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا اور ملک میں کسی غیر آئینی اقدام کی بھی حمایت نہیں کی جائے گی۔ جہاں تک مائنس نوازشریف کا معاملہ ہے تو عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے کر خود ہی پاکستانی سیاست سے مائنس کردیا ہے۔ اس وقت احتساب عدالت میں ان کے خلاف نیب کے دائرکردہ ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔ اگر وہ واقعی بے قصور ہیں تو انہیں احتساب عدالت سے ریلیف مل جائے گا۔ اب ان کا کہناہے کہ وہ آئندہ پیشی کو عدالت میں پیش ہوں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ کبھی سعودی عرب اور کبھی متحدہ عرب امارات کا قصد کرتے ہیں مگر احتساب عدالت میں وہ دانستہ پیش نہیں ہوئے۔ اب تو احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف پر ان کی غیر موجودگی میں فرد جرم بھی عائد کردی گئی ہے۔شریف فیملی کو احتساب کے عمل سے راہ فرار اختیار نہیں کرنی چاہئے بلکہ عدالتوں میں اپنے خلاف مقدمات کا دفاع کرنا چاہئے۔ پانامالیکس کیس کی جب سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی تھی اُس وقت حسن نواز، حسین نواز سمیت پوری شریف فیملی عدالت عظمیٰ میں پیش ہورہی تھی بلکہ جب سپریم کورٹ نے پانامالیکس پر جے آئی ٹی بنائی تو مسلم لیگ(ن) نے پورے ملک میں مٹھائیاں بانٹی تھیں لیکن جب جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی تو شریف فیملی پر سکتہ طاری ہوگیا۔ یہ ایک نامناسب اور غیر جمہوری طرزعمل ہے۔ نوازشریف اکثریہ سوال پوچھتے ہیں کہ انہیں کیوں نکالا گیا؟ یہ سوال تو انہیں اپنے آپ سے کرنا چاہئے، ساری حقیقت کھل کران کے سامنے آجائے گی۔
2018کا الیکشن اب قریب ہے۔ صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو اب اداروں کے خلاف مخاصمانہ پالیسی کوختم کر کے ملک کے وسیع تر مفاد میں آگے بڑھنا ہوگا۔ ریاستی ادارے ملکی سلامتی کے ضامن ہیں۔ ان اداروں کو کمزور کر کے کسی کو کچھ نہیں ملے گا بلکہ اس کے نتیجے میں ملک کی سلامتی کو مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اس وقت چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ملک میں آئے روز کرپشن کی نئی نئی داستانیں رقم ہورہی ہیں۔ تازہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق جولائی2013سے فروری2016تک پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کو برطانیہ سے ملنے والی 4ارب 46کروڑ روپے کی امداد کا ریکارڈ غائب کردیا گیا۔ ملک کے اندر پورا نظام ہی کرپشن زدہ ہوچکا ہے۔ کرپشن چھپانے کے لئے ریکارڈ کو غائب کرنا یا جلا دینا روایت بن چکا ہے۔ جب تک کرپشن کی روک تھام کے حوالے سے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کئے جاتے عوام کو ریلیف میسر نہیں آسکتا۔ ملک میں روزانہ12ارب روپے کی کرپشن نے ثابت کردیا ہے کہ حکمرانوں نے سوا چار سالوں میں ملک وقوم کو لوٹنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں روزانہ اربوں روپے کی کرپشن کسی ناسور سے کم نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وسائل کی دولت سے مالامال بنایا ہے۔ معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں اس کے باوجود پاکستان کا شمار پسماندہ ممالک کی فہرست میں ہوتاہے۔ کرپشن اور لوٹ مار کرنے کے لئے ارباب اقتدار ملکی وسائل سے استفادہ کرنے کی بجائے غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکے دے رہے ہیں۔ پانامالیکس میں بے نقاب ہونے والے دیگر 436 پاکستانیوں اور کرپٹ افراد کا بھی کڑا احتساب ہونا چاہئے۔ کرپشن نے ملکی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ من پسند افراد لگانے اور لوٹ مار کرنے سے منافع بخش قومی ادارے خسارے میں جا چکے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی ناکام معاشی پالیسیاں وبال جان بن چکی ہیں۔ غریب عوام کو دو وقت کی روٹی کمانا بھی دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ترقی اور خوشحالی کے دعوے کرنے والے حکمراں عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کچھ نہیں کرسکے۔ ملک وقوم کو سب سے زیادہ نقصان کرپٹ مافیا نے پہنچایا ہے۔ قومی خزانہ لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے والوں کا احتساب شروع ہوچکا ہے۔ احتسابی عمل کے شروع ہونے سے نہ صرف ملک میں جمہوریت اور ادارے مضبوط ہوں گے بلکہ شفاف احتساب سے ملک کو کرپشن جیسی لعنت سے بھی نجات مل سکے گی۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بددیانتی، کرپشن اور لوڈشیڈنگ جیسے سنگین مسائل نے ملک کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے غریب عوام کو فاقہ کشی اور خودکشی پر مجبورکردیا ہے۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے پوری قوم کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ دولت چند ہاتھوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر ملکی بیوروکریسی درست ہوجائے تو پاکستان دنیا کے نقشے پر مثالی ملک بن سکتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو وسائل سے مالا مال بنایا ہے۔ جب تک سودی نظام معیشت کی بجائے اسلامی طرز معیشت کو اختیار نہیں کر لیا جاتا ملک کو درپیش مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظمؒ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ پاکستان کا آئین کیا ہوگا؟ توانہوں نے تاریخی جواب دیا تھا کہ ہمارا آئین قرآن وسنت پر مبنی ہوگا۔ آج بھی ملک کے تمام مسائل کا حقیقی حل قرآن وسنت کے نظام کے نفاذ میں ہے۔ اگر اقوام متحدہ انسانی حقوق کے چارٹر میں قرآنی احکامات کو شامل کرتی ہے اور اسی طرح اسکینڈے نیوین ممالک میں آج بھی حضرت عمرؓ کے قوانین کو اختیار کیا جاتا ہے تو پھر اسلام کے نام پر بننے والا ملک پاکستان کیوں اسلامی قوانین کی برکتوں سے اب تک محروم ہے؟

تازہ ترین